بڑھتے ہوئے اندرونی و بیرونی قرضے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں کی مالیت چونسٹھ ہزار ارب کی نئی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اگست 2023 میں دو ہزار 218 ارب روپے کے نئے قرض لیے جبکہ پاکستان پر مقامی قرضوں کا بوجھ چوبےس فیصد اضافے سے انتالےس ہزار 792 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ملک پر بیرونی قرضوں کی مالیت اگست 2023 میں چوبےس ہزار 175 ارب روپے ریکارڈ کی گئی۔ یوں وفاقی حکومت کے مجموعی قرضوں کی مالیت چونسٹھ ہزار ارب کی سطح پر پہنچ گئے۔سٹیٹ بینک نے ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جو اعداد و شمار جاری کیے تھے ان کے مطابق اپریل 2022 میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم 43705 ارب روپے تھا جو اپریل 2023 میں غیرمعمولی طور پر بڑھ کر 58599 ارب روپے تک پہنچ گیا۔اس طرح وفاقی حکومت نے ایک سال کے عرصے میں 14900 ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا، یعنی 41 ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔مرکزی بینک کے مطابق حکومت نے ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34 فیصد قرضہ لیا، صرف اپریل 2023 میں 1476 ارب روپے کے ریکارڈ قرضے لیے گئے، اپریل میں بیرونی قرضے نہ ملنے کے باعث 99 فیصد قرضے مقامی ذرائع سے لیے گئے۔اعدادوشمار کے مطابق ایک سال میں ملک پر واجب الادا بیرونی قرض 7259 ارب روپے بڑھ کر 22050 ارب روپے ہوگیا۔اسی طرح ایک سال کی مدت میں اندرونی قرض بڑھ کر36549 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت ان قرضوں کی دلدل میں مسلسل دھنستی جا رہی ہے ۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن مجموعی طور پر ہمیں گزشتہ دو چار دہائیوں سے یہ دباﺅ بدستور بڑھتا ہی دکھائی دیا۔قرضوں کے علاوہ حکومت کو اپنے حکومتی اداروں یا عالمی سرمایہ کاروں یا اداروں کو مختلف طرح کی مالیاتی گارنٹیز بھی دینا پڑتی ہیں جِسے سوورن گارنٹیز کہا جاتا ہے، یہ حکومتی گارنٹی بھی ایک طرح کی مالیاتی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معیشت کے ذمہ واجب الادا قرضوں کے حساب میں یہ ریاستی گارنٹیز بھی اندرونی و بیرونی قرضوں میں شامل کرکے اسے مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جاتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے معیشت کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔سی پیک کی سرمایہ کاری اور اس کے علاوہ براہ ِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے سبب تجارتی خسارہ بڑھا اور معیشت پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھنا شروع ہوا تو ایک موقف یہ بھی دہرایا جاتا رہا کہ معیشت میں اس غیرمعمولی سرمایہ کاری کی وجہ سے وقتی دباﺅ ہے۔اس سرمایہ کاری کے ثمرات معیشت میں اضافی پیداوار کی صورت میں جب ظاہر ہوں گے تو معیشت کی ان قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بھی اسی تناسب سے یا شائد کچھ زائد تناسب سے ہی اضافہ ہو گا۔ اس لئے بیرونی قرضوں میں اضافے پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستان کی معیشت کو اچانک غیرمعمولی دباﺅ کا سامنا ہے۔ اس دباﺅ کا ایک ان چاہا نتیجہ ہمارے سامنے خوفناک حد تک بڑھے ہوئے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں مزید نئے قرضوں کا بوجھ ہے۔قرضوں کے حجم میں اضافے کے علاوہ ایک اور رجحان بھی نمایاں رہا۔ حکومت نے قومی بینکوں کے قرضوں اور کچھ طویل مدت قرضوں کی ادائیگی تو ضرور کی لیکن سٹیٹ بینک سے نئے قرض لے کر بینکوں سے قرضوں کے موجودہ رجحان میں قلیل مدت قرضوں پر تکیہ کےا۔ ان قرضوں پر مارک اپ کی شرح بھی زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کے لئے پھر سے نئے قلیل مدت قرضے لینے پڑتے ہیں، اس عمل کو مالیاتی اصطلاح میں رول اوور کرناکہتے ہیں۔ یہ صورت کچھ بیرونی قرضوں میں بھی ہے جہاں قلیل مدت اور کمرشل بینکوں اور شرائط پر تکیہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال اور بالخصوص آنے والے سالوں میں واپس کئے جانے والے قرضوں کی مالیت اور ان پر ادا کئے جانے والے سود کی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں کے بوجھ نے معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بیرونی قرضوں کے اس بوجھ کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے چند سال بھی اس اقتصادی دباﺅ میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کے بجٹ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی واپسی اور ادائیگیوں کے لئے مختص رقم ترقیاتی اور دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ مالی بوجھ آنے والے سالوں میں مزید بڑھے گا جس کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات، دفاعی اخراجات اور دیگر جاری حکومتی اخراجات پر دباﺅ بدستور بڑھے گا۔ ان سیکٹرز کے لئے اخراجات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہونے کے باوجود حکومت خاطر خواہ فنڈز کا بندوبست کرنے کے لئے مشکلات کا شکار رہے گی۔تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس وقت زرِ مبادلہ کے ذخائر بمشکل دو ماہ کی درآمدات کے لئے دستیاب ہیں جبکہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے موجود ذخائر کو معاشی استحکام کے لئے مناسب سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کو اپنے زرِمبادلہ کو ایک حد تک برقرار رکھنے کے لئے مزید بیرونی سہارے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں دو ہی حل تھے کہ یا تو فورا آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے کے لئے جایا جاتا یا پھر کچھ دوست ممالک سے قلیل اور طویل مدت کے لئے معاشی امداد کا بندوبست کیا جاتا تاکہ نئی حکومت اپنی اسٹریٹیجی بنا سکے۔زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے شرح مبادلہ پر دباﺅ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس معیشت میں درآمدات برآمدات سے دو گنا سے بھی زائد ہوں اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ بھی زیادہ ہو تو اس کا لامحالہ نتیجہ روپے کی قدر پر مسلسل دباﺅ ہوتا ہے اور مزید کمی کی تلوا ر پھربھی لٹکتی رہتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروباری لاگت میں اضافہ ایک نئے مشکل اقتصادی سلسلے کا باعث بنتا ہے۔بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لئے روپے کی صورت میں درکار وسائل میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہونے والی روپے کی قدر میں کمی وجہ سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے اضافی بوجھ کا تخمینہ چار سو ملین لگایا گیا ۔معاشی شرح نمو مجموعی اقتصادی صورتحال کا نچوڑ ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو مستحکم اقتصادی ترقی اور بار بار کے بوم اینڈ برسٹ سائیکل سے چھٹکارہ پانے لئے تسلسل کے ساتھ چھ فی صد سے زائد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو سکے، انفراسٹرکچر میں جدت اور مزید بہتری لائی جا سکے، روزگار کے مزید مواقع پیدا کئے جا سکیں، عوام کی فلاح کے لئے ترقیاتی اخراجات اور دیگر حکومتی ترجیحات کے لئے مناسب وسائل فراہم ہو سکیں، معیشت میں یہ گنجائش پیدا کی جاسکے تاکہ نئے بیرونی قرضے اضافی پیداوار کا باعث بنیں اور ادائیگیوں کے لئے خود کفالت کا سبب بنیں ۔ کچھ سالوں کی ترقی نے درآمدات کو بڑھاوا دیا جبکہ دوسری طرف برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاﺅنٹ بڑھا اور یوں بیرونی قرضوں میں اضافے کی نئی مجبوری اور مشکل بار بار سامنے آن کھڑی ہوئی۔ملکی معیشت ایک بار پھر نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔نگران حکومت کےلئے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لئے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقینا ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے ، ورنہ معیشت کے موجودہ پیداواری ڈھانچے کے ساتھ کسی غیر معمولی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔آئی ایف ایم کے قرضوں کے دست نگر ممالک کو قرضہ کی کئی کڑی شرائط کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے اثرات ان ممالک کی اقتصادی پالیسیوں پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ خاص کر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی اقتصادیات پر۔ آئی ایف ایم کے مخالفین کے نزدیک اس ادارے کے قرضے، قرض خواہ ممالک کی اقتصادی حالت اور ان کی خراب اقتصادی پالیسیوں کے بدولت، گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ ممالک جانتے ہیں کہ قرض ادا نہ کرنے کی ضرورت میں ہمیں آئی ایف ایم بیل آﺅٹ پیکیج دے گا۔ جس کی وجہ سے اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے یہ ممالک کوئی خاص توجہ نہیں دیتے نہ ہی اپنی اقتصادی پالیسیوں کو ازسر نو مرتب کرتے ہیں تاکہ ملکی معاملات سدھر سکیں۔ اس کے علاوہ آئی ایف ایم کے قرضے کی پالیسیاں تمام ممالک کے لئے یکساں ہونے کی صورت میں ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ہر ملک کی اپنی علیحدہ شناخت اور وہ اپنی اقتصادیات رکھتا ہے۔ جسے سمجھنا ازحد ضروری ہے اور اسی کے تحت اس ملک کی بری اقتصادی حالت کا مقامی حل تلاش کیا جانا چاہیے اور پھر اسے سدھارا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ، بیرونی قرضوں کا غیر پیداواری منصوبوں پر استعمال ہے جےس روکا جانا چاہےے۔