گلگت بلتستان کمیشن آف ویمن ایکٹ کی منظوری

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان کمیشن آف ویمن ایکٹ 2022 کی حتمی منظوری دیتے ہوئے کمیشن کے قیام کے مسودے پر دستخط کر دئیے جبکہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے کمیشن کے قیام کونوٹیفائی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسلام آبادمیں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے دوران گلگت بلتستان کی خواتین کو اعلی مقام دلوانے بااختیار بنانے اورقانون سازی کے عوامل میں خواتین کی بھرپور نمائندگی کے لئے وومن ڈویلپمنٹ گلگت بلتستان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے مابین مفاہمتی یاداشت پر دستخط کئے گئے ۔ ایکٹ کے نفاذکے مطابق گلگت بلتستان حکومت خاتون چیئرپرسن کا انتخاب کرے گی جبکہ گلگت بلتستان اسمبلی کی دو خواتین ممبران اس کمیشن کا حصہ ہوں گی چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اس کمیشن کی سربراہی کریں گے مزید برآں صوبائی حکومت کے اہم محکموں کے افسران بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے جو کہ کمیشن کے اغراض و مقاصد اور عملی اقدامات کے لئے معاونت فراہم کریں گے۔ تقریب میں اس عزم کو دہرایا گےا کہ گلگت بلتستان کی خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے اٹھایا جانے والا یہ قدم انتہائی سود مند ثابت ہو گا اور اس سے مثبت تبدیلی رونما ہو گی۔خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں۔ کسی بھی ملک یا ریاست کی معاشی ترقی میں خواتین کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اصناف کے درمیان فرق کو ہی کم کر دیا جائے تو ملک کی خام ملکی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح خواتین کو بااختیار بنا دیا جائے تو پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ لاتعداد شواہد کی بنا پر ماہرین ثابت کر چکے ہیں کہ اصناف کے درمیان فرق پست معاشی افزائش کا بڑا سبب ہے۔ جن ملکوں میں صنفی امتیاز کی شرح بلند ہے وہاں خام ملکی پیداوار میں افزائش کی شرح ان ملکوں کی نسبت کم ہے جہاں صنفی امتیاز کم ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق اصناف کے درمیان فرق کے عالمی انڈکس پر پاکستان دنیا کے 149 ممالک میں 148 ویں نمبر پر آتا ہے۔ہمارے ملک میں خواتین اپنی جہدِ مسلسل پر گامزن ہیں اور آج بھی انہیں لاتعداد مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ افرادی قوت میں پاکستانی خواتین کی شمولیت 23 فیصد ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا کے 181 ممالک میں 167 ویں نمبر پر آتا ہے۔ خواتین کے آگے بڑھنے میں صرف نقل وحرکت کی پابندیاں ہی حائل نہیں بلکہ انہیں اجرتوں کے شدید فرق کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ صحت کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 48 فیصد خواتین اپنی صحت سے متعلق فیصلے کرنے کے حق سے محروم ہیں۔افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت پر حوصلہ افزائی کے لئے ضروری ہے کہ موثر پروگرام اور پالیساں وضع کی جائیں اور ان کا نفاذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو قوانین پہلے سے نافذ ہیں ان پر عملدرآمد کی صورتحال میں بہتری لانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف متعلقہ ادارے بھی اپنی جگہ خواتین کو معاونت اور سہولیات کی فراہمی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں برابری کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے ذریعے خواتین کے لئے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں جو پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔بدقسمتی سے پورے جنوبی ایشیا میں یہی حال ہے۔ یہاں خواتین کی تعظیم پر زور تو دیا جاتا ہے، لیکن ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ خواتین پرمردوں کاغلبہ ہے۔ یہ تصور عام ہے کہ خواتین کا تحفظ صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔ عورت گھر کی چار دیواری سے باہر غیر محفوظ سمجھی جاتی ہے۔گو کہ اکثر خواتین گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ شہر میں رہنے والی خواتین کو تعلیم کی سہولتیں میسر تو ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو روزگار کے مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ خواتین کے لئے روزگارنہ ہونے کے برابر ہے۔ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کو خود اپنے حقوق سے آگاہی نہیں۔ مذہب کے نام پر جتنی پابندیاں خواتین پر لگائی جاتی ہیں وہ تمام خود ساختہ پابندیاں ہیں۔ مذہب اتنی پابندیاں نہیں لگاتا جتنی پابندیاں مذہب کے پیرو کاروں نے خواتین پر لگا رکھی ہیں۔ اس خطے کی خواتین سماجی سطح پر تو محرومی کا شکار ہیں ہی، صنفی بنیاد پر اس کو خانگی سطح پر بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں خواتین کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی،نہ ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیاجاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے۔یہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ اس خطے میں قدم قدم پر خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہم بہت پیچھے ہیں۔ اگرچہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر دستخط بھی کئے جا چکے ہیں کہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے کام کیا جائے گا۔ خواتین کو ان کے حقوق فراہم کر کے انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے گا،تاہم ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود ان معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا۔ عورت کا بنیادی حق تعلیم اور صحت کے مسائل یقینی طور پر حل طلب ہیں اور اس کے لئے ریاست کے ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیمیں مل کر خواتین کی ترقی کے لئے کام کررہی ہیں،کیونکہ خواتین کی ترقی کا براہ راست اثر معاشرے پر ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق تک رسائی دی جائے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کوشش کرنا ہوگی۔ یہاں کی عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزادی دینا ہوگی۔ اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی، اپنی مرضی کا مضمون پڑھنے میں آزادی، اپنا جیون ساتھی خود منتخب کرنے کی آزادی، جبکہ یہاں خواتین کو ہر بات میں پابندی اور جبر کا سامنا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کو اختیار نہ دیا جائے، اس کے لئے صنفی مساوات کو ختم کرنا ہو گا۔خواتین کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔چائلڈ میرج ایکٹ کی ضرورت ہے۔خواتین کے حقوق کے لئے صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین کو صحت اور انصاف کی سہولتیں ان کے گھر کی دہلیز تک دینا ہوں گی۔خواتین پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوں تو یہاں کی خواتین کو بااختیار بنانا ہو گا۔ اس خطے کی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں، دیکھیں وہ اس میں کب کامیاب ہوتی ہیں؟ خواتین کے مسائل کا حل مردوں کے تعاون سے مشروط ہے، تاہم ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت میں تو خواتین وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہی ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطہ خواتین کے لئے بدترین خطہ ہے، کیونکہ یہاں صرف مخصوص طبقے کی خواتین ہی آزاد ہیں، عام خواتین پر تو ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں سوشل ایمپاورمنٹ پر جو کام ہو رہا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے،اگرچہ اس سے کچھ نہ کچھ فرق تو پڑ رہا ہے لیکن اگر مسائل کی شدت دیکھیں تو یہ کام کچھ بھی نہیں ہے۔ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے آئینی، قانونی اور سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچ، نظریات اور رویوں میں ایسی تبدیلی لانی ہے جو اداروں، گھروں اور معاشرے میں نظر آئے، صرف اس صورت میں ہی خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ جب تک امتیازی سلوک والے سٹرکچرز کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جائے گا تب تک مسائل رہیں گے۔عورت کی حالت کو گھر سے بہتر کرکے، اسے معاشی دھارے میں لانا چاہیے، اچھی زندگی اور اپنی خواہشات کی تکمیل عورت کا حق ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو آمد و رفت تنخواہ اور چھٹیوں کا مسئلہ ہے، جینڈر فرینڈلی ماحول کا نہ ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی جاگیردارانہ نظام ہے۔ وہی پرانی سوچ ہمارے نظام میں کارفرما ہے۔اس فرسودہ نظام میں تبدیلی کیلئے ہماری ریاست کو سوچنا ہوگا، وہ ادارے جو قوم کی رائے سازی کرتے ہیں انہیں بڑے پیمانے پر ٹھوس اقدامات کے ذریعے تبدیلی لانے پر کام کرنا چاہیے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ دائمی ہے، اس کی سنگینی کو سمجھتے اور مضبوط جڑوں کو دیکھتے ہوئے، بڑے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔خواتین کی معاشرے میں دوہری ذمہ داریاں ہیں، گھر بھی اور ملازمت بھی۔ گھر ان کیلئے سکون کی جگہ ہے، خواتین کے گھر ٹوٹنے نہیں چاہیں، ریاست اس میں کردار ادا کرے، گھر کی چار دیواری میں بھی انہیں تحفظ فراہم کرے۔ اس میں معاشرتی رویوں اور اقدار کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، قوانین بھی اس میں اہم ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر ریاست کا طرز عمل اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔