امن و ترقی میں صحافیوں کا کردار

وزیراعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کا قیام امن سمیت پائیدار ترقی میں بڑا کردار رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے صحافیوں نے مشکل حالات کے باوجود اپنے پیشے کے فرائض سرانجام دئے ہیں۔ صحافت معاشرے کی اصلاح کےلئے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ گلگت یونین آف جرنلسٹ کی نومنتخب کابینہ کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوں نے مزےد کہا صحافیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کےلئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے۔ محکمہ اطلاعات اس حوالے سے اقدامات اٹھارہا ہے جنہیں بہت جلد متعلقہ فورم سے منظوری دلائیں گے۔گلگت بلتستان منفرد سیاسی و جغرافیائی حالات پر مشتمل علاقہ ہے جس میں مسائل بھی بے شمار ہیں جن کے حل کےلئے صحافیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ہم جانتے ہےں کہ صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔ ایک سچا صحافی معاشرہ میں اعلی شعور و اقدار کو فروغ دے کر قومی یکجہتی کے پر وقار جذبہ کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو تا ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور مختلف معاملات و واقعات کو ان کے صحیح تناظر میں بیان کرنا ہی ایک کھرے صحافی کا حقیقی منصب ہے۔ پاکستان بنانے میںبھی صحافیوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور پاکستان کے وجود کو قائم و برقرار رکھنے میںبھی صحافی اپنا کردار ادا کر تے رہیں گے۔ صحافی کا بنیادی فریضہ معاشرہ میں آگاہی پیدا کرنا اور معاشرتی و سماجی شعور کو بڑھاوا دینا ہے۔ دورِ حاضر میں میڈیا معاشرہ کی بنیادوں کا کام دے رہا ہے۔ پاکستان تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال لوگوں کی سرزمین ہے۔ بد قسمتی سے ہم عالمی شکنجوں میں جکڑی ہوئی قوم بن چکے ہیں اور ہماری صحافت بھی کارپوریٹ سیکٹر کی کارفرما ئیوں سے آزاد نہیں رہی۔صحافت دراصل آزادی اظہار کا نام ہے۔صحافت میں سچ کی روایت کو پروان چڑھا کر پاکستان میں قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ ایک سچا صحافی معاشرہ و قوم کے لےے دیدہ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ دورِ حاضر میں میڈیا معاشرتی سوچ کے دائروں کو متعین کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک سچے صحافی کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں۔ ایک صاحب عمل اور پر ارادہ صحافی ہمارے لےے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لےے صحافی بیش بہا خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ قومی وحدت قوموں کے نصب العین کا نام ہے۔ ابلاغیات کو دورِ حاضر میں کئی میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے کیونکہ میڈیا عوامی رائے عامہ کو بنانے بگاڑنے کا کام سر انجام دے رہا ہے۔ےہ حقےقت ہے کہ میڈیا کا کردار تمام شعبہ جات میں رسوخ حاصل کر گیا ہے۔ زندگی کاکوئی پہلو بھی میڈیا کے اثرات سے خالی نہیں رہا۔ میڈیا جمہوری اقدار کا محافظ اور پاکستان کی قومی یکجہتی کا ضامن ہے۔ پاکستانی سماج اس وقت قومی وحدت کے بحران کا شکار ہے۔ اس کڑے وقت میں قومی وحدت کوقائم رکھنے کے لےے صحافی اپنا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر انسان اپنے اردگرد کے ماحول کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور بدلتے حالات اور بدلتی دنیا میں اپنا مقام، اپنی اہمیت، اور ضرورت کا اندازہ لگانا چاہتا ہے۔ اور یہ سب معلومات اور آگاہی اسے میڈیا کے ذریعے ملتی ہے۔ دنیا میں ہونے والے کسی بھی اہم واقعے کی اطلاع یا خبر ہمیں میڈیا کے ذریعے ملتی ہے۔ صحافت ہی ہمارے تجسس کو پورا کرتی ہے۔صحافی معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ صحافی اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کے مسائل کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اور ان کے حل پر زور دیتا ہے۔ صحافی اپنی آواز سے عام لوگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ عام لوگوں کی آواز متعلقہ حکام تک پہنچاتا ہے۔ وہ عوام کی توقعات اور خواہشات کو موثر انداز سے پیش کرتا ہے۔ صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر معاشرے کے ناسوروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ صحافت ہر دور میں اہم رہی ہے اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ قیام پاکستان کی جدوجہد ہو تو صحافت کے کردار کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ صحافت ہر دور میں نچلے طبقے کی ترجمان رہی ہے۔ صحافت نے حکمرانوں کا احتساب کیا۔ صحافت نے حکمرانوں کی غلطیوں پر ان کی گرفت کی اور حکمرانوں کی من مانیوں پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ صحافت نے حکمرانوں کو عوامی مسائل حل کرنے پر مجبور کیا۔ بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ میڈیا کے دباﺅ کی وجہ سے بے شمار ایسے اقدامات کیے گئے جن سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچا۔کئی ایسے اقدامات روکے گئے جن سے عوام کو نقصان ہونے کا اندیشہ تھا۔ آج کے حالات میں دیکھیں تو میڈیا ہمیں ہر طرح کی معلومات فراہم کر رہا ہے۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ بے شک اگر صحافت کے کردار کو نظرانداز کر دیا جائے تو ریاست کے باقی تین دستوری ستون بھی اپنی اہمیت کھو دیں گے۔ عوام اور حکومت کا باہمی تعلق اور رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ عوام کے مسائل حکومتی حلقوں تک نہیں پہنچ پائیں گے اور حکومتی فیصلوں یا اقدامات سے عوام بے خبر رہے گی۔ کسی ظلم یا نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا تو عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پائیں گی۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا چونکہ باقاعدہ ایک پالیسی اور ایڈیٹوریل بورڈ کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس لیے ان ذرائع سے مصدقہ اور ضروری معلومات اور خبریں ملتی ہیں۔ صحافت کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے۔ صحافی کے قلم کی سیاہی شہید کے خون کے برابر حیثیت رکھتی ہے۔ بشرطیکہ صحافی حق کا دامن نہ چھوڑے اور اپنے فرض کو پوری ذمہ داری سے پورا کرے۔علاقائی صحافیوں کا بھی علاقے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ملکی معیشت کی ترقی اور خوشحالی کیلئے صحافےوں سمےت ہم سب کو بحیثیت قوم آگے بڑھنا ہو گا ریاستی اداروں کیساتھ ساتھ جب تک قوم احساس ذمہ داری اور جذبہ حب الوطنی بیدار نہیں ہو گا قوم آگے نہیںبڑھ سکے گی۔بد قسمتی سے وطن عزیز گزشتہ کئی عشروں سے متعدد اقسام کے سیاسی سماجی فرقہ وارانہ صنفی صوبائی و لسانی مسائل اور بد امنی کا شکار ہے جو نہ صرف ساری دنیا میں اس سر زمین پاک کی بدنامی کا سبب ہے بلکہ اس عفریت کی وجہ سے قومی خوشحالی کی رفتار نہایت سست روی کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں بیشترپاکستانی خط غربت سے نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر گزرتا لمحہ امن ومان کی ابتری،عدم برداشت، فرقہ واریت اورظلم و تشدد کا پیغام لے کر آ رہا ہے اور باوجود ہزارہا کوششوں کہ اس عفریت پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کا انسانیت سے ناتا جوڑ کر اس دنیا میں امن وسکون قائم رکھنا کو ئی مشکل کام نہیں لیکن امن و امان کو حاصل کرنے سے لے کر قائم رکھنے تک کے عمل کو شب و روز کی محنت درکار ہے بلکہ امن کے قیام کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ہمارے معاشرے کو تحمل، عدم برداشت اور رواداری جیسے رویوں کو اپنانے اور اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کرنے کی بے انتہا ضرورت ہے ۔ اس نازک موقع پر صحافیوں، لکھاریوں کا ذمہ دارانہ کردار بہت اہم ہے کیونکہ شدت پسندی، نفسانفسی، باہمی انتشاراور سیاسی خلفشار عروج پر ہے۔معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ امن وسکون نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر وقت خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔اندرونی معاملات بھی مختلف مذہبی، لسانی، مسلکی اور سیاسی نفرتوں کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں ۔معاشرے کے بیشتر لوگ اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور معمولی باتوں پر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہو ئے ہیں۔کیونکہ ہم معمولی تعصبات کی وجہ سے ایک دوسرے کی اچھی باتوں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں امن وامان اور رواداری کے قیام کے لئے کوشاں رہیں لیکن معاشرے میں موجود لکھاری اور صحافی برادری پراس ضمن میں نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی کوششوں سے قیام امن کے لیے نہایت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پرامن معاشرہ کی تشکیل میں صحافےوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کو ذہن نشین کرائیں کہ مذہبی، لسانی،سیاسی اور فرقہ وارانہ موضوعات پر گفتگو سے پرہیز کریں۔صحافی برادری کا فرض ہے کہ نفرت، شرانگیزی اور تصادم پھیلانے والے عناصر کی فی الفور نشان دہی کریں تاکہ ان عناصر کا قلع قمع ہوسکے۔انہےں اپنی تحریروں کے ذریعے عوامی رویوں میں تبدیلی لاکر معاشرے میں محبت اور رواداری کے فروغ کی خاطرتحمل اور برداشت کی فضا قائم کرنا ہو گی۔معاشرتی بگاڑ کو روکنے کےلئے صحافی کے ساتھ ساتھ اخبارمالکان اور میڈیا ہاﺅسزکو بھی اپنی معاشرتی ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے مثبت رویوں کا درس دینا ہو گا اور اختلاف رائے کو خوش اسلوبی سے قبول کرنے کی تعلیم بھی لازم ہے تاکہ باہمی تنازعات سے معاشرتی بگاڑ کو روکنے کی تربیت ممکن ہوسکے اور مثبت رویے آئندہ نسلوں میں منتقل ہو سکیں ۔ہم سمجھتے ہےں کہ اگر صحافت اور صحافی اپنی ذمہ دارےاں کماحقہ ادا کرےں تو معاشرہ کی فلاح و بہبود و ترقی کو ممکن بناےا جا سکتا ہے۔