گلگت بلتستان میں بجلی چورو ںکےخلاف کرےک ڈاﺅن


محکمہ برقیات نے گلگت بلتستان میں بجلی کے نادہندہ گان سے باون لاکھ آٹھ ہزار دوسو چوبیس روپے ریکور کئے ہیں جبکہ 651ڈیفالٹرز کی لائنیں اور 112 غیر قانونی بجلی کنکشنز ختم کردیے گئے ہیں۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے بجلی کے بلوں ،ڈیفالٹرز اور غیر قانونی بجلی کنکشنز کے خلاف کارروائی اور ریکوری کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے ہیں اس سلسلے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کی زیر نگرانی خصوصی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ٹاسک فورس کی زیر نگرانی ڈسٹرکٹ سطح پر ڈی سی،اے سی اور تحصیل لیول پہ بھی کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں سیکرٹری برقیات گلگت بلتستان سجاد حیدر نے محکمہ کے اعلی عہدیداروں کو باقاعدہ ریکوری کے لیے عملی اقدامات شروع کرنے کے لیے احکامات جاری کیے ہیں ۔چیف سیکرٹری کے احکامات کی روشنی میں تمام قائم کی گئی کمیٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ بجلی کی سپلائی کو عوام الناس کے لیے بہتر بنایا جاسکے۔تمام سپیشل ٹاسک فورس کمیٹیاں اپنی اپنی ریکوری،ڈیفالٹرز اور غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کیے گئے اقدامات کو رپورٹ کی شکل میں مرتب کرکے ماہانہ سطح پر پروونشل ٹاسک فورس کمیٹی کو ارسال کرنے کی پابند ہیں ان تمام رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد مزید اقدامات کے لئے اعلی سطحی کمیٹی فیصلے جاری کرینگے۔بجلی چوروں کے خلاف کرےک ڈاﺅن کا آغاز خوش آئند ہے‘چند روز قبل نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے خلاف ملک گیر کریک ڈاﺅن شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوگی اور بل ادا نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک بجلی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی۔انہوں نے بتایا تھا کہ ہم ایک الیکٹرسٹی تھیفٹ کنٹرول ایکٹ پر کام کر رہے ہیں، ساتھ ساتھ خصوصی عدالتیں بھی ہوں گی جہاں اس حوالے سے سزائیں دی جائیں گی۔ ڈومیسٹک صارفین میں سے کچھ ایسے ہیں جو بجلی کی چوری کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو بجلی کے بل ادا نہیں کرتے۔ پورے پاکستان میں دس ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں جبکہ کے الیکٹرک کا اپنا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ہے، ہر علاقے میں الگ الگ سطح کی چوری ہوتی ہے اور ریکوری کی الگ الگ شرح ہے۔بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے سبب سالانہ 589 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، اس وجہ سے ان لوگوں کو زیادہ ریٹ پر بجلی خریدنی پڑتی ہے جو بل ادا کرتے ہیں، جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوگی اور بل ادا نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک بجلی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی۔حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جو لوگ بجلی چوری کرتے ہیں ان کے خلاف کریک ڈاﺅن کےا جائے اور جو لوگ بل ادا نہیں کرتے ان سے ریکوری ممکن بنائی جائے۔حکومت کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کون سے علاقوں اور فیڈرز میں بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی زیادہ ہے اور اسی ڈیٹا کی بنیاد پر کارروائی کی جا رہی ہے ۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی کی چوری بہت زیادہ ہے، ان میں مردان اور شکارپور کے علاقے نمایاں ہیں، ان علاقوں میں بجلی کی چوری کم کرنے کے لیے کریک ڈاﺅن کا لائحہ عمل مرتب کےا جا رہا ہے ۔خوش آئند بات ےہ ہے کہ بجلی کی چوری کے معاملے کا بہت اعلی سطح پر نوٹس لیا گیا ہے ‘ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا جائزہ بھی لےا جا رہا ہے ان کی انتظامیہ میں تبدیلیوں پر بھی غور کےا جارہا ہے ۔ ایجنسیوں کی معاونت سے ان افسران کی فہرست بھی تیار کرلی گئی ہے جو بجلی چوری میں ملوث ہےں ےا معاونت فراہم کرتے ہےں، ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا، ان کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھی بھجوا دی گئی ہے۔ خصوصی عدالتیں قائم کرنے پر بھی غور کےا جارہا ہے ۔ اس ضمن میں آرڈیننس کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے کر منظوری کے لیے بھیج دیا جائے گا۔بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے سخت ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ےہ کہا گےا ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف حکمت عملی پر عملد رآمد کرتے ہوئے جیسے ہی چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست ملے فورا مقدمہ درج کیا جائے ۔بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج میں کسی قسم کی تاخیر نہ برتی جائے ۔ کسی بھی تھانے میں بجلی چوروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر پینڈنگ نہیں ہونی چاہیے ۔ 2018 میں پاکستان بھر میں سالانہ 53 ارب روپے کی بجلی چوری کا تخمینہ لگایا گیا تھاجس کے بعد اس میں اضافہ ہوتارہا ہے ۔ گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے، یہ ایسی خوفناک صورت حال ہے جس کا اندازہ عام شہری نہیں کر سکتا۔ عام طور پر بجلی کے شارٹ فال اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ حکومت کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کار کمپنیوں کی بدانتظامی کو قرار دیا جاتا ہے۔ بجلی چوری کرنا صرف بااثر لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ اگرچہ ادائیگی کے بغیر بجلی کا استعمال غیر قانونی ہے اور جرمانے یا قید کی سزا ہے، لیکن یہ دھندہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں بہت مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بجلی چور کئی جواز پیش کرتے ہیں۔جب تک ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کے بارے میں بے شمار مسائل کو حل نہیں کیا جاتا،حالات بہتر نہےں ہو سکتے ‘جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے اگر خسارہ روکا جا سکتااور صارفین کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے تو ےہ آپشن اختےار کر لےا جانا چاہےے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہی کہ بجلی کی چوری ان پر کس طرح براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بجلی چوری پر قابو پانا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں اور اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔یہاں حالت یہ ہے کہ محکمہ بجلی کے اہلکار میٹر ریڈنگ میں گڑ بڑ کرتے ہیں،بجلی چوری کراتے ہیں اور صارف کی شکایت دور کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی سبسڈی جی ڈی پی کو متاثر کرتی رہی ہے جس سے پاکستان کا گردشی قرض بڑھا۔ سبسڈی کا مقصد غریبوں کو ریلیف دینا تھا، لیکن یہ تب فائدہ بخش ہوگا اگر بجلی چوری کی لعنت پر قابو پا لیا جائے۔ تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے ترسیل اور تقسیم کے نقصانات اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ےہ ڈسکوز بجلی چوروں سے انفرادی بنیادوں پر بل وصول کرنے میں ناکام ہیں اور ان کے خلاف موثرکارروائی نہیں کر سکیں۔گردشی قرضے میں اضافہ نہ صرف پاور سیکٹر کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پوری معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ بجلی چوری کے آلات نصب کرنے والے ایسے منظم گروہ کا انکشاف بھی ہوا ہے جس کے ارکان گھریلو اور کمرشل پلازوں میں بجلی چوری کے آلات نصب کر کے واپڈا کو کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگاتے ہےں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے بجلی چوری کے آلات نصب کرنے والے گروہ کے ارکان واپڈا عملہ کی ملی بھگت سے اپنے ہی لگائے آلات پکڑوا کر صارفین کو ڈرا دھمکا کر ہزاروں روپے ہتھیا کر آپس میں بانٹ لیتے ہیںکافی عرصے سے ایسے آلات کی باز گشت سنی جارہی تھی جس کے ذریعے منظم انداز میں پورے محفوظ طریقے سے بجلی چوری ممکن تھی اس طرح کے آلات مارکیٹ میں آنے کے باوجود کسی بھی جانب سے اس کے خلاف تطہیری مہم اور ان کی ممکنہ تنصیب کی روک تھام کی تاحال کوئی اطلاع نہیں لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ان جدید آلات کے ذریعے بجلی چوری میں اضافہ ہوا ہے اور اب ایسے علاقوں میں بھی بجلی چوری کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں جہاں پہلے ریکوری سو فیصد ہوتی تھی اس کی ایک بڑی وجہ شاید صارفین میں ناانصافی کاوہ احساس ہے جو اب صارفین میں پوری طرح پائی جارہی ہے اور اس کا برملا اظہار بھی ہونے لگا ہے بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کی ادائیگی استطاعت سے باہر ہو نہ ہو اس سے قطع نظر ناانصافی کا جواحساس بڑھ رہا ہے اس سے بجلی چوری کے رجحان میں تیزی آگئی ہے ‘ حکام کم از کم اپنے اہلکاروں کی ملی بھگت سے بجلی چوری کی روک تھام ہی کر سکیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔بجلی چوری کی روک تھام کے قوانین میں ترمیم کے بعد بجلی چوری سنگین جرم قرار دیدیا گیاتھا ، اس حوالے سے سزائیں بھی انتہائی سخت تجویز کی گئی تھےں۔حکومت نے بجلی چوری کو روکنے کے لیے نئی تجاویز کی منظوری کروا کر اسے سنگین جرم قرار دیا تھا۔کہا گےا تھا کہ قومی اسمبلی سے منظوری اور صدر سے توثیق کے بعد نیا قانون نافذالعمل ہوچکا ہے۔ نئے قانون کے تحت بجلی چوری اب ایک سنگین جرم قرار دیا گیاجس کا مقدمہ الیکڑک سٹی یوٹیلیٹی کورٹ میں چلایا جائیگا۔ نئے قانون کے تحت بجلی چوروں کی بغیروارنٹ گرفتاری عمل میں لائی جا سکے گی اور یہ ناقابل ضمانت ہوگی۔نئے قانون کے مطابق بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں سے چوری کرنیوالوں کو دفعہ چار سو باسٹھ ایچ کے تحت تین سال تک قید با مشقت یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ بجلی کی ڈسٹری بیوشن لائنوں پر کنڈا ڈالنے والوں کو تےن سال تک قید یا تیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔میٹر ٹمپرنگ کی صورت میں بھی سخت سزائیں شامل کی گئیں ۔وزارت پانی و بجلی کی جانب سے بارہا یہ بات دہرائی جا چکی ہے کہ بجلی نہ تو مفت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی مفت تقسیم کی جاتی ہے۔ ملک پہلے ہی بجلی کے شدید بحران سے نبرد آزما ہے۔اس لےے بجلی چوری نہےں کرنے دی جائے گی مگر بجلی چوری میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔