دنیا کے بلند ترین اور ٹھنڈے صحرا سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ ریلی کا پانچواں ایڈیشن چھے سے آٹھ اکتوبر2023 تک سکردو گلگت بلتستان میں منعقد ہوگا۔سرفرنگا کولڈ ڈیزرٹ جیپ ریلی میں اسپورٹس جیبیں اور بائیکر 80 کلو میٹر ٹریک پر اپنے فن کے جوہر دکھائیں گے۔سرفہ رنگا میں جیپ ریلی کے علاوہ مقامی کھیلوں اور کلچر کو پرموٹ کیا جائے گا۔مقامی فری اسٹائل پولو، زخ ریلی، کلچرل شو کے اہتمام کے ساتھ ساتھ مقامی کھانا اور ملبوسات کے اسٹالز بھی لگائے جائیں گے، اسلام آباد میں سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ ریلی 2023 گلگت بلتستان کے حوالے سے پریس کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے سیاحت غلام محمد نے کہا کہ سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ ریلی جلد ہی عالمی سطح پر منفرد کار ریس ایونٹ کا درجہ حاصل کریگا اور دنیا بھر کے ایڈونچر کے شوقین کھلاڑیوں اور شائقین کی توجہ حاصل کریگا اور ملکی و عالمی سطح پر گلگت بلتستان سمیت پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوگا۔سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ ریلی کا مقصد ملک بھر سمیت گلگت بلتستان میں سیاحت کو پرموٹ کرنا اور دنیا کو مثبت چہرہ دکھانا ہے۔اس سال سرفہ رنگا ڈیزرٹ جیپ ریلی کی کل لمبائی 80 کلومیٹر رکھی گئی ہے جبکہ ریلی کا تھیم گو گرین ہو گاماحولیات بہتردوست بنانے کیلئے پلاسٹک بوتلوں کی نفی کریں گے۔ہماری کوشش ہوگی کہ کم سے کم پلاسٹک اس ایونٹ میں استعمال ہو۔سیکےورٹی کے حوالے سے مقامی اسکاﺅٹس کے ذریعے بہترین سہولیات فراہم کررہے ہیں تاکہ بہترین طریقے سے ایونٹ کو کامیاب بنا سکیں۔فےسٹےولز کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا جب کسی شہر میں کوئی میلہ ہوتا ہے تو دور دور سے لوگ اس میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ ایک طرف ان شرکت کرنے والوں کو تفرےح مےسر آتی اور دوسری طرف مقامی معیشت میں اچھے بھلے پیسوں کا کاروبار ہو جاتا تھا جس سے متمول افراد کی جیب سے رقم نکل کر محنت کشوں کو منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ہمارے ہمسائے دبئی کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کبھی ادھر دبئی شاپنگ فیسٹیول چل رہا ہوتا ہے کبھی کوئی دوسرا میلہ۔ وہ ایسی سرگرمیوں کو ترویج دیتے ہیں تاکہ مقامی افراد کے علاوہ دنیا بھر کے سیاح وہاں پہنچیں اور اپنا پیسہ مقامی معیشت میں منتقل کر دیں۔ برازیل میں ریو ڈی جنیرو کا کارنیوال دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس کے منعقد ہونے پر دنیا بھر سے سیاح ریو کا رخ کرتے ہیں۔یعنی مقامی معیشت کے لئے وہ پیسہ اہم ہے جو کہ ان تہواروں اور میلوں کے ذریعے گردش میں لایا جاتا ہے۔ان میلوں کے انعقاد کے سلسلے میں حکومت، مقامی شہریوں اور مقامی اداروں کا اشتراک بھی چاہیے ہوتا ہے۔ جب یہ تسلسل سے یہ سرگرمی ہونے لگے تو رفتہ رفتہ حکومت اور شہریوں کے درمیان ایک ہم آہنگی اور رفاقت کا احساس پیدا ہونے لگتے ہیں۔ حکومت، تاجر اور شہری مل کر مختلف منصوبوں پر کام کرنے کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔ یہ معاشرے کے مختلف طبقات کو جوڑنے والا ایک ایسا عنصر ہے جو کہ ترقی اور خوشحالی کے لئے اہم ہوتا ہے۔ان میلوں اور تہواروں کا سب سے اہم اثر معاشی نہیں بلکہ معاشرتی ہوتا ہے۔لوگ رقم خرچتے ہیں اور خوشیاں حاصل کرتے ہیں۔ ایک طویل مدت پہلے سے مقامی شہری اور اےسے میلوں میں دلچسپی رکھنے والے اس کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ جب یہ منعقد ہوتے ہےں تو جوش خروش سے اس میں شرکت کرتے ہیں۔مقامی میلے اور تہوار یا مختلف تفریحی سرگرمیاں شہریوں میں ایک کمیونٹی ہونے کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ بسنت لاہور کی شناخت تھا۔ اس کا اثر ادھر بھارت تک میں محسوس کیا جانے لگا تھا۔ امرتسری حسرت سے لاہور کا پتنگوں سے رنگین آسمان دیکھا کرتے تھے اور رشک کرتے تھے۔مقامی شہروں میں ہونے والے کرکٹ مقابلوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جب نوجوان انہیں دیکھنے جاتے ہیں تو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی طرح کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کرکٹ اور زیادہ ترقی کرتی ہے۔کرکٹ میچوں کے دوران تمام پاکستانی اپنے باہمی جھگڑے بھلا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ کرکٹ میچوں کے دوران سب پاکستانی اپنے لسانی اور علاقائی اختلافات بھلا کر پاکستان کی ٹیم کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔ مختلف قومی گروہوں میں جیسے کرکٹ کی وجہ سے اتفاق پیدا ہوتا ہے وہ کسی دوسرے موقعے پر آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔چےن میں ڈوان وو فیسٹیول کو ڈریگن بوٹ فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ چین کے چار اہم روایتی تہواروں میں سے ایک ہے ۔اس کی اہمیت اور حیثیت جشن بہار ، وسط خزاں کے تہوار اور چھنگ منگ جیسی ہے۔ آج سے دو ہزار سال قبل ایک محب وطن شاعر چھو یوآن کی یاد میں ڈوان وو فیسٹیول کا آغاز کیا گیا تھا۔ تہوار کے دوران چینی لوگ لیس دارچاولوں سے بنایا گیا مخصوص پکوان زون زی کھاتے ہیں، ڈریگن بوٹس کے مقابلوں سے لطف اٹھاتے ہیں، چھو یوآن کے حب الوطنی کے جذبے کی یاد مناتے ہیں اور روایتی چینی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کرتے ہیں۔لوگ دنےا بھر سے اس مےلے میں شرکت کے لےے آتے ہےں۔کالام میلہ سوات سمر فیسٹیول بھی ایک ثقافتی اور تفریحی تقریب ہے جو ہر سال جولائی یا اگست کے مہینے میں پاکستان کے شہر سوات سے 100 کلومیٹر دور کالام اور مہوڈنڈ کی خوبصورت وادی میں منعقد کی جاتی ہے۔ میلے کا اہتمام شندور پولو فیسٹیول کی طرز پر کیا جاتا ہے۔ ان دنوں، جب پاکستان کے میدانی علاقے گرم اور مرطوب ہوتے ہیں، سیاح کالام اور ٹینٹ ویلج میں سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مہوڈنڈ میں موسم بہت خوش گوار ہوتا ہے۔اس پورے ہفتے کے دوران کھیلوں، ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل گوادر میں آٹھویں گوادر بک فیسٹیول کے دوران گوادر یونیورسٹی نے گوادر،پاکستان اور جیو اکنامکس کے موضوع پر ایک سیشن کا انعقاد کیا۔ لاہورآرٹس کونسل الحمرا کے تعاون سے تین روزہ لاہورلٹریری فیسٹیول منعقد کےا جاتا ہے ۔لاہور لٹریری فیسٹیول میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے سکالرز اور دانشور شرکت کر تے ہیں۔اس فیسٹیول میں پوری دنیا سے آئے ہوئے مہمان پاکستان سے نہایت اچھا تاثر لے کر جاتے ہےں ،ملکی و غیر ملکی سطح پر ایسے پروگرام کسی بھی ملک کے بیانیے کوبہتر بنانے میں مثبت کردار اد اکرتے ہیں۔جدہ میں کنگڈم میلوڈی فیسٹیول کے عنوان سے سعودی عرب میں موسیقی کے ورثے کے ساتھ موسیقی کی تاریخی اہمیت کے شاندار پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔موسیقی کا یہ لوک میلہ علاقائی دھنوں کی تاریخ اور مقامی افراد سے ان کے ثقافتی روابط کو فروغ دےتا ہے ۔سپر ڈوم کے داخلی راستوں پر نامور موسیقاروں اور فنکاروں کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں ۔گلگت بلتستان میں صدیوں پرانی رسم نسالو ماہ دسمبر میں منائی جاتی ہے۔یہ رسم جہاں روایتی تقاریب کی بحالی کا سبب بنتی ہے وہیں علاقائی ہم آہنگی کا وسیلہ بھی ہے۔ اس رسم میں بڑے جانوروں کو ذبح کرکے اس کا گوشت سکھایا جاتا ہے تاکہ مارچ اپریل کے مہینوں میں خوراک کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔نسالو کے لیے ذبح کیے جانے والے جانور کو صفائی کے بعد گھر کے مخصوص مقام، جسے ڈنگو کہتے ہیں، میں لٹکایا جاتا ہے اور یہ گوشت کئی مہینوں تک محفوظ ہو جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے تمام بالائی علاقوں میں اس طرح کی رسومات صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ دسمبر کا مہینہ ان رسومات میں بڑی اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔ ہر وادی نے شروع سے اپنے درجہ حرارت اور موسمی صورت حال کے تحت مخصوص ایام کا انتخاب کیا ہوتا ہے اور ان ایام سے ایک دن بھی آگے پیچھے ناغہ ہوجائے تو جانور کا گوشت محفوظ نہیں ہوتا ہے۔دسمبر تک گائے یا دوسرے جانوروں کو بھی خوراک ملتی ہے تو ان کی بھی صحت اچھی ہوتی ہے اس لیے ان کو ذبح کرکے سخت حالات کے لیے گوشت تیار کیا جاتا ہے۔میلے ٹھیلے زمانہ قدیم سے مختلف علاقوں کی پہچان رہے ہیں،لوگ اِن میلوں کی تیاری بھی خوب بڑھ چڑھ کر کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ میلے افسانوی کہانیوں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ہماری آج کی نسل اِن میلوں کو فرضی کہانی سمجھتی ہے۔ اب میلے منعقد کروانے کی روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے اور جو میلے منعقد کروائے جارہے ہیں وہ اپنا مقام اور روح کھوتے جارہے ہیں۔ بیساکھی کا میلہ لاہور کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے، یہ میلہ بھی ماضی کی یادوں کا حصہ بن چکا ہے ‘بہت سے میلے اب صرف رسمی طور پر منعقد ہوتے ہےں اور اپنی اصل شناخت کھوچکے ہےں۔اس تناظر میں گلگت بلتستان انتہائی اہمےت کا حامل ہے جس کی تارےخ و ثقافت پر درجنوں مےلوں کا انعقاد ےہاں معاشی و معاشرتی سرگرمےوں کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔اگر ےہاںفرنچ فیسٹول، چائنہ آئس فیسٹول، تھائی لینڈ واٹر فیسٹول اور میکسیکو بیلون فیسٹول کی طرح فےسٹےول منعقد کےے جائےں تو ےہ علاقہ عالمی سےاحوں کی تواتر سے آمد کا موجب بن سکتا ہے۔
