بلدیاتی انتخابات اور گلگت بلتستان

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے زیر اہتمام بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے حلقہ بندی کمیٹیوں کے تین روزہ ٹریننگ ورکشاپ کے اختتامی تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہماری ترجیح ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کریں گے تاکہ عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل ہوں۔ گزشتہ کئی عرصے سے گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے لیکن ہماری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا عزم کیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کو شفاف بنانے میں نئی حلقہ بندیوں کا عمل اہم مرحلہ ہے۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے ایکٹ میں چند ترامیم تجویز کی گئی ہیں اور سیکرٹری قانون کو ہدایت کی ہے کہ ان ترامیم کو جلد مکمل کریں۔ وزیراعلی نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے حکومت گلگت بلتستان الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کو بھرپور معاونت فراہم کرے گی۔ وزیراعلی نے بلدیاتی انتخابات کی بہتر انداز میں انعقاد کیلئے چیف الیکشن کمشنر کے کوششوں کو سراہا۔ بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے جانتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں جبکہ قومی و صوبائی نمائندے محض انتخابات کے دنوں میں ہی عوام میں نظر آتے ہیں وہ نہ تو علاقے کے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی عوام سے شناسائی رکھتے ہیں ۔ عوام اپنے نمائندے اہل علاقہ سے منتخب کرتے ہیں ملکی سطح پر چھوٹے چھوٹے وارڈ یونٹ میں الیکشن کروائے جاتے ہیں اور وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جنہیں عوام براہ راست چنتے ہیں ۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ اس نظام کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت ہے اہلِ علاقہ سے ہونے کی بنا پر وہ ان خواتین امیدواروں کا چناﺅ کر سکتی ہیں جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی ہیں بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے مسائل کو اجاگر کرنے اور حل کرنے کی بھر پور سعی کریں گی۔ بلدیاتی نظام کی ان ہی خصوصیات کی بنا پر آمروں اور غاصبوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اس کو رائج کئے رکھا۔ اس نظام کی چند خامیوں کو دیکھتے ہوئے اس کی خوبیوں کو نظر اندازکرنا درست نہیں ۔ یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے۔1985 میں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند میں میونسپل کارپوریشن کے نظام کا آغاز کیا جس کے کل 27 ممبران تھے جن میں 26 ممبران میونسپل کمیشنر اور 27 واں میئر کہلایا ۔ اس نظام کی مدت 10 سال مقرر کی گئی قیام پاکستان کے بعد ایوب خان نے 1962 میں اسی نظام کو بی ڈی ممبر کے نام سے متعارف کروایا بعدازاں بھٹو دور میں دوبارہ کونسلرز سسٹم رائج ہوا ضیا دور میں بھی 1979 اور 1980 میں یہ نظام نافذ کیا گیا اسکے بعد 1998 میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے ۔ بلدیاتی نظام کا جو سب سے کامیاب دور گزرا وہ مشرف کا تھا جس نے 2001 اور 2005 میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لامحدود اِختیارات سونپے گئے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں یا تو آمرانہ نظام قائم رہا یا جمہوری اسی سیاسی اتار چڑھاﺅ میں کامیاب دور حکومت بھی گزرے ۔بلدیاتی نظام جمہوری طرز عمل کی بنیاد ہوتا ہے اور ایک بلدیاتی نمائندہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور اس ہی کے ذریعے یہ عوامی مسائل کا فوری اور پائیدار حل ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر عوامی مسائل کے حل اس بنیادی اکائی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہتے ہیں مگر ماضی کے حالات پر نظر ڈالیں تو ایک ایسا بھی وقت ہے جب پیپلز پارٹی کو مخلوط حکومت اور اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے تمام تر دعووں کے باوجود بلدیاتی انتخابات کروانے میں ناکام رہی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ سندھ کی صورتحال بدتر ہوگئی تھی۔اگر ہم بلدیاتی نظام پر تھوڑا غور کریں تو بلدیاتی نمائندے ایک یونین کونسل کی ڈیٹ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اسی کے منہ پر اس کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور ایم پی اے کو حلقے کی عوام ووٹ ڈالنے پر رضا مند ہوتی ہے حقیقی معنوں میں بلدیاتی نمائندے چیئرمین وائس چیئرمین اور کونسلر عوام کے سامنے اپنے پارٹی کی نمائندگی کرتے ہےں اور حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ یہی لوگ ہوتے ہےں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ نظام بہت کمزور رہا ہے جبکہ ہماری حکومتوں کو اپنی پارٹی کے ووٹ مضبوط کرنے کے لیے اس نظام پر خاصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایک ایم این اے اور ایم پی اے کے پاس اتنا وقت درکار نہیں ہوتا کہ وہ حلقے کی ایک ایک گلی کا وزٹ کرے اور عوام سے ملاقات کرکے ان کے مسائل پوچھے مگر یہ کام ایک بلدیاتی نمائندہ ہی کرتا ہے جو اپنی پارٹی کی بطور چیئرمین وائس چیئرمین یونین کونسل بن کر عوام کے آگے نمائندگی کر رہا ہوتا ہے اپنی پارٹی کا نام روشن کرنے کے لیے عوامی مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروا رہا ہوتا ہے۔اگر کسی حکومت نے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانا ہے تو اسے اپنے بلدیاتی نمائندوں کو مضبوط رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ایک بلدیاتی نمائندہ ہی اپنی پارٹی کو ووٹ دلانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔جب الیکشن آنے والے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بلدیاتی نمائندوں کو ایکٹیو کر دیا جائے۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سےاسی پارٹےاں سمجھتی ہےں کہ ملک میں اگر بلدیاتی نمائندے اگر اپنی پارٹی کو اپنی یونین کونسل اور اپنے علاقے میں مضبوط کر گئے تو حکومت کا کیا بنے گا کسی طرح اگر یونین کونسل میں بلدیاتی نمائندہ اپنی پارٹی کو مضبوط کرتا چلا گیا تو عام انتخابات میں موجودہ حکومت کو بہت بآسانی شکست ہو جائے گی۔بلدیاتی نظام دراصل ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرف عوامی مسائل کے فوری حل کے لیے تشکیل دیا گیا نظام ہے تاہم اس نظام کو ہمارے ماضی کے فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور اپنی مرضی کے نمائندے مسلط کرنے کے لئے بڑی حد تک استعمال بھی کیا ہے جیسا کہ جنرل ایوب خان نے 1959جنرل ضیا الحق نے 1979 اور جنرل پرویز مشرف نے 2000 میں بلدیاتی نظام متعارف کروائے۔جنرل پرویز مشرف نے گرچہ ضلعی حکومتوں کے نظام کے ذریعے ناظمین اور نائب ناظمین کو اختیارات دیے تھے تاہم وہ بیوروکریسی کی طاقتور رکاوٹ کو بالکل نظر انداز کرتے رہے جس نے اس نظام کو حقیقی مقاصد کے حصول میں قطعی ناکام بنادیا تھا۔بلدیاتی نظام نہ صرف نچلی سطح تک لوگوں کو اختیارات کی منتقلی کا بہترین طریق کار ہے بلکہ یہ مسائل کے فوری حل نئی سیاسی قیادت کو سامنے لانے اور حکومتی فیصلوں میں عوامی شمولیت اور فوری انصاف کی فراہمی کا سبب بنتا ہے۔اگر کسی پارٹی نے ملک میں اپنے قدم مضبوط رکھنے ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دور حکومت میں بلدیاتی نظام کو مضبوط کرے جس سے بلدیاتی نمائندے بھی خوش ہوںگے اور عوامی مسائل حل ہونے سے حکومت کے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے چانسز بھی بڑھیں گے۔بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے جانتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں جبکہ قومی و صوبائی نمائندے محض انتخابات کے دِنوں میں ہی عوام میں نظر آتے ہیں وہ نہ تو علاقے کے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی عوام سے شناسائی رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان میںگزشتہ کافی عرصے سے بلدیاتی انتخاب نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے دور افتادہ گا وں کے مسائل اس طرح سے ارباب ِاختیار تک پہنچ نہیں سکتے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ صرف آئینی تقاضا ہے بلکہ محرومیوں سے نجات کے لئے بلدیاتی انتخابات میں تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں بر وقت بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں، تاکہ عوام کے مسائل بلدیاتی سطح پر حل ہو سکیں۔ہمارے ہاں بلدیاتی نظام شروع سے ہی سیاست کی نذر رہا ہے اور سیاسی مفادات اور ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتیں اور اگر کراتی ہیں تو اختیارات اپنے پاس رکھتی ہیں۔ جو فنڈز بلدیاتی اداروں کا حق ہے وہ ترقیات کے نام پر ارکان اسمبلی کو دے کر اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔ آئین کے تحت اختیارات ملنا بلدیاتی اداروں کا قانونی حق ہے مگر سیاست کے باعث بلدیاتی اداروں کو بے اختیار اور محتاج رکھا جاتا ہے اور آئین کی کھلی خلاف ورزی عشروں سے جاری ہے مگر آئینی خلاف ورزی پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔