چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لئے حکومت پر عزم ہے اور نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار پر مسابقت کے لیے بااختیار بنانا چاہتی ہے۔ اپنے دورے کے دوران، چیف سےکرٹری گلگت بلتستان نے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ اسکردو پروجیکٹ میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اس تعلیمی ادارے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم گلگت بلتستان میں تعلیم کے معیار کو اگلے درجے تک بلند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ اسکردو کو ایک بہترین مرکز میں تبدیل کر کے، ہم اپنے نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہتے ہیں جو عالمی تعلیمی معیارات سے ہم آہنگ ہو، ان کے مستقبل کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں۔ تعلیمی انقلاب حقیقت میں بوسیدہ نظام کے خلاف زندہ معاشروں کی پہچان ہوتی ہے کیونکہ تعلیم اندھیروں کے خلاف جہاد کا دوسرا نام ہے یا پھر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا دوسرا نام، پوری دنیا نے اس وقت مان لیا ہے کہ دنیا کے اندر سب سے طاقتور اور قیمتی چیز انسان خود ہے اس لئے سب سے پہلے انسان پر کام کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی چیز کو بنانے کیلئے اسے توڑنا ضروری ہے مثال کے طور پر لوہا جب فولاد بنتا ہے تو اسے سخت ترین ٹمپریچر اور آگ سے گزارہ جاتا ہے اس طرح انسان کو کامیاب انسان بنانے کیلئے بنیادی طور پر تعلیم وتربیت کی ضرورت ہوتی ہے، تعلیم کے اندر سختی کسی زمانے میں اس کا بنیادی حصہ سمجھا جاتا تھا اب تعلیم کے اندر جدت نے اس شکل کو ختم کیا اور ایک انسان کو بنانے میں اسکی استعداد،طاقت،علم اوروژن کو اہمیت دی جتنا انسان طاقتور ہو گا اس میں علم و بصیرت کا دخل ہو گا۔ جب نظامِ تعلیم طبقاتی تفریق کی بدترین مثال بن چکا ہو اور غریب کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہوں۔نظامِ تعلیم سامراجی مفادات کا آئینہ دار بن چکا ہو تو پھر تعلیمی انقلاب وقت کا تقاضا بن جاتا ہے۔وہ انقلاب جس میں امیر اور غریب کا بچہ ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے۔ قوم کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔تمام تعلیمی اداروں کو یکساں فنڈ کی تقسیم ہو اور سب میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کیا جائے اور ہر سطح کا نصاب تیار کر کے یکساں طریقے سے رائج کیا جائے‘ ترقی اور کامیابی کا راستہ صرف اور صرف تعلیم کا راستہ ہی ہے ۔اس سے کنارہ کرکے کسی بھی میدان میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔تعلیم سے لاپرواہی خود کشی ہے ۔تعلیم کے ذریعے شعور کی دولت ملتی ہے، غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں، ملک کی خدمت کا موقع ملتا ہے ۔انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو ہی دنیا کی امامت کا منصب حاصل ہوتا ہے۔تعلیمی سفر کو جاری رکھنے اور اس میں تیزی لانے کے لیے ضروری ہے کہ عصری تعلیم کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے۔ہر شخص اپنی آمدنی کا پندرہ فیصد تعلیم پر خرچ کرے۔ہر بستی کے ذہین اور محنتی طلبا کی رہنمائی اور سرپرستی کی جائے۔ ان کی اور ان کے والدین کی کاونسلنگ کی جائے۔ ان کی ضروریات سے ملی تنظیموں اور جماعتوں کو آگاہ کیا جائے ۔ہمارے ڈاکٹر ماسٹر، انجینئر،وکلا اور انتظامی مناصب پر جلوہ فرما افراد اگر اپنی وراثت کم سے کم دو افراد میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کریں تو ہم دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرسکتے ہیں ۔دنیا اس وقت جس تعلیم کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے یا دنیا کے اندر اس وقت رائج الوقت تعلیمی انقلاب اور ہمارے ہاں دقیانوسی طریقہ تعلیم یاروایتی تعلیمی سسٹم کو دیکھ کر افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟تعلیم کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلو ک اور تعلیم کو مستقبل کے آئینے میں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم مستقبل کے چیلنجز کیلئے نئی نسل کو تیار نہیں کر رہے بلکہ انہیں تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ہمارے ہاں پڑھائے جانے والے سارے نظام ایک دوسرے کے متصادم ہیں اسکے علاوہ یہاں بڑوں کے اپنے اور بچوں کے اپنے مسائل ہیں سب سے بڑا مسئلہ تو یقینا موبائل کا استعمال ہے جس نے بچوں کا تعلیمی کیریر تباہ کرنے کے علاوہ ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا مگر اس کا حل کسی کے پاس نہیں ملک کے اندر تعلیم کا حال پہلے بھی کوئی تسلی بخش نہیں تھا اوپر سے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے کاٹ کر صوبائی سبجیکٹ بنا دیا گیا اب ہر صوبہ بغیر کسی منصوبہ بندی ،طریقہ کار اور طریقہ واردات سے تعلیم کا جو ستیاناس کر رہا ہے اسکی ایک جھلک ملک کے اندر محرومیوں کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے ‘ تعلیم دینے سے پہلے تعلیم کی اہمیت اور افادیت جاننا ضروری ہے بے ہنگم ،بے ہودہ،بے ترتیب اور بے مقصد تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں تعلیم کا مقصد اگر نسل کی تعمیر ہو تو اسکے لئے منصوبہ بندی بہت ضروری ہے سکولز اور کالجز کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے مقابلے کا ٹرینڈ اب غیر ارادی طور پر کرپشن کی بھینٹ چڑھا ہے پرائیو یٹ سکولز اور کالجز کے اندر تو یہ مقابلہ اتنا سخت ہوتا جا رہا ہے نمبرز حاصل کرنے کی دوڑ ہے اس وقت پوری دنیا میں تعلیمی پس منظر کے حامل ممالک دنیا کو لیڈ کر رہے ہیں فن لینڈ ہو یا ناروے،سویڈن ہو یا جاپان یہ سب ممالک تعلیمی میدان میں امریکہ اور برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں ٹیچرز کی سلیکشن سے لے کر بجٹ کی فراوانی تک،کیمونٹی کے اندر سکولز سسٹم کی پائیداری ٹیچرز ٹریننگ،نصاب کی تکمیل سے لے کر معاشرتی اقدار کے پیمانے تک،مانیٹرنگ کے پیمانوں سے لے کر استعداد کار تک تعلیم کو معاشرے کی ضرورت بنانے کے بعد اسے سادہ ،عام فہم،دلکش بنانے کی کو ششیں کی جا رہی ہےں، اسلئے اس وقت دنیا کے اندر جن بڑے تین پیمانوں پر کام ہو رہا ہے ان میں بہترین تربیت کے ساتھ دنیا سے کچھ سیکھنا شامل ہے‘ آج ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کی شرح یعنی خواندگی98اور100کے درمیان ہے ہم اب تک 60 کے درجے سے آگے نہیں نکل سکے، ہماری آٹھ تو تعلیمی پالسیاں وجود میں آچکی ہیں ہر حکومت اور ہر ادارے کے سربراہ نے اپنی مرضی اور وژن کے مطابق تعلیم کو تجربہ گاہ بنایا ‘تعلیم کے لئے منصوبہ بندی اور دنیا سے سبق سیکھنا ضروری ہے، یہ جذبے کاکام ہے جذبات کا نہیں اسلئے تعلیم کو دلدل سے نکالنے کیلئے ہمارے ارباب اختیار کو سنجیدہ ،پائیدار،بروقت فیصلے کرنے ہونگے اور تعلیم کو با مقصد بنانے کیلئے کچھ غیرمعمولی فیصلے بھی تب جا کر تعلیمی انقلاب برپا ہو گا ۔ ہمیں موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات تلاش کرنا ہوں گے اور اجتماعی کوششوں کے ذریعہ ہی ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے تعلیمی انقلاب کے لئے ہمیں قومی زبان کو اسی طرح ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا ہوگا جیسے جرمنی، فرانس ، چین ، جاپان، ملائیشیا، ترکی اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہو رہا ہے۔ بلاشبہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے انگریزی سیکھنا ضروری ہے لیکن اس کے لئے ہر مضمون انگریزی میں پڑھانا ہرگز ضروری نہیں،ایک مضمون کی حیثیت سے انگریزی کی معیاری تدریس کافی ہے ۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں علمی تحقیق اور ترقی کا جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اس سے ملک کے اندر آگہی کے لئے اعلی درجے کے دارالتراجم قائم کئے جانے چاہئیں۔ تمام ترقی یافتہ قومیں اس کا اہتمام کرتی ہیں جبکہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ان کی اپنی ہی زبان میں دی جاتی ہے۔ اس لئے ان کے طلبہ و اساتذہ اور تحقیق و تجزیہ کار فطری طور پر اپنے خیالات کا کسی مشکل کے بغیر فوری اور بہتر انداز میں اظہار کرسکتے ہیں۔ یہ قدم اٹھالیا جائے تو پاکستان میں سو فی صد تعلیم کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔تعلیم ہر انسان کے لیے انفرادی طور پر مفید ہے اور اجتماعی طور پر بھی وہ انسانی گروہوں کو شناخت اور اعتبار عطا کرتی ہے۔ جو انسانی گروہ تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ تمام تر دنیاوی فوائد سے خود کو محروم کر لیتے ہیں اور دوسروں کا بھی بھلا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔طلبہ کو تعلیم اگر صحیح معنوں میں دی جائے تو یہ واضح ہے کہ طلبہ کے ذریعے سے وہ عملی انقلاب آئے گا جس کا آج ہر ذی حس انسان متمنی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج کیا کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور اس پڑھائی کے نتیجے میں کیا کچھ حاصل ہو رہا ہے؟پڑھائی کا مقصد کیا بن چکا ہے؟ اور مقصد کے حصول کے لیے کیا کیا عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟ہمےں ملکی و عالمی حالات کے تناظر میں تعلےمی پالےسی مرتب کر کے اس پر عملدرآمد کو ےقےنی بنانا ہوگا تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکےں۔
