دنےا بھر کے مسلمان آج رحمت عالمﷺ کی دنےا میں آمد کا جشن منا رہے ہےں ‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک میں حضرت عیسیؑ کا حلم حضرت موسیؑ کا جوش اور حضرت ایوبؑ کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی مگر پھر بھی دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمانؑ کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے نبیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں۔اسلام ایک ابدی مذہب اور سرمدی اصول ہے۔ امن و سلامتی کا ذریعہ اور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ قبل از اسلام دنیا کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں توحید کی جگہ شرک خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم واستبداد نے لے لی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی تکریم نہیں تھی۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تووہ جنگ کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور اوہام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ انسانیت سسک رہی تھی، بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے ان جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی، سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کر سکے جو ایسی تحریک چلائے جس سے اوہام پرستی کا خاتمہ ہو جائے جہالت وگمراہی کے اندھیروں، ظلم و جبر کی زنجیر کو توڑ کر غریبوں، بیواﺅں یتیموں اورکمزوروں کے استحصال کو روکے بالآخر رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آئی۔ ظلم وبربریت کی تاریکی میں ہدایت کا ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔رسول خدا کی ولادت کے ساتھ ہی ایسے معجزات رونما ہوئے جو اس امر کا پیش خیمہ تھے کہ وہ عہد آچکا ہے کہ جس میں فرسودہ نظام اور توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ سند الا صفیا، اشرف الانبیا احمد مجتبیﷺ عالم وجود میں رونق افروز ہوچکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کی سر زمین پر ایک نئی تہذیب اور الہی نظم و نسق کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے تھے لہذا ولادت کے پہلے ہی دن نظام جاہلیت کے کلیساﺅں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فارس کے آتش کدہ میں جو آگ ہزاروں سال سے جل رہی تھی وہ بجھ گئی۔ ان واقعات کے رونما ہونے سے بڑے بڑے سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر کائنات کا نظام اچانک تبدیل کیسے ہوگیا اور دنیا میں کونسا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جسکے اثرات انکے مذہبی عقائد پر مرتب ہو رہے ہیں۔ الغرض چالیس سال تک اس پر آشوب اور بد ترین عہد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت اور دیانت داری کا لوہا منوایا اور جب فاران کی چوٹیوں سے اعلان رسالت کیا تو عرب ہی نہیں بلکہ تمام عالم میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ وہ تہذیب اور قانون الہی کی بالادستی جو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلا م کے بعد دم تو ڑ چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے اس کو نئی زندگی مل گئی۔والد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب کو ملی تو وہ خوشی سے حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش و محبت سے اپنے پوتے کو سینے سے لگایا اور کعبہ میں لے جا کر خیر برکت کی دعائیں مانگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمدﷺ رکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چھے سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آپ کے ننھےال لے گئیں۔ واپسی میں بمقامِ ابوا ان کا انتقال ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش ام ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب نے لیا۔نوسال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25 سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دوماہ بعد حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ 35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا۔ حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے الجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا۔ جس سے ایک ایسی خون ریز جنگ ٹل گئی جس کے نتیجے میں نہ جانے کتنا خون خرابہ ہوتا۔آقا کریم کے والد آپ کی ولادت باسعادت سے قبل انتقال فرما گئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔ایک دن آپ غار حرا کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ جبرائیل امین اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر تاج نبوت سجانے آگئے۔ آیات مبارکہ کے شان نزول کے بعد اللہ رب العزت نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت و تبلیغ حق کے منصب پر مامور فرمایا۔آپ کا شباب مجسم حیا اور عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حیات مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی صداقت ودیانت کم گوئی، ایفائے عہد، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی، چھوٹوں سے محبت، بڑوں سے شفقت، صلہ رحمی، غمخواری، غریب پروری، عفو و درگزر، مخلوق خدا کی خیرخواہی الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاص حسنہ و محاسنہ افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک تھی۔ بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردارہے جو نبی کے علاوہ کسی کا ممکن ہی نہیں۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کے لیے مینارِ ہدایت ہے، چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا امت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاﺅ اور دلچسپی تھی معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں مو جود تھیں۔جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی قریشِ مکہ کے دوش بدو ش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے جب عمارت میں حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں سخت جھگڑا ہوگیا اس کشمکش میں چار دن گزر گئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ آپ نے اس طرح اس جھگڑے کا تصفیہ فرمایا کہ آپ نے ایک چادر بچھا کراس پر حجر اسود رکھا اور تمام سرداروں کو حکم دیا کہ سب اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر اٹھائیں سب سردارو ں نے مل کرچادر کو اٹھایا اورجب حجر اسود اپنے مقام پر پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔کسب حلال کی اہمیت کے پیش نظر بچپن میں قریش کی بکریاں چرائیں جو تمام انبیا کی سنت بھی ہے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الامین امانت دار سچے تاجرکی صورت میں سامنے آئے۔صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ا وصاف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدی بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اسوہ حسنہ پیش کرنا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو امت کے لیے ایک بہترین اسوہ حسنہ ہے‘ امت کے ہر فرد کے لئے بالخصوص عامةالناس کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و ذات مبارکہ ایک اعلی مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی حاصل کرسکتاہے۔
