تیل کے نرخوں میں کمی:عوام کو ریلیف دیا جائے

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 40 روپے کمی کی گئی ہے جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 283 روپے 38 پیسے فی لٹر ہو گئی۔ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں پندرہ روپے فی لٹر کمی سے ڈیزل کی نئی قیمت 303 روپے18 پیسے فی لٹر جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 22 روپے 43 پیسے کی کمی سے مٹی کے تیل کی نئی قیمت 214 روپے 85 پیسے فی لٹر ہوگئی ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بنیادی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہے،30 ستمبر کو پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے فی لٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں گےارہ روپے فی لٹر کمی کی گئی تھی۔ےوں مجموعی طور پر پٹرول کے نرخوں میں 48 روپے لٹر کمی ہوئی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے پرائس کنٹرول کا نظام سخت کرکے اشیا کی قیمتوں میں کمی لانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے اہم پالیسی بیان میں کہا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے نتیجے میں، میں نے وفاقی اور صوبائی سطح پر متعلقہ حکام کو پرائس کنٹرول کے سخت طریقہ کار کو فعال کرنے کی ہدایت کی ہے۔تمام وزرائے اعلی سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ضروری اشیا اور خدمات کی قیمتیں اسی طرح کم کی جائیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ پاکستانی عوام کو منتقل کرنے کی طرف تمام تر توجہ اس طرف مرکوز کی جائے اور سرکاری ادارے اشیا کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا فائدہ براہ راست عوام تک پہنچانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزرا اور حکام کو قیمتو ں میں کمی کے لیے 48گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی خصوصی ہدایت پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا براہ راست فائدہ پنجاب کے عوام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 10فیصد تک کمی لانے کا ٹاسک دیا گا ہے۔وزیراعلی محسن نقوی نے کہاکہ پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کے کرائے کم کیے جائیں گے۔وزیراعلی نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو ٹرانسپورٹرز کے ساتھ فوری میٹنگ کرنے کی ہدایت کی جبکہ صوبائی وزیر صنعت و زراعت ایس ایم تنویر گھی،فلوراوردیگر ایسوسی ایشنز کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔اسی طرح سیکرٹری زراعت،کمشنرز او رڈپٹی کمشنرز کو روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں کمی لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری روزانہ کمشنرز اورڈپٹی کمشنرز کے ساتھ میٹنگ کر کے قیمتو ں میں کمی کے حوالے سے اقدامات کاجائزہ لیں گے۔ےہ بھی کہا گےاکہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیاز کریک ڈاﺅن جاری رکھا جائے۔حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے جو تاریخی ریلیف دیا ہے اس کا فائدہ دیگر اشیا کی قیمتوں اور کرایوں میں کمی کر کے عوام تک پہنچانا ضروری ہے ہم دےکھتے ہےں کہ جب نرخ برھتے ہےں تو بلاتاخےر رےٹ کئی گنا بڑھا دےے جاتے ہےں لےکن کم ہونے کی صورت میں عوام کو رےلےف نہےں دےا جاتا ےوں عوام سے بدترےن ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایندھن کی ایکس ریفائنری فی لیٹر قیمت 228.59 روپے بنتی ہے۔اس میں بڑاحصہ حکومتی ٹیکس کا ہے جسے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کہا جاتا ہے۔ یہ ہے تو ٹیکس ہی مگر اسے سیلز ٹیکس کا نام نہ دینے کی وجہ وفاقی حکومت کا یہ رقم خود جمع کرنا ہے۔قیمت میں تیسرا حصہ ان اخراجات کا ہے جو ایندھن کی ترسیل، اسے فروخت کرنے والے ادارے اور پیٹرول پمپ ڈیلران کے کمیشن کی مد میں آتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو اکٹھا کریں تو صارف فی لیٹر 16.77 روپے اس مد میں ادا کر رہا ہے۔حکومتِ پاکستان نے رواں برس جولائی میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس کے تحت ایک لیٹر پر پی ڈی ایل کی مد میں 60 روپے وصول کیے جانے ہیں۔ےہ درست ہے کہ مصنوعات کے استعمال پر ضرور ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں مگر ایسا کرنے سے قبل لوگوں کی قوت خرید کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں 38 فیصد سے زیادہ افراط زر ہے جبکہ پاکستان میں اکثریت لوگوں کی فی کس آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ اصل مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا ہے کیونکہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے کئی گنا زیادہ سالانہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ٹیکس نطام کی سب سے بڑی خامی ہی یہی ہے کہ کم آمدنی والوں پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے یعنی غریب آدمی امیر سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے سے حکومت نے 265 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جبکہ درآمد کنندگان سے صرف 74 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو فوری بے یقینی اور عدم استحکام سے نکالا جائے ورنہ معاشی اور سیاسی افراتفری کا خطرہ ہے۔افراط زر بڑھنے سے قےمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘افراط زر کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے سامان اور خدمات کی قیمتوں میں طویل مدتی اضافہ ہے۔ افراط زر کے مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم غیر متوقع افراط زر کا تجربہ کرتے ہیں جو لوگوں کی آمدنی میں اضافے سے مناسب طور پر مطابقت نہیں رکھتی ہے۔افراط زر وہ شرح ہے جس پر اشیا اور خدمات کی قیمتوں کی عمومی سطح بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں کرنسی کی قوت خرید گرتی ہے۔ اگر اشیا کی قیمتوں کے ساتھ آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتاتو، ہر ایک کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے ، جس کے نتیجے میں معیشت سست یا جمود کا شکار ہو سکتی ہے۔اس سے مجموعی طلب غیر پائیدار شرح سے بڑھ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے قلیل وسائل پر دباﺅ بڑھتا ہے اور پیداوار میں مثبت فرق ہوتا ہے۔افراط زر سے مراد اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ اور پیسے کی قوت خرید میں کمی ہے۔ پیسے کی قوت خرید کے خلاف اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں یہ اضافہ طویل مدت میں ماپا جاتا ہے۔ افراط زر کو اکثر فیصد کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے، اور اسے عام طور پر کسی ملک کی معاشی حالت کے اشارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب افراط زر زیادہ ہوتا ہے تو زندگی گزارنے کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کرنسی کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ لہذا، سامان اور خدمات کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔زیادہ افراط زر معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے اشیا اور خدمات کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔مہنگائی کی اہم وجوہات میں کرنسی کی قدر میں کمی۔ صارفین کی قوت خرید میں اضافہ۔ مزدوری کی بڑھتی ہوئی لاگت۔ زیادہ بالواسطہ ٹیکس۔ آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہےں۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روزانہ کی بنےاد پر بڑھتے ہیں۔اشیائے خور و نوش پر اٹھنے والے اخراجات ہر خاندان کے دوگنا ہو چکے ہیں ۔ قوتِ خرید کم ہونے سے معیار زندگی پر فرق پڑا ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔بیرونی قرضوں کے دباﺅ کی وجہ سے بجلی کے بل دوگنا سے زےادہ ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے ہوتی ہے مگر ان کے اوپر کوئی بھی گفتگو نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی حربے استعمال کرتے ہوئے یہ لوگوں کی زبان چپ کرا دیتے ہیں۔مہنگائی کی اےک اہم وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیا کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔ حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیا درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔ یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کی اور وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔