سوست بارڈر سال بھر کھلا رکھنے پر اتفاق

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کا منفرد رشتہ اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہے ‘سی پیک اس دوستی کی ایک اہم مثال ہے ، خنجراب پاس سوست بارڈر پورا سال کھلا رکھنے پر چین سے اتفاق ہوگیا ہے، خنجراب اور سوست بارڈر پرتجارت کے لئے مزید سہولیات کی فراہمی کے لئے پر عزم ہیں،سی پیک سے صنعتی ترقی، روزگار، معدنیات اور آئی ٹی کو فروغ ملے گا،چین سے تزویراتی شراکت داری کو مزید وسعت دینگے،سنکیانگ صرف تجارتی اور مواصلاتی راہداری نہیں ،دو عظیم قوموں کو جوڑنے کاباعث بھی ہے،سنکیانگ کے تعاون سے گلگت بلتستان میں سولر انرجی میں تعاون کے بھی خواہش مند ہیں،ہم سنکیانگ اور چین کے دیگر علاقوں کے سیاحوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کا دورہ کریں،چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے کردار ادا کریں، دنیا بھر میں مقیم لوگ مذہب اور نسل سے بالا تر ہو کر غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جمعہ کو سنکیانگ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہاکہ تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم جیسے اہم ایونٹ میں شرکت کے بعد وہ اورومچی پہنچے ہیں۔ میں نے بی آر آئی کے اعلی سطح کے فورم سے خطاب کیا اور چینی رہنماﺅں، کاروباری شخصیات اور دانشوروں سے ملاقاتیں بھی کیں جس میں چین کے ساتھ پاکستان کے ہر موسم میں آزمودہ تزویراتی شراکت داری کے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔یہاں آنے پر عوام کی جانب سے پرتپاک استقبال اور یہاں کے خوبصورت موسم اور ماحول نے مجھے بہت متاثر کیا۔سوست بارڈر کے سارا سال فعالےت ےقےنا خوش آئند ہے‘ نومبر 2019 میں ےہ بارڈر بند ہوگےا تھاجو2023 میں پھر سے بحال ہوگیا۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ ماضی میں سی پیک کو متنازع بنانے کا جرم کیا گےا، دونوں ممالک کی عظیم دوستی کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گےا،سی پےک کے خلاف تقرےرےں کی جاتی رہےں ۔ چین اور پاکستان کے حکام نے سی پیک کے تحت سرگرمیوں اور دوطرفہ تجارت کی بحالی کے لئے خنجراب پاس راہداری دوبارہ کھولنے کے تمام انتظامات مکمل کئے جس کے بعد سی پیک منصوبوں اور دوطرفہ تجارت میں ایک مرتبہ تیزی آئی ۔اگرچہ بارڈر کی بندش کیوجہ کورونا وبا بیان کی گئی تھی۔ اس بندش کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد مقامی آبادی کی روٹی روزگار کا انحصار خنجراب پاس کے راستے ہونے والی تجارت اور آمدو رفت کی سرگرمیوں پر ہے۔ پاک چین سرحد یکم اپریل کو تجارت کیلئے کھول دی گئی۔ پاک چین سرحد بند رہنے سے گلگت بلتستان کے سینکڑوں تاجر دیوالیہ ہو گئے تھے۔ فروری 2009 میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا تھا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002 میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020 میں بڑھ کر بےس ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو اٹھارہ ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو دو ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیا ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021 میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔پاک چین دوستی کا اہم باب سی پیک ہے جس کا بےس اپریل 2015 کو چینی صدر نے تاریخی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت چین نے پاکستان میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں 34ارب ڈالر کے توانائی منصوبوں سے دس ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی گئی جبکہ 11ارب ڈالر کے انفراسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے منصوبے ہیں۔ اسپیشل اکنامک زونز کے منصوبوں میں چین سے صنعتوں کی منتقلی دونوں ممالک کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگی۔سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے چین کے ہم منصب لی کی چیانگ کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے حکومت کا عزم پختہ عزم ہے ۔ انہوں نے حکومت کے موجودہ وقت میں جاری اور نئے سی پیک منصوبوں کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا جن سے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں بہت زیادہ تعاون حاصل ہوا ۔انہوں نے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے اور دونوں ممالک کی متعلقہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت کو اجاگر کیا تھا تاکہ خصوصی اقتصادی زونز کو جلد از جلد مکمل طور پر فعال کیا جاسکے۔ پاکستان چین سسٹر سٹی شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ان چینی حکام کے تجربے سے سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جو اپنے صوبوں میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے خاص طور پر دونوں ممالک کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل منصوبوں جیسا کہ ایم ایل ون پروجیکٹ پر چین کے ساتھ مل کر نئے جوش اور ولولے کے ساتھ کام کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی ترقی کے لیے مضبوط حمایت پر پڑوسی ملک کا شکریہ ادا کیا اور چین کے بنیادی مفاد کے تمام مسائل پر اپنی حکومت کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔دونوں رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور چین دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ شراکت داری کو نقصان پہنچانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان اقتصادی منصوبوں اور اداروں میں کام کرنے والے تمام چینی شہریوں کے تحفظ، سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور لی کی چیانگ کو یقین دلایا کہ حکومت، پاکستان میں ان کی بہتر حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔ چینی وزیر اعظم نے شہباز شریف کو اقتصادی تعاون بڑھانے، تجارت کو وسعت دینے اور چین سے پاکستان میں زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے چین کی تیاری کا یقین دلایا تھا۔شہباز شریف اور لی کی چیانگ نے اس خیال کا اشتراک کیا کہ پاک چین ہمہ موسمی اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو دونوں ممالک کے عوام کے اہم مفادات کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال اور عالمی ماحول کے درمیان امن اور استحکام کے وسیع تر مفادات کی خدمت کو جاری رکھنا چاہیے۔اس مقصد کے لیے دونوں رہنماﺅں نے دوطرفہ تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے تبادلوں کی رفتار کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔نئے دور کے تقاضے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع سے نمٹنے اور اپنے خطے کو تنازعات اور افراتفری سے دور کرنے کے لئے ایک نئے دور کا تقاضا کرتے ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا مذاکرات اورسفارت کاری کے لئے پرامن حل چاہتے ہیں ۔ چین کہتا رہا ہے عالمی منظر نامے کے درمیان چین پاکستان تذویراتی شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان آج اپنے آپ کو بے مثال تبدیلیوں کے دھانے پردیکھ رہا ہے جب وہ ایک مضبوط، پائیدار اورجامع اقتصادی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چین موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے آوازاٹھا رہا ہے اور اس نے اس تباہی سے نمٹنے کے لئے اپنے طریقہ کار کو اپ گریڈ کیا ہے۔ہم ابتدائی وارننگ سسٹم، لچک دار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیزاسٹرمینجمنٹ میں چین کی تکنیکی ترقی سے سیکھنے کے منتظر ہیں، علم پر مبنی معیشت قومی ترقی کے نئے محرک کے طور پر ابھری ہے۔ سی پیک کے اعلی معیارکی ترقی کے اگلے مرحلہ میں صنعت، توانائی، زراعت، ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک، گوادر پورٹ کو تجارت اور ترسیل، سرمایہ کاری اور علاقائی رابطوں کے مرکز کے طورپر ترقی دینے جیسے اہم شعبوں کو شامل کیا جائے گا، ہمارا مجموعی مقصد پاکستان کی جامع اور پائیدارترقی، سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سی پیک کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔ مبصرین کے نزدیک پاکستان اور چین کی دوستی ان کے متعلقہ قومی مفادات کے تحت چل سکتی ہے، جغرافیائی قربت اور ماضی کے تجربات کی مشترکات نے ہمیں اکٹھا کیا ہوگا لیکن پاکستان میں ہمارے لئے اور حقیقی معنوں میں ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے برادرانہ رشتے بہت گہرے ہیں جو بین الریاستی تعلقات کے عمومی اصولوں سے بالاتر ہیں اور ہمیں ایک ابدی اور لازوال رشتے میں پروتے ہیں۔ اپنے دوطرفہ ثقافتی تبادلوں کووسعت دینے اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے ہمیں اپنے نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری دوطرفہ دوستی کی بہترین روایات کو آگے بڑھا سکیں اور ہمیں اس کی اہمیت سمجھنے میں مدد فراہم کریں۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان اورچین دونوں اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے جو تاریخ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اور ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔خنجراب پاس سوست بارڈر پورا سال کھلا رکھنے پر پاک چین کا اتفاق اےک اہم قدم ہے جس سے تجارت اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا۔