Skip to content
قراقرم ڈیس ایبلیٹی فورم کے زیر اہتمام اے کے آر ایس پی اور سائن سیورکے تعاون سے بینائی کے عالمی دن اور مینٹل ہیلتھ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ راجہ ناصر عبداللہ خان نے کہا ہے کہ خصوصی افراد معاشرے کا اہم حصہ ہیں ان کو کارآمد شہری بنانا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جو انتہائی افسوناک امر ہے۔ انہوں نے کہاکہ خصوصی افراد کی نمائندہ تنظیم کے ڈی ایف کے ذمہ داران کی کوششوں سے گلگت بلتستان میں خصوصی افراد کو ان کے حقوق ملناشروع ہو چکے ہیں ایک وقت تھا کہ لوگ گھر میں کسی خصوصی بچے کی پیدائش پر برا بھلا کہا کرتے تھے ان کا نام تک نہیں رکھتے تھے اور اکثر خصوصی افراد کا شناختی کارڈ بنانا بھی گورا نہیں کرتے تھے اب معاشرہ باشعور ہو چکا ہے۔خصوصی افراد کو معاشرے کا کار آمد شہری بنانے کیلئے انہیں ہنر سکھانا ہوگا جس کیلئے حکومت خصوصی توجہ دے گی ۔ڈپٹی کمشنر سکردو شہریا ر شیرازی نے کہاہے کہ ہمیں خصوصی افراد پر رحم کرنے کی بجائے انہیں ان کاجائز حقوق کی فراہمی کیلئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تمام خصوصی افراد کو روزگار فراہم کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے خصوصی افراد کو ہنرمند بنانے کی ضرورت ہے اس لئے حکومت اور انتظامیہ ملکر مختلف سنٹرز بنائیں گے جہاں ان کی رسائی باآسانی ہو۔ خصوصی افراد کے حوالے سے حکومتی اقدامات ازحد ضروری ہیں قانون میں بھی معذور افراد کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں جن میں ملازمت میں کوٹہ ، مفت تعلیم،صحت،علاج معالجہ ودیگر سہولیات شامل ہیں۔ان قوانین کے باوجود معذور افراد کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں 18سال تک کی عمر کے 60لاکھ سے زائد بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ترقی یا فتہ ممالک میں بھی حکومتوں کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں اور سارے اخراجات حکومتیں برداشت نہیں کر سکتیں اس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا کردار اہم ہوتا ہے۔معذور افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ فراہم کی جانی چاہیے ۔حکومت نے معذور افراد کی ملازمت کا کوٹہ دوفیصد سے بڑھا کر تین فیصد کر دیا تھا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ پالیسی معذوروں کے حوالے سے بنائی جاتی ہے لیکن ان سے مشاورت نہیں کی جاتی ۔اس لیے معذوروں کے حوالے سے کسی بھی سطح پر پالیسی بنانے کے لیے معذور افراد کو شامل کیا جائے،ان سے رائے لی جائے،ان کے مسائل پوچھے جائیں اور پھر اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔ حکومت کو معذور افرادکی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معذور افراد کو اسکول ، کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کی کوشش کرنی چاہیے روزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی ناانصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا ہوگا جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہربن سکیں۔سپریم کورٹ نے پنجاب میں گریڈ سترہ کی ملازمتوں میں اقلیتوں اور خصوصی افراد کے کوٹے سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں خصوصی افراد کے لیے معذور کی اصطلاح استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اقلیتوں اور خصوصی افراد کے لیے مقرر ملازمتیں فراہم کی جائیں، یہ ان کا آئینی حق ہے اور مذکورہ ملازمتیں تبدیل یا دیگر شہریوں کو نہیں دی جاسکتی ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو بلا امتیاز برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معذوری صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ معذوری کو تین بریکٹس میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک معذوری وہ ہوتی ہے جو نارمل افراد کو زندگی میں کبھی بھی ہوسکتی ہے یا پھر بڑھاپے میں طور پر ہوجاتی ہے جیسے یاداشت یا بینائی کا چلے جانا، فالج جیسے امراض کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔اس عمر میں انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات وسائل نہ ہونے کی صورت میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے اثرات ان کی نفسیات پر بھی پڑتے ہیں۔دوسری قسم کی معذوری بچوں میں ہوتی ہے یعنی پیدائشی طور پر بچے کا معذور پیدا ہونا۔پہلے جسمانی معذوری کے شکار بچوں کی تعداد زیادہ تھی مگر اب آٹیزم کا شکار بچے بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ دنیا میں ان کیلئے الگ سکولز اور سہولیات موجود ہیں مگر ہمارے ہاں یہ عدم توجہی کا شکار ہیں۔معذوری کی تیسری قسم نوجوانوں میں ہوتی ہے۔ ان کی عمر کے ساتھ مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔اس عمر میں انہیں روزگار کمانا ، گھر سنبھالنااور شادی جیسے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے لہذا ان کے لیے معاملات پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ، ملازمت و دیگر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کے باعث وہ فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا معذوری کا شکار تمام افراد کی نفسیاتی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔عمارتوں میں ریمپ کا مسئلہ ہے،پبلک مقامات اور سرکاری دفاتر بھی خصوصی افراد کے قابل رسائی نہیں ہیں، جہاں ریمپ بنے ہیں وہ بھی معیاری نہیں، ریمپ کا18 ڈگری سے زائد زاویہ نہیں ہونا چاہیے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے مستند اعداد و شمار نہیں۔سپیشل ایجوکیشن کی پالیسی اچھی ہے مگر بدقسمتی سے یہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پالیسیوں پر عملدرآمد میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، موثر مانیٹرنگ نہیں ہوتی، ہر حکومت اپنے حساب اور ترجیحات کے مطابق معاملات کو لے کر چلتی ہے جس میں خصوصی افراد نظر انداز ہوجاتے ہیں، ہمیں اچھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا چاہیے، اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔بدقسمتی سے ہمارے پارک، شاپنگ مال، و دیگر پبلک مقامات خصوصی افراد کے لیے سازگار نہیں ہیں، سینئر سٹیزنز کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سرکاری عمارتوں میں بھی مسائل ہیں،ہمیں انفراسٹرکچر میں خصوصی افراد اور سینئر سٹیزنز کو شامل کرنا ہوگا۔ جن تعلیمی اداروں میں سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں، وہاں بھی مسائل ہیں۔نابینا افراد اور خصوصا تعلیم حاصل کرنے والے نابینا طالب علم بہت سارے مواقع سے محروم رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے مسائل کی وجہ سے وہ سیمینارز، تربیتی ورکشاپس وغیرہ میں شرکت نہیں کر سکتے۔ بارش کی صورت میں خصوصی افراد کو آمدورفت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں ان افراد کی بحالی کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے پچانوے فیصد خصوصی بچے اسکول، مدارس و دیگر تعلیمی و تربیتی درس گاہوں میں نہیں جاتے، صرف پانچ فیصد بچے جو اسکولوں میں جاتے ہیں انہیں بھی سہولیات میسر نہیں ہیں۔خصوصی بچوں کے والدین بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جتنی جلدی بچے میں معذوری کا علم ہوجائے اتنا بہتر علاج ہوسکتا ہے اور بیشتر صورتوں میں معذوری سے بچایا جاسکتا ہے مگر ہمارے ہاں بچے کو جلد ڈاکٹر کے پاس لے کر نہیں جاتے بلکہ ٹوٹکے استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے مسائل پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے خصوصی افراد کے مسائل سنگین ہیں، حکومت، سرکاری و نجی شعبوں، سول سوسائٹی سمیت سب کو آگے آنا ہوگا اور خصوصی افراد کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان پر ترس نہیں کھانا اور نہ ہی بھکاری بنانا ہے۔ یہ خصوصی افراد کا حق ہے کہ انہیں معاشرے میں شامل کیا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ان بچوں کی معاشرے میں جگہ بنائیں، الگ سکول بنانے کے بجائے عام سکولوں میں ہی ان کی جگہ بنائی جائیں، انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔دیگر ممالک میں خصوصی افراد کو جتنا ریلیف مل رہا ہے ہمارے ہاں انہیں اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے۔ عمومی رویے تو مسئلہ ہیں ہی لیکن سرکاری دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا، ملازمین کی تربیت کرنا ہونگی۔خصوصی افراد کا ایک بڑا مسئلہ معذوری کے سرٹیفکیٹ کا حصول ہے۔اس لیے سر ٹیفکیٹ کیلئے مخصوص دن کی شرط ختم کرکے روزانہ کی بنیاد پرجاری کیے جائیں۔ہمارے ہاں زیادہ محکموں کی وجہ سے زیادہ وسائل خرچ ہو رہے ہیں، محکمہ بیت المال، سوشل ویلفیئر، محکمہ سپیشل پرسنز، محکمہ زکواة کو ضم کرنے سے کام میں بہتری لائی جاسکتی ہے اور وسائل کا ضیاع بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح کم وسائل میں اچھے نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد دو کروڑ ہے۔مخیر حضرات کے علاوہ متعدد غیر سرکاری تنظیمیں بھی خصوصی افراد کی بحالی کیلئے کام کر رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی خصوصی افراد کو سہولیات دینے کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود خصوصی افراد کی مشکلات ختم نہیں ہورہیں۔ انہیں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ وہیل چیئر و دیگر سہولیات کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فرسودہ اور پیچیدہ نظام ہے۔اس لیے خصوصی افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کیلئے ان کے مسائل کا ازالہ کرنا ہوگا۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں