نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن محکمہ ترقی خواتین گلگت بلتستان یو این ایف پی اے اور یو این ویمن کے اشتراک سے گلگت میں ایک روزہ مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مقررےن نے کہا گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کے بل کو علمائے کرام سے مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جائے گی اور بہت جلد مناسب عمل کے بعد منظور کر لیا جائے گا۔ مشاورتی ورکشاپ سے گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے این سی ایس ڈبلیو کا بچوں کی شادی کے مسائل پر تعاون اور شعور اجاگر کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادیوں کے ذریعے کم عمر لڑکیوں کو استحصال سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنی نوجوان خواتین اور بچوں کی صحت اور مستقبل کی حفاظت اور حفاظت کے لیے ایک عظیم مقصد کے لیے یہاں موجود ہیں۔ ہم گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی سے متعلق قانون پر بات کریں گے۔ ہم یہاں اس مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنے اور نوجوان لڑکیوں کو مستقبل میں طبی، ذہنی اور معاشی مصائب سے بچانے کے لیے آئے ہیں۔ آئیں گلگت بلتستان کو خوشحال بنائیں اور تمام نوجوان خواتین کو صحت مند اور محفوظ زندگی گزارنے دیں جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان میں جی بی چائلڈ پروٹیکشن ریسپانس ایکٹ 2017 کے مطابق بچے سے مراد وہ لڑکا یا عورت ہے جس کی عمر 18 سال سے کم ہے ۔ ارلی چائلڈ میرج ریسٹرین بل 2015 کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی ممنوع ہے اور اس کی سزا دوسے تےن سال جیل میں رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔صرف گلگت بلتستان ہی نہےں پورے ملک میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ ہمارا ملک کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔اےک سروے کے مطابق ملک میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے2050 تک پاکستان تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا اور پاکستان ہیں ،ان کی مشترکہ آبادی 3.6 ارب ہے۔اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ عالمی آبادی 2100 تک دس ارب کے نشان کو عبور کر لے گی۔ آبادی میں اضافے کی شرح ہر ملک اور خطے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ کم عمری میں شادی ہے۔ شادی ایک قیمتی رشتہ ہے جو دو میچور لڑکا اور لڑکی کے درمیان بنتا ہے۔ اس کے برعکس، کم عمری کی شادیوں کا چیلنج، خاص طور پر ایک لڑکی کے لئے کرداروں، ذمہ داریوں اور ماحول میں اچانک تبدیلیاں ان کے ذہن پر دباﺅ پیدا کرتی ہے۔ ابھرتے ہوئے مطالبات سے نمٹنے کے لئے ان کی جسمانی اور نفسیاتی ناپختگی جیسی بیماریوں کا باعث بنتی ہے، ڈپریشن، سیپسس، لیبر، ایچ آئی وی وغیرہ شامل ہیں۔ بہت کم عمر میں شادی شدہ لڑکیوں کو ان کے ساتھیوں کے تعلیمی مواقع سے محروم کردیا جاتا ہے اور انہیں صحت کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی شادی کی عالمی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے جہاں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی عمر اٹھارہ سال کی ہونے سے پہلے شادی کروادی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دہائی میں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے 142 ملین لڑکیاں شادی کرتی ہیں۔ زیادہ تر معاملات جنوبی ایشیا اور مغربی اور وسطی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔کم عمری کی میرج کا اثر آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔ ایک بچہ جو تعلیم یافتہ ماں کے ہاں پیدا ہوتا ہے اس کے پانچ سال کی عمر سے زندہ رہنے کا امکان50 فیصد زیادہ ہوتا ہے اور اسکول جانے کا امکان دوگنا ہوتا ہے۔ درحقیقت ہر سال 13.5 ملین لڑکیاں اپنی 18 ویں سالگرہ سے پہلے شادی کرتی ہیں۔کم عمری کی میرج بہت سی ثقافتوں میں عام ہے اور کم عمری کی شادی ایک طے شدہ معاملہ یا دو خاندانوں کے درمیان ایک غیر رسمی شراکت داری ہوسکتی ہے۔ کچھ خاندانوں کے لئے کم عمری کی میرج خاندان کی عزت اور گھر کی نوجوان لڑکیوں سے امیر شوہروں سے شادی کرنے سے تحفظ فراہم کرکے فائدہ مند ہونے کی ہیں۔ بعض ممالک میں ان گنت خواتین خوف کی وجہ سے کم عمری کی شادی کا مقابلہ نہیں کرتی ہیں۔ کم عمر دلہن بننے والی نوجوان لڑکیوں کو اس کے نتیجے میں منفی نفسیاتی اثرات کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ چائلڈ انفو کے مطابق جو لوگ کم عمری کی شادیاں کرتے ہیں انہیں گھریلو تشدد اور دیگر اقسام کی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے قوانین نے کم عمری کی شادیاں اور بچوں کے جنسی استحصال پر پابندی عائد کردی ہے۔جو لڑکیاں جلد میرج کرتی ہیں وہ بہت سی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ مانع حمل طریقوں کے بارے میں غیر آگاہی کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں جنسی بیماریاں اور دیگر شدید انفیکشن بھی ہوتے ہیں۔زبردستی اور کم عمری کی شادی بنیادی انسانی حقوق کا غلط استعمال ہے۔ دنیا بھر میں ہر روز خواتین اور لڑکیاں اپنی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جب کسی لڑکی کو شادی پر مجبور کیا جاتا ہے تو اب وہ جنسی اور جذباتی استحصال کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کا بچپن ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔ان میں فرٹیلیٹی کا وقت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔جس سے کم عمری میں لڑکی کی صحت متاثر ہوتی ہے۔کم عمری کی شادی سے لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور ان کے آزادی کے حق کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، محدود تعلیم اور روزگار کے مواقع، سماجی تنہائی اور گھریلو تشدد کے ذریعے ان کے احساسات و جذبات کو ختم کردیا جاتا ہے ،جن لڑکیوں کی شادی جلد ہو جاتی ہے وہ ایچ آئی وی اور ابتدائی حمل سمیت جنسی بیماریوں کا شکار جلد ہوجاتی ہیں۔ےہ لڑکیوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے نقصان دہ بھی ہے۔چائلڈ میرج کو کم کرنے سے لاکھوں لڑکیوں اور خواتین اور ان کے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ جو لڑکیاں پندرہ سال کی عمر سے پہلے میرج کر لیں ان میں بعد میں میرج کرنے والوں کے مقابلے میں قریبی ساتھی سے تشدد کا شکار ہونے کا امکان پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے۔نوعمر لڑکیاں ایچ آئی وی سے بہت جلد متاثر ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پر 15 سے 24 سال کی عمر کے بچوں میں سے تےن نئے انفیکشن لڑکیوں اور نوجوان خواتین سے متعلق ہوتے ہیں۔ کچھ عوامل جو لڑکیوں کو ایچ آئی وی کے خطرے میں ڈالتے ہیں وہ وہی ہیں جو انہیں کم عمری کی میرج کے خطرے میں ڈالتے ہیں۔کم عمری کی شادی دراصل دنیا کے تقریبا ہر ملک میں غیر قانونی ہے۔ تاہم بہت سے ممالک میں کم عمری کی شادی کے قوانین شاذ و نادر ہی نافذ ہوتے ہیں اور خاندان اور لڑکیاں دراصل اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ قوانین موجود ہیں۔ہمارے قبائلی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں۔گلگت بلتستان کے شہری علاقوں میں آگاہی ہونے کے سبب لڑکیوں کی شادی 18 سال یا اس سے زائد عمر میں کی جاتی ہے لیکن صوبے کے باقی حصوں میں صورتحال کافی سنگین ہے۔غربت اور معاشی عوامل اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اکثر کم عمر لڑکیوں کی وٹہ سٹہ کی شادی خاندانوں کے درمیان اس لیے طے پاتی ہے کہ ان نوجوان بچیوں سے گھر کا کام کاج یا مزدوری کرائی جا سکے۔ پاکستان میں سول سوسائٹی کم عمری کی شادیوں کے خاتمے اور سخت قانون سازی کے لیے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے وہ اس رویے کی تبدیلی کے لیے مذہبی جماعتوں، حکومت اور مختلف برادریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کی کم از کم حد مقررکرنے کی قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی شادی کی کم از کم حد مقرر کیے جانے والی قانون سازی کی پرزور مخالفت کرتے رہے ہیں۔کونسل نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ قانون سازی اسلام کے مطابق کی جائے۔کونسل نے کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے قانون کو غیر اسلامی قرار دیا، جس کی وجہ سے میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مغربی اقدار کی وکالت کرنے اور مذہب کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس مسئلہ کے جڑ سے خاتمے کے لیے ایک بڑی اور موثر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ہم سمجھتے ہےں کہ اس جانب پےشرفت مثبت ہے لےکن اس حوالے سے جو بھی قدم اٹھاےا جائے اس میں معاشرے کے تمام طبقات سے مشورے کو ےقےنی بناےا جائے اور باہمی اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔
