نوجوان ملکی ترقی کی سمت درست کر سکتے ہےں


ےونےسف کے کنٹری ڈائرےکٹر نے کہا ہے کہ معاشی ترقی کا ذرےعہ بننے والی پالےسےاں بنائی جائےں۔انہوں نے کہا پاکستان کی تےس فےصد نوجوان آبادی کی صلاحےتوں کو اربن اکانومی کی ترقی کےلئے استعمال کےا جا سکتا ہے۔کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی اور مستقبل کا دارومدار اس ملک کے نوجوانوں کو قرار دیا جاتا ہے تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نہ صرف بیروزگاری بلکہ تعلیم کے مساوی مواقع اور مناسب طبی وسائل کی عدم فراہمی سمیت کئی مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی پچےس کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ملک میں مجموعی آبادی کا کل چونسٹھ فیصد حصہ تےس برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ان میں انتےس فیصد آبادی پندرہ سے انتےس برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں انتےس فیصد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ صرف چھ فیصد نوجوان بارہ تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے سب سے بڑے مسائل تعلیم اور بے روزگاری ہیں۔ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بائےس فیصد اضافہ ہوا نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقعوں کی کمی سے پریشان ہیں۔بلاشبہ انسانی وسائل اقوام عالم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک جہاں نوجوان آبادی کا تناسب نسبتا زیادہ ہوتا ہے۔ وہ قدرتی طور پر انسانی وسائل کے میدان میں زیادہ استعداد کے حامل قرار پاتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں میں پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد خواتین ہیں جبکہ نوجوانوں کی ایک تہائی، یعنی تینتیس فیصد شادی شدہ جبکہ سڑسٹھ فیصد، غیر شادی شدہ ہے۔ نوجوانوں کی پچپن فیصد آبادی پنجاب، تیئس فیصد سندھ، چودہ فیصد خیبر پختونخوا، چار فیصد بلوچستان جبکہ چار فیصد آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ہے۔پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی شہری علاقوں جبکہ چھتیس فیصد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ تعلیم و خواندگی کے اعتبار سے تقریبا ستر فیصد نوجوان خواندہ جبکہ تیس فیصد ناخواندہ ہیں،پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی ترقی کی رفتار اس کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں شعور اور نظم و ضبط کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس حوالے سے فوری حکومتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔نوجوانوں کی چالیس فیصد تعداد برسر روزگار ہے جس میں بتیس فیصد مرد اور آٹھ فیصد خواتین شامل ہیں، چار فیصد نوجوان بیروزگار اور روزگار کی تلاش میں ہیں جبکہ چھپن فیصد جس میں چالیس فیصد خواتین اور سولہ فیصد مرد شامل ہیں روزگار کے متلاشی نہیں ہیں۔ برسر روزگار نہ ہونے والے باقی ماندہ ساٹھ فیصد نوجوانوں میں سے چودہ فیصد بلا معاوضہ کارکن ہیں جبکہ دس فیصد گاہے بگاہے یا جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں جبکہ آٹھ فیصد نوجوان اپنے طور پر کاروبار سے منسلک ہیں۔ سیاسی اور سماجی اعتبار سے پاکستانی نوجوان بہت پرعزم نظر آتے ہیں۔ ملک کے اسی فیصد نوجوان انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ بیس فیصد کی اس میں دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے ستر فیصد نوجوان اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، پندرہ فیصد خود کو غیر محفوظ جبکہ باقی پندرہ فیصد کی اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں۔ ملک کے دو تہائی سے زائد یعنی سڑسٹھ فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ ان کا معیار زندگی ان کے والدین سے بہتر ہے۔ اٹھارہ فیصد کا خیال ہے کہ ان کے والدین جیسا ہی ہے جبکہ پندرہ فیصد کا ماننا ہے کہ ان کا معیارِ زندگی ان کے والدین سے کمتر ہے۔ نوجوانوں کی تقریبا نصف تعداد یعنی اڑتالیس فیصد کا ماننا ہے کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے، سولہ فیصد سمجھتے ہیں کہ اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی جبکہ چھتیس فیصد نوجوان بہتر مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔جہاں ایک طرف ہم قدرتی طور پر نوجوان آبادی پر مبنی کارآمد انسانی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں تو دوسری جانب سب سے زیادہ خوش آئند امر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ملک کے معروضی حالات سے متعلق، جس میں ہمیں اقتصادی چیلنجز کا پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے سامنا ہے، ہمارے نوجوان پر امید وپر جوش اور اپنی زندگی سے بہت خوش ہیں اور ان کے یہ مثبت فکری اوصاف ملک کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر وترقی کے لئے بہت فرحت انگیز احساس فراہم کرتے ہیں۔ملک میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں جہاں ایک جانب گردشی قرضوں کے گرداب پر مبنی معاشی مشکلات سے باہر نکلنا شامل ہے وہاں اصلاحات پر مبنی مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کو پہلے سے بہتر اور معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہوںگے اور پہلے سے بہتر صحت عامہ کی سہولیات عوام کی دسترس میں لانی ہوںگی۔موبائل فون اوربالخصوص انٹرنیٹ سروس کا تیزی سے پھیلاﺅ بیک وقت ایک بہت بڑا موقع فراہم کرچکا ہے جس کے تعمیری استعمال سے ہم تعلیم اور سماجی شعور کی ترویج کو یقینی بنا کر اپنے موجودہ رواےتی تعلیمی نظام کی کمزوریوں کو دور کرسکتے ہیں، لیکن دوسری جانب عمومی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کے تیز رفتار پھیلاﺅاور ایک ایسی نسل کے نوجوانوں تک اس کی بلا روک ٹوک رسائی سے جڑے ممکنہ نقصانات سے بہت زیادہ آگاہ نہیں تو اس سے یہ خدشہ بھی ہمارے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے نوجوانوں کا وقت اور توانائی کسی ایسی سمت میں نہ ضائع ہو جو ان کے اخلاق اور کردار سازی کے لئے مضر ہو۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی ترقی کی رفتار اس کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں شعور اور نظم و ضبط کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس حوالے سے فوری حکومتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔ بنیادی تعلیمی نصاب میں شہریت، ابتدائی طبی امداد اور شہری دفاع جیسے مضامین کو لازمی شامل کیا جانا چاہئے اور جو نوجوان اس تربیت سے محروم ہیں ان کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کی مدد سے مناسب آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاںہسپتال اور میڈیکل ایمرجنسی میں ایمبولینس کی سہولیات بہت موثر طور پر دستیاب نہیں، وہاں ہر نوجوان کو ابتدائی طبی امداد اور حادثات کی صورت میں ذمہ دار اور کارآمد شہری کے طور پر ہنگامی اقدامات میں تعاون سمیت بنیادی احتیاطی تدابیر کی لازمی آگاہی ضرور فراہم ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں ایسی کسی صورتحال میں قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے گا اور اس کے لئے بھی انٹرنیٹ ایک نہایت موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ہمےں اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کے باعث بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا بھی رہتا ہے اور دنیا میں انٹرنیٹ کے پھیلاﺅ کے بعد اب انتہائی متحرک سوشل میڈیا کے دور کا سامنا ہے۔ آج دنیا سمٹ کر ہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے، ہمیں نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس سیلاب میں معلومات کا جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا طوفان ہر جانب موجود ہے، اس کے درمیان کیا ہم نے ایسا قابل بھروسہ بندوبست کرلیا ہے کہ ہمارا نوجوان ہماری بنیادی نظریاتی اساس یعنی نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کے لئے علمی اور عقلی طور پر دنیا کا سامنا کرنے کے لئے موثر طور پر تیار رہے۔پاکستان میں آبادی کی موجود صورت حال ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر نوجوانوں کی صلاحیت اور قوت کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے تیز رفتار اقتصادی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو پھر پاکستان کے لیے بہت ہولناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ اضافی نوکریاں پیدا کرنا ہوں گی جو امریکہ کی اقتصادیات کا ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت کے لیے جو ہر سال دس لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے ایک بڑا چیلنج ہے۔نوجوان نسل کو مثبت طریقے سے استعمال کیا گیا تو اس سے تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے‘نوجوانوں کا بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے‘ نوجوان سمجھتے ہےں کہ تعلیم ہی ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔

۔