نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ کسی بھی پاکستانی کی فلاح اور سیکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اور کسی بھی ملک یا پالیسی سے زیادہ اہم پاکستانی قوم ہے۔ یکم نومبر سے پہلے تک ان کے پاس وقت ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں یکم نومبر ہی پاسپورٹ اور ویزا کی تجدید کی ڈیڈ لائن ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی اور دستاویز پر کسی ملک میں سفر کریں، ہمارا ملک واحد ہے جہاں آپ بغیر پاسپورٹ یا ویزا کے آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد کوئی بھی شخص، کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا اور صرف پاسپورٹ چلے گا۔دس اکتوبر سے لے کر 31 اکتوبر تک افغان شہریوں کے لیے ای تذکرہ یا الیکٹرانک تذکرہ ہے، یہ کمپیوٹرائزڈ ہو گا، کاغذی تذکرہ نہیں چلے گا، ہم 10 سے 31 اکتوبر تک اس کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہو گی۔ یکم نومبر کے بعد ہمارا ایک آپریشن شروع ہو گا جس کے لیے وزارت داخلہ میں ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جس کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے آکر رہنے والے افراد کی جتنی بھی غیر قانونی املاک ہیں، انہوں نے جتنے بھی غیر قانونی کاروبار کیے ہیں، ہمارے ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں یا وہ کاروبار جو غیرقانونی شہریوں کے ہیں لیکن پاکستانی شہری ان کے ساتھ مل کر یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو ڈھونڈیں گے اور ہم ان کاروباروں اور جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کریں گے، اس کے علاوہ جو بھی پاکستانی اس کام کی سہولت کاری میں ملوث ہو گا، اس پاکستانی کو پاکستان کے قانون کے مطابق سزائیں دلوائی جائیں گی۔ ملک میں جس طرح سے شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا رہا ہے، اس میں بہت زیادہ بے ضابطگیاں تھیں اور غیر قانونی طریقے سے بہت سے جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں اور ان شناختی کارڈ پر سفری دستاویزات اور پاسپورٹ بنائے گئے ہیں، لوگ ان پاسپورٹ پر بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں اور کئی جگہوں پر ایسی مثالیں ہیں جہاں لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں پکڑے گئے ہیں اور جو پکڑے گئے ہیں وہ پاکستانی شہری نہ تھے لیکن ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جو انہیں نادرا سے ملا۔ نادرا کا فیملی ٹری ہے جس میں بہت حد تک یہ ممکن ہے کہ ہم میں سے کسی کے بھی فیملی ٹری میں کسی ایک کو گھسا لیا جاتا ہے اور وہ پاکستانی شہری بن جاتا ہے۔ہمارے پاس ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت آگئی ہے اور ہم ان لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائیں گے جو پاکستانی شناختی کارڈ کے مالک ہیں لیکن پاکستانی نہیں ہیں، اس کے علاوہ ہم ایک ویب پورٹل بنا رہے ہیں اور ایک یو این اے نمبر دے رہے ہیں، ہم تمام پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ویب پورٹل اور اس نمبر کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں، جو ہمیں غیر قانونی شناختی کارڈ، غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے معلومات دے گا اور غیر قانونی سرگرمیوں جیسے اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے معلومات دے گا ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور ان کے لیے انعامی رقم بھی رکھی جائے گی، وزارت داخلہ اپنے تمام محکموں کو وہ معلومات دے گی اور وہ فوری کارروائی کریں گے۔ پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان باشندوں کے خلاف کارروائیوں کی بات کی جائے تو اسلام آباد کی حد تک یہ کارروائیاں اس مبینہ فیصلے کے سامنے آنے کے بعد کی گئی ہیں کہ حکومت ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم لاکھوں افغان شہریوں کو مرحلہ وار واپس بھیجے گی۔وزارت داخلہ کے مطابق وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جو مبینہ طور پر شدت پسند اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے کے لیے درکار کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 30 لاکھ افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے چودہ لاکھ وہ ہیں جو پی او آر کارڈ پروف آف رجسٹریشن ہولڈر ہیں۔ساڑھے آٹھ لاکھ وہ ہیں جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے جبکہ سات لاکھ 75 ہزار کے لگ بھگ ایسے ہیں جن کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے حکومت قائم ہونے کے بعد سے فروری 2022 کے دوران اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کی بنیاد پر لگ بھگ ایک لاکھ سترہ ہزار نئے پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے۔وزارت داخلہ کے ایک افسر کے مطابق خفیہ اداروں کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد چھ لاکھ کے قریب افغان شہری ویزا لے کر اور باضابطہ سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے احکامات کی روشنی میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔کہا گےا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملازمت، پناہ اور غیرقانونی مدد فراہم کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ ایسے عناصر کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں، پاکستان کی سلامتی اولین ترجیح ہے مگر اس کے ساتھ اس معاملے سے جڑے انسانی پہلو کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق اقدامات پہلی مرتبہ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی کارروائیاں کی گئیں مگر یہ معاملہ مکمل طور پر کبھی حل نہیں ہو سکا۔پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملے ہیں۔ فوجی حکام اور سویلین رہنماﺅں نے متعدد مرتبہ افغان طالبان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں۔ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی کہا گیا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا تو کیا اس بار اس پر عمل درآمد ہو گا؟اےک پہلو ےہ بھی ہے کہ تےس لاکھ افغان باشندوں کو ملک سے نکالنا اتنا آسان نہیں کیونکہ پاکستان اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کا بھی پابند ہے۔اےک موقف ےہ ہے کہ طالبان کے افعانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تر وہ افغان باشندے پاکستان میں قانونی طور پر داخل ہوئے تھے جو وہاں پر غیرملکی کمپنیوں اور اداروں کے لیے کام کرتے تھے اور ان افراد کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پاکستان پہنچ کر ان کے ویزوں کا مرحلہ شروع کر دیا جائے گا، مگر بیشتر کیسز میں ایسا نہیں ہو گا۔بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر رکھے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چھ لاکھ کے قریب جو افغانی پاکستان آئے ہیں ان میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جو طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔دنےا بھر میں کوئی بھی ملک اپنے ہاں مقےم غےرقانونی افراد کو برداشت نہےں کرتا اور اس سلسلے میں اےسے افراد کو ان کے ملکوں میں ڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔حال ہی سعودی عرب میں غیرقانونی مقیم افراد کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے اور ایک ہفتے کے دوران گےارہ ہزارچار سوافراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ سعودی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ملک بھر میں 21 سے 27 ستمبر کے دوران کارروائیاں کی گئیں۔ان افراد کو رہائشی و لیبر قوانین اور سرحدی سےکیورٹی ضوابط سمیت مختلف خلاف ورزیوں پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد میں سے سات ہزار دو سو افراد ایسے ہیں جنہیں غیر قانونی رہائش رکھنے اور ملک کے رہائشی نظام کی خلاف ورزیوں پر پکڑا گیا۔سےکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار افراد میں سے تےن ہزارافراد ایسے ہیں جنہوں نے سرحدی سےکیورٹی قوانین کی خلاف ورزیاں کیں۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ رہائش کے لےے قانونی دستاوےز کے بغےر کسی کو ےہاں رکنے کی اجازت نہ دی جائے۔
