پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد گلگت بلتستان حکومت نے بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے ہےں، اگلے 24 گھنٹوں میں ٹرانسپورٹ کرایوں سمیت اشیا خورونوش کی قیمتوں کو جولائی 2023 کے ریٹس کے مطابق ریوائز کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر داخلہ شمس لون اور معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کے مطابق ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفیکشن جاری ہونگے اس حوالے سے تمام ڈپٹی کمشنرز کو عملدرآمد کے حوالے سے ہدایات جاری کی جاچکی ہیں۔عوام کو ہر صورت ریلیف دیا جائے گا‘ اس میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کیا جائے گا۔ گراں فروشی کی میڈیا نشاندہی کرے اس پر ہر صورت ایکشن لیا جائے گا۔ اگلے کچھ دنوں میں نتائج عوام کے سامنے آجائیں گے۔ ریٹس کم نہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اشیا کی قیمتیں اسی وقت بڑھائی جاتی ہیں جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو پرانے سٹاک کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پرانے سٹاک کا بہانہ بنانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔اسے اےک المےہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں پٹرولےم مصنوعات ےا ڈالر کے نرخ بڑھنے پر فوری طور پہ قےمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دےا جاتا ہے لےکن جب نرخ کم ہوتے ہےں تو نرخ کم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہےں کی جاتی ےوں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔پرائس کنٹرول کمےٹےاں بھی غےر فعال رہتی ہےں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے ماہرین کے اندازوں کے مطابق تقریبا ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ۔ شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی۔اس کے گہرے معاشی اثرات بھی ہیں اور اس کے سیاسی اعتبار سے بھی اثرات دیکھنے کو ملیں گے عوام کی طرف سے خاصا سخت ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ سے آپ قربانی نہیں مانگ رہے، سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔پاکستان کا اصل چیلنج دہرے خسارے ہیں۔ یعنی ہماری درآمدات زیادہ ہیں برآمدات کم ہیں، جبکہ دوسری جانب ہمارے خرچے زیادہ ہیں لیکن ریوینو کم ہے۔ یہ وہ استحکام ہے جو آئی ایم ایف کر رہا ہے۔ معیشت پر تو اس کا منفی اثر پڑے گا، یعنی میعشت سکڑے گی تاکہ ہمارے خسارے کم ہوں۔ہمےں چاہیے کہ معاشی ترقی کے لیے ایک طویل مدتی اصلاحاتی حکمتِ عملی بنائےں، ہم ہر پانچ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اسی وجہ سے جاتے ہیں، جب تک ہم معیشت کا ڈھانچہ نہیں بدلتے اور خساروں میں کمی نہیں لاتے تو ہم اس چکر میں پھنسے رہیں گے۔ہماری آبادی بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے رئےل سیکٹرز کی پیداواری صلاحیت نہیں بڑھ رہی۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے جب کھپت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمیں چیزیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔جب ہم درآمد کرتے جاتے ہیں تو اس کے لیے ڈالر چاہیے ہوتے ہیں، ڈالر آپ کے پاس برآمدات سے آتے ہیں، برآمدات میں اضافہ تب ہوتا ہے جب سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہو اور وہ پیداواری سیکٹرز میں جائے۔ ہم ایک تجارتی معیشت بن کر رہ گئے ہیں، نہ کہ پیداواری۔ جب ہمارا درآمدات پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جائے گا اور ہمارے پاس زرِ مبادلہ نہیں ہو گا تو ہمیں ڈھانچے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ہمیں چاہیے کہ زراعت میں ویلیو ایڈیشن لائیں، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کپڑے کے بجائے سوٹ بنائے تاکہ ہمارے زرِ مبادلہ میں اضافہ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی نالج بیسڈ اکانومی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں چھوٹ دیں اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیں۔ظلم ےہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہےں ہوتی حالانکہ کرایوں میں بھی کمی انٹرڈسٹرکٹ اور گڈز ٹرانسپورٹ میں سے لائے جانے والی اشےاءکی قےمتےں کم ہو جاتی ہےں ۔ فروٹ، سبزیوں، دالوں، کھانے پینے کی اشیا گارمنٹس اور دوسری اشیا کے نرخ کم نہ ہوتے بلکہ بعض سبزیوں اور پھلوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ملک میں منافع خوری کا جو رجحان پیداہو چکا ، وہ قابو میں نہیں آ رہا۔ یہاں ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خوری بھی ہوتی ہے، یہ تو سرکاری مشینری کا فرض ہے کہ وہ ایسے عوام دوست اور مثبت اقدامات کے اثرات عوام تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور جو اس کے مخالف عمل کررہے ہیں ان کا محاسبہ کیا جائے۔مہنگائی کی اس لہر نے غریب اور مزدور طبقہ کو بے حد پریشان کیا ہوا ہے ۔ جن اشیاکے نرخوں میں اضافہ ہوا ان میں حکومت کی نااہلی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کنٹرول نہ ہونے سے قیمت چڑھنا شروع ہو جاتی ہےں اور صورتحال سے فائدہ اٹھانے والا مافیا متحرک ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی حکمران غفلت کا شکار ہوتے ہیں ملک بھر میں اشےاءکے نرخ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منڈیوں میں مستقل اہلکار تعینات کئے جائیں جن کی نگرانی خفیہ انداز میں سپیشل برانچ اور دیگر اداروں سے کی جائے۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی تعیناتی کی جائے انہےں جعل سازی دو نمبر اشیاکی فروخت کے خلاف کارروائی کیلئے اختیارات دئے جائیں۔ اس کیلئے ازسرنو قانون سازی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ معاشرے میں اس وقت معاشرے میں دو نمبر سے لیکر 10 نمبر تک کی غیر معیاری اور مضر صحت اشیاکی بھرمار ہے۔ اس کے لئے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل افراد کو پیور فوڈ ونگ میں شامل کیا جائے۔ ان کی نفری بڑھائی جائے۔ عدالتوں سے استدعا کی جائے کہ کم سے کم وقت میں ان مقدمات کا فیصلہ کریں۔ اس کے علاوہ پبلک انالسٹ لیبارٹریوں پر کڑی نگرانی کی جائے۔ دو نمبر اور مضر صحت اشیاکے نمونوں کو ایک نمبر اور صحت بخش قرار دینے کی روک تھام کی شدید ضرورت ہے۔ اگر یہ لیبارٹریاں اپنا کام ایمانداری سے سر انجام دینا شروع کر دیں تو ملاوٹ کرنے والے مافیا پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سستے بازاروں کا بھی اہتمام کیا جائے۔ نگرانوں کی فوج ظفر موج کی بجائے ڈی سی او صاحبان اگر خفیہ اداروں سے مانیٹرنگ کرائیں تو ان کے علم میں یہ بات آ سکتی ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ ان بازاروں میں دو نمبراور غیر معیاری اشیافروخت کرنے کی شکایات عام ہیں اور یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ ان بازاروں میں سستا آٹا ضرور بکتا ہے لیکن اس کامعیار کیا ہے اسکی چھان بین کی بھی ضرورت ہے۔ مہنگائی کو کم کرنا ہے تو مڈل مین کے کردار کو بھی محدود کرنا ہو گا۔ گزشتہ ایک عشرے میں جن خرابیوں نے جنم لیا ہے اور منافع خوری کے جو چور راستے تلاش کر لئے گئے ہیں ان کے خاتمے کیلئے ایک سخت نظام قوانین پر عمل درآمد اور اگر کہیں قوانین خاموش ہیں تو نئی قانونی سازی فوری طور پر کی جائے۔ عوام حکومت سے بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں استحکام پیدا کیا جائے۔ درآمدات کی لسٹ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ڈالر کس بے دریغ طریقے سے ضائع کر رہے ہیں۔ غیر ضروری درآمدات کی روک تھام سے ملکی انڈسٹری کو پنپنے کا موقع بھی مل سکتا ہے لیکن مہنگائی کو کم کرنے کیلئے نہ صرف خلوص اور محنت کی ضرورت ہے بلکہ ایسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں کہ غریب عوام پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی فکر سے نجات حاصل کریں۔ بجلی اورپٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزےد کم ہو جائیں گے تو پھر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کا رجحان بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مختصر یا طویل دورانیہ میں آبادی بھی بڑھی ہے مگر اشیا کی افراط بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے باوجود پیداوار، انسانی و حیوانی زندگی کی ضرورت سے زیادہ ہی ہے، کم نہیں ہے۔ اس پیداواری اضافے کا ایک بڑا سبب وہ سائنسی طریقے ہیں جن کی وجہ سے فوڈ انڈسٹری گویا جادو اگل رہی ہے۔ آج کسی شے کیلئے آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے نہ زحمت اٹھانی پڑتی ہے، موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ گھر بیٹھے ہر چیز آپ تک پہنچ جاتی ہے یا پہنچ سکتی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جتنی تعداد اور مقدار میں طلب کی جائے اتنی تعداد اور مقدار میں حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اشیائے خوردنی کی کمی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کی قیمتیں کبھی کم نہیں ہوتیں، بڑھتی ہی رہتی ہیں۔ پیداوار بڑھی اور آبادی بھی بڑھی، اس کے باوجود اشیا کی فراوانی ہے البتہ قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ اشیا کی حفاظت کا مکمل اور موثر نظم نہ ہونا، نقل و حمل کے ذرائع کا ناقص ہونا جس کے سبب اشیا کے کچھ حصے کا اتلاف ہوتا ہے، ذخیرہ اندوزی کا طاقتور رجحان جس کے خلاف قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر غیر موثر ثابت ہوتے ہیں، بڑے تجارتی گھرانوں کا اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ پیداوار کے بڑے حصے پر قابض ہوجانا جو حالیہ برسو ںمیں محض چند کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور منافع خوری کا رجحان جو عادت میں تبدیل ہوکر ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں افراط زر میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوا یعنی مہنگائی بڑھی ہے۔ صارفیت کے رجحان نے بھی پیداواری اضافے کو مہنگائی میں کمی کا سبب بننے سے روکا۔ وہ اس طرح کہ بالخصوص زرعی پیداوار کو الگ الگ پروڈکٹس میں تبدیل کرکے ان کی قدر بڑھائی چنانچہ جو اشیا پیداوار کے بڑھنے کی وجہ سے سستی ہوسکتی تھیں، دیگر پروڈکٹس کی تیاری کیلئے ان کی مانگ بڑھ گئی اور مہنگائی کم نہیں ہوسکی۔ اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ چےک اےنڈ بےلنس کے نظام کو مکمل طور پر فعال کےا جائے۔
