وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی آذربائیجان کے پاکستانی سفیر خضر فرہادو سے ملاقات میں باہمی روابط کے فروغ اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا شمالی حصہ ہونے کی وجہ سے انتہائی سرد اور دشوار گزار ہے مگر آذربائیجان اور گلگت بلتستان کے لینڈ سکیپ میں کافی مطابقت ہے اور دونوں خطوں کی خوبصورتی قابل ذکر ہے ۔آذربائیجان اور پاکستان حکومت نے ماضی میں ملتان اور آذربائیجان کے شہر گانجا کو جڑواں شہروں کا درجہِ دیا اسی طرز پر اگر گلگت بلتستان کے ایک شہر کو بھی آذربائیجان کے کسی شہر کے ساتھ جڑواں شہروں کا درجہ دیا جائے تواس سے دونوں خطوں کے مابین رابطوں اور دیگر اہم تعلقات کو دوام حاصل ہو گا اور دونوں خطوں کے عوام کے مابین انسیت میں بھی اضافہ ہو گا ۔ آذربائیجان اور گلگت بلتستان حکومت باہمی تعلقات کو فروغ دے کر توانائی،سیاحت،تجارت اور زراعت کے شعبے میں ایک دوسرے کی بھرپور معاونت کرسکتے ہیں ، دونوں اطراف کی بزنس کمیونٹیز و بزنس چیمبرز اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کوایک دوسرے کے قریب لانے کی ضرورت ہے جس سے باہمی بزنس اور تجارت کوفروغ حاصل ہوگا ،اس سلسلے میں ہماری حکومت ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہے جبکہ گلگت بلتستان میں موجود معدنیات خشک میوہ جات کو آذربائیجان کی منڈیوں تک رسائی میں آسانیاں پیدا کی جائیں تو اس اقدام سے گلگت بلتستان کے عوام استفادہ کرسکیں گے جبکہ آذربائیجان کے عوام کو بھی اس خطے میں پائی جانے والی معدنیات تک رسائی ہو گی اور قدرت کی جانب سے عطا کردہ بہترین خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہونے کے مواقع میسر آئیں گے جس سے دونوں خطوں کے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا ،وزیر اعلی نے سفیر سے کہا کہ سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے تحت گلگت بلتستان کے طلبا و طالبات کو سکالرشپ کے تحت اعلی تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں۔اس موقع پر سفیر خضرفرحادو نے وزیر اعلی گلگت بلتستان سے ملاقات کو انتہائی خوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا انتہائی اہم خطہ ہے ،اسکی خوبصورتی کے ہم سب قائل ہیں گلگت بلتستان جہاں اپنی قدرتی خوبصورتی میں بے مثال ہے وہیں اس میں قدرتی وسائل اور بزنس پوٹینشل بھی موجود ہے ،دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کا معاہدہ جلد ہی ہونے کے قریب ہے جبکہ آذربائیجان میں پاکستانی طلبا اور بزنس کمیونٹیز کے لئے آسان اور ای ویزہ کی سہولت موجود ہے اور ہماری حکومت نے پاکستان کو خصوصی اہمیت دی ہوئی ہے جسکی وجہ سے یہاں کی بیشتر مصنوعات ڈیوٹی فری ہیں ۔بلاشبہ پاکستان اور آذربائیجان، دو برادر مسلم ممالک، منفرد تاریخی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی مشترکات رکھتے ہیں پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے 1991 میں آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کیا۔اس کے بعد 1992 میں دونوں ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے پاکستان باکو میں اپنا سفارت خانہ کھولنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔آذربائیجان اور پاکستان حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں۔دونوں ریاستوں نے ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے مختلف فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ آذربائیجان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کے موقف کی حمایت کرتا رہا ہے دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ حکومتی سطح پر اعلی سطحی رابطوں کا تبادلہ اور مضبوط تعلقات قائم کیے گئے۔پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں بھی اہم کردار ادا کیا جہاں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا مستقل حصہ ہے۔پاکستان نے آرمینیا کے ساتھ جنگ کے دوران آذربائیجان کی کثیر الجہتی پر مبنی حمایت کی اور آذربائیجان کے حق میں اپنی آواز بلند کی۔پاکستانی عوام اور حکومت نے آذربائیجان میں اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا۔اس جنگ کے وقت مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی صاحبزادہ سلطان محمد علی اور چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بھی مشکل وقت میں آذربائیجان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کئی تقریبات آذربائیجان کے شہدا کے نام کیں۔دونوں ممالک کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار رہے ہیں جو ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کرتی ہیں مثلا آذربائیجان میں ملتان کاروان سرائے کو ملتان کے تاجروں کو آذربائیجان میں ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔مشہور شاعر صائب تبریزی نے 17ویں صدی میں برصغیر کا دورہ کیا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کیا۔ 1992 میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد دونوں فریقوں نے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھا۔ انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے آذربائیجان کی حیدر علییف فائونڈیشن کی خدمات بے مثال ہیں یہ فانڈیشن تعلیم کے شعبے میں انسانی اور سماجی منصوبے پیش کرتی ہے ان کے کام کے اعتراف میں آذربائیجان کی خاتون اول مہربان علیئیوا کو ہلال پاکستان کے اعلی ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔دونوں ممالک کے درمیان مزید مضبوط عوامی روابط قائم کرنے کے لیے جامعات اور تھنک ٹینکس کے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں فریق ثقافتی روابط کے فروغ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں آذربائیجان کا سفارت خانہ پاکستانی شہریوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ تین دن کے بجائے صرف تین گھنٹے میں باآسانی آن لائن ویزے حاصل کر سکیںای ویزا سسٹم اور پاکستان سے آذربائیجان کیلئے براہ راست پروازیں جاری ہیں جس سے عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ ملے گا۔آذربائیجانی یونیورسٹیز خزر یونیورسٹی اور اے ڈی اے یونیورسٹی کی طرف سے پاکستانی طلبا کو مختلف سکالرشپس کی پیشکش کی جا رہی ہے۔پاکستانی و آذربائیجانی طلبا کے لئے سائنسی تحقیق، میڈیکل، انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز کی تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں جو ممکنہ طور پر ایک نالج کوریڈور بنا سکتے ہیں۔آذربائیجانی عوام خاص طور پر طلبا پاکستانی زبان اور ثقافت کے بارے جاننے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آذربائیجان کے طلبا اپنی ریاستی یونیورسٹیز میں پاکستان کی قومی زبان سیکھ رہے ہیں۔اردو سیکھنا آذربائیجان کے طلبا کو پاکستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے متاثر کر رہا ہے۔ باکو میں یونیورسٹی آف لینگوئجز میں ایک فعال پاکستان کلچرل سینٹر ہے جو پاکستان کی ثقافت اور ادب کی تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہ آذربائیجان لسانیات، اردو لسانیات اور عمومی لسانیاتی سائنس کو بھی فروغ دے گا ۔دونوں ممالک کے عوام قریب آتے جا رہے ہیں اس سے دیگر شعبوں بالخصوص تجارت میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد ملے گی2020 میں آذربائیجان نے پاکستان کے ساتھ معدنی مصنوعات 1.6 ملین ڈالر، ٹیکسٹائل 1.2 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 8.74 ہزار ڈالر کی تجارت کی 2020 میں پاکستان نے آذربائیجان کے ساتھ ٹیکسٹائل 4.68 ملین ڈالر، کیمیائی مصنوعات 2.32 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 1.51 ملین ڈالر کی تجارت کی تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اور اس میں اضافہ ہونا چاہیے چونکہ حکومت آذربائیجان کی طرف سے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے ثقافتی تعلقات کو سیاحت کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے پاکستان سے آذربائیجان آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ویزا کا طریقہ کار آسان ہو گیا ہے۔تیس برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطح کے تعلقات کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان مفاہمتی یاداشتوں کی ایک طویل فہرست پر دستخط کیے گئے ہیں۔ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان اطلاعات و مواصلات، ٹرانسپورٹ، ایوی ایشن ، ثقافت، مالیات اور تعلیم سے متعلق چھ معاہدے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان ایک کمیشن بھی ہے جو ہر دو سال بعد اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہم اپنے اقتصادی تعلقات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی شاخیں ہیں اور پاکستانی فارما انڈسٹری نے بھی آذربائیجان میں سرمایہ کاری کی ہے اور بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں ہم بنیادی طور پر دفاعی نظام پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، دفاعی ساز و سامان اور توانائی کے شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے ۔آذربائیجان کو تیل اور گیس کے شعبے میں کافی مہارت حاصل ہے۔تعلیمی تعاون اس پائیدار بندھن کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے اور دونوں ریاستوں میں سماجی و اقتصادی خوشحالی لا سکتا ہیمجموعی طور پر سماجی و اقتصادی تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات کی ترقی دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ماضی کی طرح اگر بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے تو ان کی طاقت دوگنی ہو جائے گی۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ آذربائیجان بھی گلگت بلتستان کی طرح ایک خوبصورت خطہ ہے دونوں باہمی امور پر مثبت پیشرفت کے ذریعے ایک دوسرے سے خاصا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں'آذربائیجان کے لیے گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع و امکانات موجود ہیں 'مختلف شعبوں میں ان کا باہمی تعاون بہتر معاشی و معاشرتی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔