حکومت نے صارفین پر اےک بار پھر بجلی گراتے ہوئے بجلی کے ریٹ میں مزید اضافہ کردیا۔وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد نیشنل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی نے فیول ایڈجسٹمنٹ سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دی۔یہ اضافہ مالی سال2022‘23کی چوتھی سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں صارفین پر 159ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ملک میں گزشتہ ماہ ستمبرکے دوران سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 31.4 فیصد رہی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ شرح 23.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2023-24کی پہلی سہہ ماہی کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 29فیصد رہی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 25.1فیصد تھی۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ پیاز 39.32 اور دال مسور 19.80 فیصد مہنگی ہوئی، سبزیاں 11.77 فیصد، چینی 10.28، دال ماش 9.46 فیصد مہنگی، ستمبر میں ٹرانسپورٹ 4.29 فیصد اور موٹر فیول 11.30 فیصد مہنگا ہوا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ مہینے کے دوران مصالحے، گڑ، دال مونگ، پھل، دال چنا، دودھ بھی مہنگا ہوا جبکہ ستمبر میں ٹماٹر، چکن، کوکنگ آئل اور آلو سستے ہوئے، گندم، آٹا، گھی، چائے اور درسی کتب بھی سستی ہوئی ہیں۔مہنگی بجلی کی ایک بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس سے کیے گئے معاہدوں کے تحت وہ بھاری بھرکم ادائیگیاں بھی ہیں جوکہ کیپیسٹی چارجز کے نام پر کی جاتی ہیں۔ جب بجلی کا استعمال کم ہورہا ہو تو بجلی کمپنیاں اپنے پلانٹ بند کردیتی ہیں، جس کے نتیجے میں صارفین پر کیپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھتا ہے۔ یا آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر ایک آئی پی پی کے پاس 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ ٹرانسمیشن استعداد نہ ہونے یا کم ضرورت کی وجہ سے صرف 60 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، تب بھی معاہدے کے تحت حکومت اسے پورے 100 میگاواٹ کی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین اس بجلی کی قیمت بھی ادا کرنے کے پابند ہیں جو نہ تو پیدا ہوئی اور نہ ہی خرچ ہوئی۔ اب چونکہ شرحِ مبادلہ اور شرح سود میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اس لیے پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت صارفین بھی کیپیسیٹی چارجز کی مد میں زیادہ سے زیادہ ادائیگی کے پابند ہیں، باوجود اس کے کہ انہیں اِن ادائیگیوں کے بدلے کوئی بجلی نہیں ملی۔2018 میں پاکستان نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 500 ملین روپے ادا کیے اور اس کے بعد سے یہ رقم شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیاں مندرجہ ذیل فارمولہ کے تحت صارفین سے کپییسٹی چاجز وصول کرتی ہیں بجلی کی پیداواری کمپنیاں پیدا شدہ بجلی کی قیمت ایک دفعہ وصول کرنے کے بعد اپنی پیدا شدہ بجلی کے فی گھنٹہ یونٹس کو اپنی کل پیداواری صلاحیت سے تقسیم کرکے اسے 100 سے ضرب دے کر اس بجلی کی قیمت بھی وصول کرتی ہیں جو اس نے اپنے پلانٹ سے پیدا ہی نہیں کی۔ حال ہی میں نیپرا نے پیداواری کمپنیوں کے لیے کیپیسٹی چارجز کی مد میں طے شدہ قیمت میں مزید اضافہ کرکے تقریبا 30 روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ کردیا ہے۔ معاہدے کے تحت یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہونے کی وجہ سے صارفین سے ڈالر کی موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق وصولی کی جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین ان پاور پلانٹس کو ایک اعشاریہ تےن ٹریلین روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کریں گے جو بند پڑے ہیں، جبکہ اگلے سال یہ رقم بڑھ کر دو ٹریلین روپے ہوجائے گی۔ بعض آئی پی پیز کو خلافِ ضابطہ مالی فوائد پہنچانے کے لیے طے شدہ معاہدوں میں ترامیم کرکے زائد ادائیگیاں بھی کی گئی ہیں۔وطن عزیز کے 23 کروڑ لوگ اور خا ص کر پڑھے لکھے جوان بچے اور بچیاں بے روز گاری ، مہنگائی، غربت ، بھوک افلاس اور لاقانونیت کی وجہ سے چکی میں پس رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں مختلف قسم کے بحرانوں کے ذمہ دار کون ہیں؟۔ 77 سالہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو ان تمام بحرانوں کے ذمہ دار ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹس ہیں۔ سب نے ملکر پاکستان کو تلافی نقصان پہنچایا۔سابقہ دور اقتدار میں کوئی خاص منصوبہ یا میگا پروجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا۔ پونے چار سال کے عرصہ میں پاکستان کا قرض30 ہزار ارب روپے سے 54 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔پونے چار سال دور میں ہر سال پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ ٹیکس بھی جمع ہوتا رہا ۔ کرونا کی مد میں بیرونی دنیا نے وطن عزیز کو ساڑھے تین ارب ڈالر دئے مگر سمجھ نہیں آتی کہ یہ تمام پیسے کدھر اور کہاں خرچ ہوئے؟۔ شہباز شریف کی قیادت میں تےرہ سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے تو انہوں نے بھی نومہینے میںکوئی خاص کام نہیں کیا ۔نتیجتا بجلی ، گیس لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی ، بے روز گاری اور لاقانونیت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔عوام یہ سوچتے تھے کہ پی ڈی ایم جو ماضی قریب میں دعوے کرتے تھے انکا کیا بنا؟ ہمیں اپنی زراعت اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے انقلاب آفرین اقدامات کرنے پڑیں گے۔ زرعی زمینوں پر تیزی سے بننے اور پھیلنے والی رہائشی سکیموں کی پیش قدمی روکنی پڑے گی۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن لانا پڑے گا اگر ایسا نہ کیا تو شکائتیں اور مسائل رکنے کا نام نہیں لیں گی۔ایک اور مسئلہ چوری شدہ بجلی کی قیمت کا ہے جو لائن لاسز کے نام پر باقاعدگی اور ایمانداری سے بل ادا کرنے والے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بے ایمان لوگوں کی بے ایمانی کا بوجھ ایماندار بجلی صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ملک میں تقریباِ 467 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور مالی سال 2023 میں اس چوری شدہ بجلی کے بدلے سبسڈی کے نام پر تقریبا 976 ارب روپے ادا کیے گئے۔ نادہندگان میں بڑے بڑے سرکاری ادارے، کارپوریشنز، نجی کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں، لیکن ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ان نادہندگان کی فہرست فراہم کرنے سے گریزاں ہیں اور یہ سارے اخراجات باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین سے لائن لاسز کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف دو لاکھ واپڈا ملازمین کو فری یونٹس دیے جارہے ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جو اگلے برس بڑھ کر ساڑھے 11 ارب روپے ہوسکتا ہے، جبکہ اربوں روپے کا یہ نقصان باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین کے بلوں میں ڈال کر پورا کیا جاتا ہے۔ لائن لاسز کی تعریف میں وہ صارفین آتے ہیں جو بجلی کے بل کی پوری ادائیگی نہیں کرتے یا بل تاخیر سے ادا کرتے ہیں یا اقساط میں بل ادا کرتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کوائلز یا دیگر طریقوں سے بجلی چوری کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ ان صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے جو باقاعدگی اور ایمانداری سے ماہانہ بنیادوں پر بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح پاور سیکٹر کا خسارہ بڑھتا ہے جسے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضہ کا نام دیا جاتا ہے۔ بجلی کی مہنگائی کو ہی دیکھ لیںبجلی کی مارکٹنگ کمپنیاں یعنی ڈسکوز ہوںواپڈا ہو یا آئی پی پیزآئین قانون ادارہ جاتی قواعد و ضوابط نے اس معاملے کواتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی آئین قوانین اور ضوابط کسی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں یوں بجلی کے صارفین دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں جو ذرا خوشحال ہیں وہ قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں لیکن آخر کار بجلی کے بل میں کمی نہیں کروا سکتے اور انہیں پوری رقم جمع کرانا پڑتی ہے ۔ لائن لاسز اور چوری روکنا بجلی کے صارفین کی ذمے داری نہیں ہے حکومتی عہدے دار نیپرا اورڈسکوز کی افسر شاہی یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنے ارب کے لائن لاسز ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ ان پر قابو پانا کس کی ذمے داری ہے؟آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں کیے گئے تین ارب ڈالرزکے معاہدے میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنے اور گردشی قرضے کو روکنے کی شرط رکھی تھی۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 81 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے ۔سوال ےہ ہے کہ عوام کا قصور کےا ہے کےوں حکومتی اور فاضل اخراجات کم نہےں کےے جاتے کےا عوام محض قربانےاں دےنے کے لےے ہے کےوں حکام اپنی تنخواہوں سے اپنے اخراجات ادا نہےں کرتے عوام کب تک ان کے اللے تللے پورے کرے گی۔
