غزہ میں اسرائیلی بربریت کا ننگا رقص

 اسرائیل کی غزہ پر مسلسل چوبےس گھنٹے جاری بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 400 ہوگئی جس کے باعث سات اکتوبر سے ہونے والی جھڑپوں میں مجموعی تعداد چارہزار چھے سو سے بھی تجاوز کرگئی۔ اسرائیل نے غزہ کے علاقے الجبالیہ کے پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنایا۔ اس علاقے میں ایک اسپتال اور ایک تاریخی مسجد بھی بمباری میں مسمار ہوچکی ہے۔الجبالیہ میں اسرائیلی بمباری کو بلا تعطل 24 گھنٹے ہوگئے جس کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 400 ہوگئی جب کہ 100 سے زائد زخمی ہیں۔ القدس اور الشفا اسپتال تباہ ہو چکے ہےں۔اسی طرح مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی کارروائی میں دو فلسطینی نوجوان شہید ہوگئے۔ مغربی کنارے میں شہید ہونے والے نوجوانوں کی تعداد دس سے زائد ہوگئی۔گزشتہ روز اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کے شمالی علاقوں سے انخلا کے لیے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ جو شہری جنوبی غزہ منتقل نہیں ہوئے انہیں حماس کا حامی کا سمجھا جائے گا۔اسرائیلی فوج نے دھمکی دی تھی کہ شمالی غزہ میں الٹی میٹم کے بعد بھی رہ جانے والے فلسطینی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ شہری حماس کے لیے انسانی ڈھال نہ بنیں۔حماس نے غزہ کی سرحد کے پاس اسرائیلی حملے کو پسپا کردیا جس میں اسرائیلی فوج کے دو بلڈوزر اور ایک ٹینک تباہ ہوگئے۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکرونگ القسام بریگیڈز اور اسرائیلی فوج کے درمیان خان یونس کے سرحدی علاقے میں زمینی جھڑپ ہوئی جس اسرائیلی فوجیوں کو اپنی گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے کی کوشش ناکام بنادی۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ کی سرحد پر خان یونس کے قریب اسرائیلی زمینی حملے کو پسپا کر دیا ہے جبکہ اسرائیل نے بھی ایک فوجی ہلاک اور تین دیگر کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔اسرائیلی فوج غزہ اور تل ابیب کے درمیان آہنی باڑ کی مرمت کے لیے جانا چاہتی تھی اس دوران اسرائیلی فوج کا ٹینک حماس کے عسکری ونگ کے زد میں آگیا۔ اسرائیلی کی جانب سے غزہ پر حملے کا سترھواں روز ہے اور اس عرصے میں غزہ کے شہدا کی تعداد پانچ ہزار کے قرےب ہو چکی ہے ۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مطابق شہدا میں 40 فیصد معصوم بچے شامل ہیں اور سولہ ہزار افراد زخمی ہیں۔ادھرچین نے اسرائیل اور فلسطین تنازع میں شدت آنے کے بعد مشرق وسطی میں اپنے چھے جنگی بحری جہاز تعینات کردئیے۔چینی میڈیا کے مطابق عمان کی بحریہ کے ساتھ مشقوں کے بعد چین کی ٹاسک فورس نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوگئی ہے۔ چین کی جانب سے مشرق وسطی میں ٹائپ 052 ڈی گائیڈڈ میزائل ڈیسٹرائر زیبو، فریگیٹ جِنگ زہو اور سپلائی شپ چِنڈاہو شامل ہیں۔اس سے قبل امریکا سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی مدد کیلئے اپنا جنگی بحری بیڑا یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ اور اس سے منسلک جنگی گروپ کوپہلے ہی مشرق وسطی میں تعینات کرچکا ہے۔فلسطےن میں ہلاکتوں کی تعداد میں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو بھی یرغمال بنایا گیا ہے جس نے اسرائیل کے ایک انتہائی مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔ےہ سوال کےا جا رہا ہے کہ بہترین وسائل کی موجودگی کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس کو اس حملے کی خبر تک نہ ہو سکی۔اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی موساد اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کے تمام وسائل کے باوجود یہ حیران کن امر ہے کہ کسی کو بھی اس حملے کی توقع تک نہ تھی اور اگر تھی بھی تو وہ اس کو موثر انداز میں روکنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل کے پاس پورے مشرقِ وسطی کی سب سے زیادہ وسائل والی اور وسیع انٹیلی جنس سروس ہے۔ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے علاوہ لبنان، شام اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں ان کی جانب سے عسکریت پسند کمانڈرز کو انتہائی مہارت سے قتل کیا گےا ہے، اس دوران انہیں ان کی نقل و حرکت کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا تھا۔کبھی ایسی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس نے مطلوبہ شخص کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکرز لگائے اور پھر ڈرون حملے کی مدد سے ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں اس خفیہ ایجنسی کی جانب سے موبائل فونز میں دھماکوں کا بھی سہارا لیا جا چکا ہے۔غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ یہاں کیمرے اور گرانڈ موشن سینسر یعنی کسی بھی قسم کی حرکت کی صورت میں الارم بجانے والے سینسرز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اسرائیلی فوج باقاعدگی سے گشت بھی کرتی ہے۔خاردار تاروں کی باڑ کو کسی بھی قسم کی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک سمارٹ بیریئر سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم اس حملے کے دوران یہ رکاوٹ بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔حماس کے عسکریت پسند اسی راستے سے نہ صرف اندر داخل ہوئے بلکہ انہوں نے خاردار تاروں کو کاٹا اور اس راستے کے ذریعے یا پیراگلائےڈرز اور سمندر کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔اس طرح کا پیچید اور مربوط حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا جس میں پہلے راکٹس کو ذخیرہ کیا گیا اور پھر ہزاروں راکٹ فائر کیے گئے اور یہ سب اسرائیلی فورسز کی ناک کے نیچے سے کر گزرنا، اس سے حماس کی لاجواب آپریشنل سےکیورٹی کے لیول کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپیشل فورسز کی جانب سے ریسکیو آپریشن کرنا ایک آپشن ضرور ہے اور اسرائیلی ڈیفنس فورس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کے فوجی ایک سے زیادہ علاقوں میں تعینات بھی کیے جا چکے ہیں۔یہاں خطرہ یہ ہے کہ یرغمال بنانے والے ریسکیو ٹیموں کے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یرغمالیوں کو قتل نہ کر دیں۔اسرائیل کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو کیسے روکے جو حماس کی جانب سے ہتھیار اٹھانے اور عسکریت پسند تنظیم کا حصہ بننے کی پیشکش کو قبول کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ مغربی کنارے میں پھیلنے والی شورش پر کیسے قابو پائے اور لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر حزب اللہ جنگجوﺅں کے خلاف کیسے کارروائی کرے؟غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کی بجلی بند کر دیے جانے کے بعد ہسپتال کو بجلی کے جنریٹر چلانا پڑ رہے ہیں۔ تاہم ان کے پاس اب صرف چند گھنٹوں کی بجلی کا انتظام رہ گیا ہے۔غزہ کی پٹی کے مکمل محاصرے کے بعد صاف پانی کی بھی کمی ہے۔صاف پانی اب صرف ایسے کیسز میں استعمال کیا جا رہا ہے جن میں کسی کی زندگی کو خطرہ ہو جبکہ چند ڈیپارٹمنٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور غزہ کے لاکھوںرہائشی پناہ کی تلاش میں گھروں کو چھوڑ چکے ہیں۔ صرف عمارتوں کے کھنڈرات نظر آتے ہےں۔ سب عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیل کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ غزہ میں حماس کی عسکری وقت کے حتمی خاتمے کے لیے زمینی حملے کی تیاری کی جا چکی ہے جس کے لیے تین لاکھ ریزرو فوجی طلب کیے گئے اور غزہ کی پٹی کی دوسری جانب ٹینک، توپ خانہ اور ہزاروں مسلح فوجی اکھٹے ہیں۔اسرائیلی فضائیہ اور بحریہ حماس اور فلسطین اسلامی جہاد کے ہر ممکنہ ٹھکانے اور اسلحہ خانے پر بھاری بمباری کر رہی ہیں جس کے دوران حماس کے کمانڈرز سمیت بڑی تعداد میں عام شہری بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔گزشتہ چند دنوں میں ایران نے سخت تنبیہ کی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کا جواب دیا جائے گا۔اسرائیل کو یہ تسلی ہے کہ حزب اللہ کے حملے کی صورت میں امریکی بحری جنگی بیڑہ شدید ردعمل دے گا۔ 2006 میں حزب اللہ سے جنگ میں ایک اسرائیلی جنگی بحری جہاز کو بھی میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔اسرائیلی فضائی حملوں میں فلسطینی عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اب حماس کے خلاف پیدا ہونے والا عالمی ردعمل عام شہریوں کی حفاظت کے مطالبے میں تبدیل ہو رہا ہے۔اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہوتا ہے تو ہلاکتوں میں تعداد میں اور اضافہ ہو گا۔ اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ زیادہ تر لڑائی زیر زمین میلوں تک پھیلی سرنگوں میں ہو اور عین ممکن ہے کہ اس لڑائی کی قیمت بھی عام شہریوں کو ہی چکانی پڑے گی۔یہ ممکن ہے کہ اسرائیل کے خفیہ اداروں نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے وقت مانگا ہو تاکہ جب فوج اندر داخل ہو تو ان کے پاس مخصوص مقامات کا پتہ موجود ہو اور وہ کھنڈرات میں ادھر ادھر گھومتے نہ رہیں جہاں کسی بھی وقت حملے کا خدشہ ہو گا اور دنیا کی جانب سے مذمت بھی ہو رہی ہو گی۔اسرائیلی فضائیہ کی بھاری بمباری کے باوجود حماس اور فلسطین اسلامی جہاد کے حصے غزہ میں فعال ہیں جو زمینی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے ہےں اور اسرائےلی فوجیوں کے لیے جال بچھا چکے ہےں ۔یہ جال خصوصا زیر زمین سرنگوں میں جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کی کوشش ہو گی کہ وہ ان مقامات کی شناخت کر سکیں اور فوج کو خبردار کر سکیں۔اس سارے منظرنامے میں افسوسناک بات ےہ ہے کہ اسلامی ممالک محض بےانات پر اکتفا کےے ہووے ہےں جبکہ عالم کفر کھل کر اسرائےل کی ہر طرح سے مدد اور حماےت کر رہا ہے۔