سماجی تنظیم سیڈو کی جانب سے گلگت بلتستان کے پالیسی سازوں کے ساتھ ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ پر پالیسی مرتب کرنے کے حوالے سے نشست میں موجود اداروں کے سربراہان کو تفصیلی بریفنگ میںبتایا گےا کہ آج کل بازاروں میں تمباکو کی نئی منصوعات جن کو ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ بھی کہا جاتا ہے، کی کھلے عام تشہیر اور فروخت بھی کی جا رہی ہےں۔اس موقع پر عزیز کریم کا کہنا تھا کہ تمباکو ایکٹ 2020 کے بننے کے بعد اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا اب جبکہ ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ بھی مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں ایسے میں اس پر قابو پانے کے لئے تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ جس کے بعد اس قسم کی مصنوعات پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے جس سے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کے مطابق تمباکو ایکٹ 2020 میں جلد ضروری ترامیم کر کے تمباکو کی مصنوعات جس کے استعمال سے معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے اس پر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ تمباکو ایکٹ پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے جس پر جتنی جلدی ممکن ہو سکے عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ نوجوان نسل تمباکو کی نئی مصنوعات کی طرف بڑی تیزی سے راغب ہو رہی ہے اگر اس حوالے سے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آنے والے وقت میں نوجوان نسل منشیات کی عادی ہو جائے گی۔تمباکو نوشی سے منسلک نقصانات سے کون واقف نہیں۔ لیکن پھر بھی دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب سے زائد افراد تمباکونوشی کرتے ہیں۔ ابھی تک گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ٹوبیکو کنٹرول سے متعلق حکمت عملی اس حوالے سے نہ صرف غیر موثر ثابت ہوئی ہے بلکہ اس موضوع پر اپنائے جانے والا بیانیہ بھی اکثر سائنسی منطق سے نکل کر جذباتیت کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں تمباکونوشی سے منسلک نقصانات اور اس حوالے سے دہائیوں سے تشکیل پائے جانے والے بیانیے کی وجہ سے بعض غلط تصورات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان نقصانات کو کم کرنے یا ان پر غوروخوض پر سائنسدان دہائیوں سے عرق ریزی کر رہے ہیں اور انہی کاوشوں کے نتیجے میں ٹوبیکو ہارم ریڈکشن اور رسک کانٹینیوم جیسے منطقی اور سائنسی تصوارات نے جنم لیا۔ لیکن غیر سائنسی بیانیوں اور عموما بغیر تحقیق معلومات کی دوسروں تک ترسیل کی وجہ سے ان تصوارات کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے اسے سائنسی زاویہ نگاہ سے پرکھنا ضروری ہے اور تمباکو نوشی سے منسلک نقصانات کو پرکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کے ایک ارب سے زائد صارفین کے اس رویے کے پیچھے ایک بنیادی وجہ نکوٹین کا حصول ہے لیکن نکوٹین بذات خود اس نقصان کا موجب نہیں جو عموما تمبوکونوش افراد کیلئے فکر باعث بنتا ہے۔ اصل نقصان کی وجہ جلنے کا عمل ہے جو نو سو ڈگری سینٹی گریڈ پر کسی بھی مادے کی کیمیائی ہیئت میں تبدیلی کا باعث بنتااور جلنے والی تمباکو مصنوعات میں یہ عمل سات ہزار کیمیکلز کے خارج ہونے کا باعث بنتا ہے۔ جو کہ نقصان کی اصل بڑی وجہ ہیں۔ ٹوبیکو ہارم ریڈکشن اور رسک کانٹینیوم جیسے سائنسی تصورات اپنا حل ان سائنسی حقائق کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔ رسک کانٹیینیم کا مطلب ہے کہ تمباکو کی تمام مصنوعات اسی قسم کے خطرات کی حامل نہیں ہوتیں۔ ٹوبیکو کی مختلف مصنوعات سے خطرے کا فرق کا تصور تمباکو کی مصنوعات سے وابستہ خطرے کی وضاحت کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اورمتبادل کم خطرے والی مصنوعات کا استعمال کیسے افراد کو ایک ممکنہ طور پر کم نقصان دہ انتخاب کی طرف لے جانے میں مدد کر سکتا ہے۔تمباکو اور نکوٹین کی مصنوعات نکوٹین کی ڈیلیوری کے طریقہ کار اور مصنوعات کے اجزا کی بنیاد پر جانچی جاتی ہیں۔ایک طرف زیادہ نقصان دہ مصنوعات میں سگریٹ، حقہ، بیٹری، پائپس اور سگاراوردیگر مصنوعات شامل ہیں جو صارفین کیلئے سنگین مسائل کا باعث بنتی ہیں۔دوسری طرف کم نقصان دہ یا کم خطرات کی حامل مصنوعات میں اوورل ٹوبیکو پراڈکٹس، ہیٹڈ ٹوبیکو پراڈکٹس، ویپس ہیں۔یہ مصنوعات نیکوٹین فراہم کرنے کیلئے تیار کی گئی ہیں لیکن یہ کم نقصان کی حامل ہیں۔ ٹوبیکو ہارم ریڈکشن ایک ایسی سوچ ہے جس کا مقصد سگریٹ نوشوں کو بہت زیادہ نقصان دہ پراڈکٹس سے کم خطرے والی متبادل کی طرف منتقلی کی حوصلہ افزائی کرکے تمباکو کے استعمال سے وابستہ نقصانات کو کم کرنا ہے۔اس تناظر میں کم نقصان والی پراڈکٹس سے مراد ایسی پراڈکٹس ہیں جو نیکوٹین کی طلب کوپوراکرنے کیلئے تیار کی گئی ہیں۔متعدد تحقیقی مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ممکنہ طور پر کم نقصان دہ پراڈکٹس سگریٹس کی نسبت نقصان کو کافی حد تک کم کرسکتی ہیں۔ ہیٹڈ تمباکو مصنوعات استعمال کرنے والے لوگوں سگریٹ کے مقابلے میں پچاس سے نوے فیصد کے لگ بھگ کم نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سگریٹ کے مقابلے میں ہیٹڈ ٹوبیکو پراڈکٹس یوزرز اور ساتھ کھڑے افراد کے کم متاثر ہونے کی توقع ہے۔دھویں سے پاک پراڈکٹس جیسا کہ نکوٹین پاچز اور سنس بھی جلنے والی تمباکو مصنوعات کے مقابلے میں کم خطرے والی ثابت ہوئی ہیں جبکہ بعض تحقیقی مطالعات نے تجویز کیا ہے کہ اس طرح کی پراڈکٹس اضافی خطرہ کی حامل نہیں ہوتیں۔کم نقصان دہ متبادل پراڈکٹس کو خطرے کے لحاظ سے بھی کم سطح پر رکھا جاتا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ پراڈکٹس جلنے والی ٹوبیکو پراڈکٹس کی نسبت کم نقصان دہ ہوتی ہیں۔ٹوبیکو مصنوعات سے نقصانات کا فرق تمباکو کی مختلف مصنوعات سے وابستہ متعلقہ نقصان کو سمجھنے کیلئے فریم ورک فراہم کرتی ہے۔سگریٹ نوشوں کو کم خطرے والی متبادل جیسا کہ جدید اورل پراڈکٹس اور ویپس کی طرف منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی کرکے وہ مسلسل خطرے سے بچتے ہوئے محفوظ چوائس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔مجموعی طور پر پاکستان میں ہر سال تین لاکھ سینتیس ہزار سے زائد افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر تمباکو نوشی کی وجہ سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کی حالت کسی بھی طرح تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی ۔ مسلسل بحرانی اقتصادی اور مالیاتی حالات کے باعث صحت کے شعبے کو ملکی بجٹ میں اتنے وسائل نہیں ملتے جتنے ملنے چاہئیں۔ان حالات میں عام شہریوں میں تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے طبی مسائل صحت کے شعبے پر اضافی مالی بوجھ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس اضافی مالی بوجھ کی مالیت یقینی طور پر تین سو ارب روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔کم عمری میں تمباکو نوشی شروع کرنے کے اسباب کے حوالے سے نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ان وجوہات میں دوستوں کا دباﺅ، پریشان کن خاندانی اور معاشرتی حالات اور سماجی محرومی نمایاں ہیں۔ پھر جو عمل راہ فرار کے طور پر یا تفریح کے لیے شروع کیا جاتا ہے، وہ عمر بھر کی ایسی عادت بن جاتا ہے جس سے نجات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ایک اور فیصلہ کن پہلو یہ بھی ہے کہ جب سگریٹ اور تمباکو کی دیگر مصنوعات ہر کسی کو ہر جگہ دستیاب ہوں، ان کی خریداری میں خریدار کا نابالغ ہونا عملی طور پر کوئی رکاوٹ ثابت نہ ہو، اس بارے میں قوانین و ضوابط اگر ہوں بھی مگر ان کا نفاذ یقینی نہ بنایا جائے، تو پھر نہ تو ملکی نوجوانوں کو اس لت سے بچایا جا سکے گا اور نہ ہی تمباکو نوشی کی سماجی طور پر حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔نوجوان دوستوں کے دیکھا دیکھی ویپنگ اور ٹوبیکو پاﺅچ کا استعمال شروع کرتے ہےں‘ شروع میں انہےں لگتا ہے کہ سب کچھ بے ضرر ہے، کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن رفتہ رفتہ نقصان ہوتا چا جاتا ہے۔ اب ےہ سوال ےہ ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے جو راستے استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ خود کتنے خطرناک ہیں۔حکومت نے گزشتہ برسوں میں کچھ اچھے اقدامات کیے مثلا اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ بیچنے پر پابندی لگا دی۔ انہیں کھلے سگریٹ نہیں بیچے جا سکتے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ سگریٹ کا کوئی بھی پیکٹ بیس سے زیادہ سگریٹوں والا نہیں ہو گا، ہر پیکٹ پر کافی بڑی تنبیہی تصویریں بھی شائع ہوتی ہیں لےکن یہ بات اب بھی یقین سے نہےںکہا جا سکتاکہ ان اقدامات سے نوجوانوں اور نابالغوں میں سگریٹ نوشی کی عملی حوصلہ شکنی ہوئی؟ اس لےے پاکستان میں تمباکو مصنوعات کی خریداری کے لیے کم سے کم عمر کی حد بڑھا کر اکیس سال کر دی جائے۔اب سگریٹ نوشی میں نت نئے ٹرینڈز متعارف ہو چکے ہیں۔ ویپنگ، ای سگریٹ اور ٹوبیکو پاﺅچ، سبھی کچھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکثر شہروں کے مہنگے کاروباری اور رہائشی علاقوں میں ویپنگ شاپس نظر آتی ہیں جبکہ نکوٹین اور دیگر مضر صحت اجزا والے ٹوبیکو پاﺅچ بھی عام دکانوں پر ٹوفیوں گولیوں کی طرح فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ تمباکو مصنوعات خاص طور سے مہنگے رہائشی علاقوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے آس پاس چھوٹی چھوٹی دکانوں سے بھی مل جاتی ہیں۔اس لےے ضروری ہے کہ تمباکو نوشی کے حوالے سے اقدامات میں وقت کے مطابق تبدےلےاں لائی جائےں تاکہ نوجوان نسل اس جانب راغب نہ ہو ہم جانتے ہےں کہ نوجوان نسل کے پاس تفرےح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہےں‘کھےلوں کے مےدان وےران ہو چکے اور موبائل نے نوجوانوں کو ہمہ وقت مصروف کر دےا ہے۔
