فلسطین پر اسرائیل کے ظلم و بربرےت کا سلسلہ جاری ہے اسرائیلی فوج کی جانب سے 24 گھنٹے کے اندر تمام 10 لاکھ سے زائد شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑ کر جنوبی غزہ جانے کے الٹی میٹم کے بعد شہریوں نے پناہ کی خاطر نقل مکانی شروع کردی ہے۔اسرائیل کی بمباری سے 1800 سے زائد فلسطینی جاں بحق، 4 لاکھ 23 ہزار بے گھر ہو چکے ہےں۔اسرائیل کے مطابق حماس نے ابتدائی حملے میں ایک اندازے کے مطابق 150 اسرائیلی، غیرملکی اور دہرہ شہریت کے حامل افراد کو غزہ منتقل کردیا ہے۔حماس کے مطابق اسرائیلی فضائی کارروائی کے دوران زیر حراست 13 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔دوسری جانب کشیدگی مشرق وسطی سے باہر تک پھیل گئی ہے جہاں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور اسرائیل کو لبنان کی سرحد پر حزب اللہ کے ساتھ تصادم کا بھی خطرہ ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیردفاع یوو گیلنٹ نے کہا تھا کہ یہ جنگ کا وقت ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بھاری بمباری جاری ہے، جس کے نتیجے میں 1300 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے، جس میں زیادہ تر شہری شامل ہیں۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں غزہ شہر میں نمایاں آپریشن کریں گے اور شہری تبھی واپس جاسکیں گے جب بعد میں اعلان کیا جائے گا۔غزہ کے شہری اپنی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لیے جنوب چلے جائیں، اور خود کو حماس سے دور کر لیں، جو آپ کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔حماس کے ایک حکام نے کہا کہ غزہ کی نقل مکانی کا انتباہ جعلی پروپیگنڈا ہے اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ اس کا شکار نہ ہوں۔اقوام متحدہ نے کہا کہ تباہ کن انسانی نتائج کے بغیر شہریوں کی نقل مکانی ناممکن ہے، جبکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردن نے غزہ کے رہائشیوں کو اسرائیل کی ابتدائی وارننگ پر اقوام متحدہ کے ردعمل کو شرمناک قرار دیا۔اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے شمالی غزہ میں رات بھر 750 فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں حماس کی سرنگیں، فوجی کمپاﺅنڈز، سینئر کارکنوں کی رہائش گاہیں اور ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے والے گودام شامل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں 23 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے کہا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی جنریٹر کے لیے چند گھنٹوں میں ایندھن ختم ہو سکتا ہے، اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ خوراک اور تازہ پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔حماس کا حملہ صرف اسرائیل ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کے سرپرستوں کے لیے بھی غیرمتوقع طور پر نقصان دہ ثابت ہوا۔حماس کے راکٹ حملوں سے اب تک ایک ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی اور شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کو محض تین چار دنوں میں بہت بڑا معاشی دھچکا لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے مرکزی بینک کو رقم اکٹھا کرنے کی فوری ضرورت پیش آگئی ہے۔ شہروں میں انفرااسٹرکچر کے نقصانات کے علاوہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو لگنے والی ٹھیس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جوکہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اسرائیل کبھی مکمل طور پر محفوظ ملک بن پائے گا؟اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکا کے لیے بڑا اور سب سے اہم نقصان یہ ہوا ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا فوجی قوت ہونے کا رعب فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں نے آنافانا خاکستر کردیا ہے۔ موساد کے علاوہ میزائل حملوں کو فضا میں ہی ناکارہ کر دینے والا جدید ترین اسرائیلی دفاعی نظام بھی فلسطینی راکٹوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ اس دفاعی نظام کے بھاری اخراجات خطے کے امیر عرب ملکوں سے پورے ہونے کی کوشش بھی اب خطرے میں پڑ گئی ہے۔اسرائیل کی عسکری اہلیت اور طاقت کا بھرم ٹوٹ جانا اس کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ اسی فوجی طاقت نے عربوں کی آبادی والے اس خطے میں اسرائیلی ریاست کی دھاک بنا رکھی تھی۔ اسی اسرائیلی دھاک نے بعض ممالک کے لیے خوف کا الاﺅ اور کچھ لوگوں کے لیے امید کے دیے جلا دیے تھے۔ نارملائزیشن کے سفر میں بھی اس دھاک کا کردار غیر اہم نہیں تھا۔ مگر اب ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ خبریں آنا شروع ہوجائیں کہ نارملائزیشن کا امکان بھی قدرے کم ہوگیا ہے اور یہ بات امریکا میں بھی اہل حل وعقد نے بھی محسوس کی ہے۔سوال یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے یہ اتنا بڑا فیصلہ یا درست الفاظ میں کہیں تو اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟ اسرائیل کی جان پر بن آنے والے اس حملے کے اثرات خود فلسطینیوں پر، عالم عرب پر، مشرق وسطی پر، حتی کہ یورپ وامریکا پر کیا ہوں گے اور بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی کی رفتار پر اس سے کتنا اثر پڑے گا؟یہ بھی ضروری ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے کہ آخر اس مسئلے کا بیج کس نے بویا، زمین کس نے تیار کی، پانی کس نے دیا اور پھل کس کس نے کھانے کے خواب دیکھے تھے۔ مگر 7 اکتوبر 2023 کے دن فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس اس حد کو چھو گیا کہ اس نے 56 اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے بھی خود ایک قدم اٹھا لیا اور اگلے ہی روز لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ بھی حماس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں فلسطینیوں کی تباہی کے جگہ جگہ حوالے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے نے بنیادی طور پر جنم ہی تباہی وبربادی سے لیا تھا اور یہ تباہی و بربادی دونوں عالمی جنگوں کے باعث یورپی اقوام پر مسلط ہوئی تھی۔ جنگ زدہ یورپ معاشی، سیاسی اور سماجی عدم استحکام سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایسے میں دو خدشات اور خطرات کا اہل یورپ اور امریکا کو سامنا تھا۔یورپ اور امریکا نے یہودیوں کو پناہ کیوں نہیں دی؟کیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بہتر نہیں تھا کہ بظاہر دولت مند اور محنتی قرار دیے جانے والے یہودیوں کو یورپ میں بھی موثر کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے تاکہ تباہ حال یورپ کو فائدہ ہوتا؟ انہیں یورپ سے دور رکھ کر یورپ کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات یہودیوں کے ہاتھ جانے سے روکنا کیوں بہتر سمجھا گیا؟ یورپی ممالک میں انہیں جگہ دینے کے بجائے فلسطینی عربوں پر یہودیوں کو ایک عذاب کی طرح کیوں مسلط کردیا گیا؟یورپ ہی نہیں امریکا بھی اپنے خطے میں ان یہودیوں کے جمع ہونے، منظم ہونے اور موثر ہونے کے خوف میں مبتلا تھا۔ اس سے کلی مفر ممکن نہ تھا تاہم تعداد اور رفتار میں کچھ کمی ضرور کی جا سکتی تھی تاکہ ان کی بڑی تعداد کو مشرق وسطی کی راہ دکھا دی جائے۔ اس کا اظہار کئی دہائیوں قبل امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی کو لکھے گئے ایک خط میں بھی کیا گیا تھا۔ اپنے خط میں ٹرومین نے زور دیا تھا کہ یورپ میں مختلف پناہ گزین کیمپوں میں موجود یہودیوں کو بے بسی اور کسم پرسی سے ریلیف دلایا جائے اور برطانیہ فوری طور پر ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بسائے لیکن اسرائیل کا بیج بونے والے برطانیہ کے وزیر خارجہ ارنیسٹ بیون کا خیال یہ تھا کہ امریکا اس لیے یہودیوں کو فلسطین میں بسانا چاہتا ہے تاکہ یہ یہودی کہیں نیویارک کا رخ نہ کرلیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے یہ مسئلہ صرف امریکا کا ہی نہیں بلکہ تمام یورپی ممالک کا تھا۔ اسی وجہ سے 1920 کی دہائی سے ہی یہودی پناہ گزینوں کو فلسطین بھجوانے کی تیاری تیز تر کردی گئی جبکہ یورپی ممالک پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی یہودیوں کو یورپ سے فلسطین کی طرف دوستانہ انداز میں دھکیلنے کی کوشش کررہے تھے۔برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک 1920 کی دہائی سے پہلے ہی اس حوالے سے سوچ بچار شروع کر چکے تھے۔ اس لیے اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھرجیمز بالفور نے 2 نومبر 1917 کو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے سربراہ لائیونل والٹر راٹسچائلڈ کو خط لکھا تھا جس میں یہودیوں کو یورپ سے فلسطین میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔یہ خط تھا تو بہت مختصر مگر یہ اگلی صدی کے ایک بڑے عالمی تنازع کی بنیاد بنا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1947 میں اپنی قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی۔ نہ صرف یہ بلکہ امریکی دباﺅ میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا گیا۔فلسطینیوں نے اس قرارداد کو مسترد کردیا اور آج تک وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ حماس کے سربراہ اسمعیل ہانیہ نے اسی لیے اسرائیل پر تازہ حملے کو حتمی بنانے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ انہیں مزاحمت کرتے ہوئے تقریبا ایک صدی گزر چکی ہے۔ یورپ اور امریکا نے اسرائیل اور یہودیوں کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بےدخل کردیا جبکہ بیت المقدس اور مسجد اقصی سے بھی انہیں بے دخل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا ساتھ دیا۔فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی صرف بے حسی ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں ان کی جانبداری بھی جاری ہے۔ اسی جانبداری کی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی اسرائیل نے پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔اسلامی ممالک کی جانب سے فلسطین کی اخلاقی حمایت بیانات تک ہی محدود ہے۔ یہ سفارتی، سیاسی، معاشی اور عسکری حمایت میں آخر کب تبدیل ہوگی؟