گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیاں

گلگت میں اسماعیلی ریجنل کونسل کی جانب سے گلوبل اسماعیلی سوک ڈے منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد گلوبل وارمنگ اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات اور نقصانات کے حوالے سے آگہی دینا اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا تھا۔ تقریب سے وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیات اور گلوبل وارمنگ بہت بڑا ایشو ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی اس مسئلے کی وجہ سے سیلاب آرہے ہیں اور تباہی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت شہر کو سیراب کرنے والے دادی جواری کوہل جہاں سے عوام پانی پیتے تھے آج گٹر کے پانی سے بھر چکے ہیں۔ نکاسی اور سروس اسٹیشنز کے پانی کا رخ دریائے گلگت کی طرف کیا گیا ہے بدبو کی وجہ سے دریا کے کنارے بیٹھنا محال ہوچکا ہے‘ مذہب اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے مگر افسوس کہ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ گلوبل اومنگ اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے جامع پالیسی بنانا ہو گی ۔ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت سے مراد کرہ ارض کی سطح پر تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے۔ ماحولیاتی مطالعات کی روشنی میں برابر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ زمین پر درجہ حرارت لگاتار بڑھ رہا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق پچھلی صدی میں زمین کا درجہ حرارت کئی ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے۔ آنے والے وقت میں زمین کا اوسط درجہ حرارت مزےد بڑھ سکتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دنیا بھر میں جنگلات کے جلنے، سیلاب اور خشک سالی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق انٹر گورنمنٹل پینل کی رپورٹ میں آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا اس رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی حدت کے نتیجے میں تک افریقہ میں سے کئی ملین لوگ پانی کی قلت کا شکار ہو جائیں گے جبکہ کچھ افریقی ملکوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے زراعت کو زبردست نقصان ہو گا اور اس میں کمی آجائے گی۔ افریقی ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور دنیا کی غریب آبادی اس مصیبت کا سب سے زیادہ شکار ہو گی۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشےئرز کی برف پگھل رہی ہے جس کے نتیجے میں سیلاب آرہے ہیں اور آنے والے وقت میں اس کیفیت میں اور اضافے کا اندیشہ ہے۔ خشک علاقوں میں زمینیں بنجر ہونے اور پھٹنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گلیشےئروں کی برف پگھلنے سے ایک طبیعاتی اور کیمیائی نقصان یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ کرنوں کا انعکاس گھٹ رہا ہے یا مستقبل میں گھٹے گا۔ اس کی وجہ سے زمین کی سطح پر زہریلی گیسوں کا لیول بڑھے گا اور اوزون کی سطح بھی مزید متاثر ہو گی۔ زمین کی فضائی سطح کے اوپر قدرتی گیسوں اوزون کی ایک پرت موجود رہتی ہے جو زمین پر سورج سے آنے والی حدت کو کم کرتی ہے اور سورج کی روشنی سے پھوٹنے والی نقصان دہ شعاﺅں کو زمین پر پہنچنے سے روکتی ہے۔ اوزون کی یہ پرت فضا میں خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے میں کافی متاثر ہوئی ہے اور اس میں کئی جگہ سوراخ نمودار ہو رہے ہیں۔آب و ہوا میں اس تبدیلی کے جو مطالعات ابھی تک کیے گئے ہیں اس میں اس تبدیلی کے بہت سے اسباب کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں ایک سبب قدرتی اور تاریخی عمل ہے۔ اس کے مطابق زمین پر موسموں کی تبدیلی کا یہ سلسلہ ہزاروں برس سے چل رہا ہے اور اس وقت محسوس کی جارہی حدت کا دور ایک ہزار سال پہلے بھی زمین پر گزر چکا ہے۔ گزشتہ سال بھی سائنس دانوں کی ایک تحقیق سے یہ بات اجاگر ہوئی تھی کہ سے لے کر تک شمالی نصف کرہ ارض پر کافی زیادہ گرمی تھی جبکہ سے تک کا زمانہ کافی سرد تھا۔ موسموں میں تبدیلی کے اسباب کا یہ نظریہ کافی قدیم ہے اور پہلے اسے ہی بنیادی سبب مانا جاتا تھا لیکن پچھلے سو سالوں میں موسموں کی تبدیلی کا اہم سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں آلودگی بڑھنے کے جائزے بھی لیے گئے ہیں اور یہ پایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی اور آب و ہوا میں تبدیلی کا ایک بڑا سبب معدنیاتی گیسوں، تیل اور کوئلے وغیرہ کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسیں ہیں جن میں سب سے بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائےڈ کا ہے۔چونکہ موسم کے تغیرات میں فی الحال وارمنگ محسوس کی جارہی ہے اس لیے عالمی خنکی کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا ہے۔ یہ مان لیا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی حدت کو کم کرنے کے لیے گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ گیسیں چونکہ زیادہ تر صنعتی ملکوں سے خارج ہوتی رہی ہیں اس لیے یہ ذمہ داری صنعتی ملکوں پر ڈالی گئی ہے کہ وہ گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اہداف قبول کریں اور اسے پورا کریں لیکن یہ معاملہ صنعتی ترقی اور قومی روزگار سے براہِ راست جڑا ہوا ہے کیونکہ گیسوں میں کمی لانے کے لیے ایندھن کے استعمال اور توانائی کی پیداوار میں کمی لانی ہو گی۔ اس لیے یہ مسئلہ ترقی پذیر ملکوں اور ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان سیاسی کشمکش کی وجہ بن گیا ہے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ توانائی کے ایسے متبادل تلاش کیے جائیں جن سے گرین ہاﺅس گیسےں نہ پیدا ہوں یا ان کی شرح بہت کم ہو۔ چنانچہ کلین ٹیکنالوجی کا تصور سامنے آیا ہے اور ترقی یافتہ ملک اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی سائنس اور ارضیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کرہ ارض کے درپیش سنگین مسائل سے بخوبی واقف ہیں کہ فی زمانہ ہماری زمین، اس پر آباد تمام جانداروں کو قدرتی ماحول کے سنگین مسائل سے کیا کیا خدشات اور خطرات کا سامنا ہے۔ موسمی تبدیلیاں، زمینی، فضائی اور آبی آلودگی، شہروں میں آبادی کا بڑھتا ہوا دباﺅ، اوزون کی پرت میں ہونے والے شگاف، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مسئلہ، جنگلات کی کٹائی کے منفی اثرات، جنگلی حیاتیات اور سمندری حیاتیات کی بتدریج تباہی، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، برفانی طوفان، موسلادھار بارشیں، خشک سالی، غذائی قلت، بھوک، قحط سمیت دیگر مسائل ان میں شامل ہیں۔امریکی صدر کےنیڈی نے کہا تھا کہ ہمارے زیادہ مسائل اور مصائب کا خود انسان ذمہ دار ہے۔ ان مسائل کو انسان ہی کو حل کرنا ہوگا۔ ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے 1960 کی دہائی میں آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں اور ایک غیرسرکاری تنظیم گرین پیس کا قیام 1971 کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں عمل میں آیا۔ اس تنظیم کے بنیادی اغراض و مقاصد میں عالمی امن، قدرتی ماحول کا تحفظ اور جوہری تجربات کا خاتمہ ہے۔ماحول میں گرین ہاﺅس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقدار سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ گرین ہاﺅس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں بے تحاشہ اضافہ گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے جس کے زیر اثر موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہمیں سیلاب اور جنگل کی آگ جیسے واقعات کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ اس سے یہ امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ ایک ہی موسم میں متعدد آفات رونما ہو سکتی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب، بحرالکاہل کے جزیروں میں آنے والے طوفان اور افریقہ میں خشک سالی، عالمی سطح پر کسی کارروائی کا نقطہ آغاز پیدا نہیں کرسکے۔بین الاقوامی سطح پر، بڑے تیل کی کمپنیاں کئی دہائیوں سے آب و ہوا کی بات چیت کر رہی ہیں لیکن نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پیرس معاہدے میں فوسل فیول، تیل، گیس یا کوئلہ کے الفاظ شامل ہی نہیں ہیں۔ اور دوسری جانب دنیا 2030 تک 110 فیصد زیادہ تیل، گیس اور کوئلہ پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہے ۔ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، تیل اور گیس کی کمپنیوں نے سچائی میں خلل ڈالا ہے اور ترقی کو روکا ہے۔ انہوں نے عوام کو قائل کرنے کے لیے مہموں پر لاکھوں خرچ کیے ہیں کہ فوسل فیول کو پھیلانا محفوظ، معقول اور ناگزیر ہے اور یہ کہ فوسل فیول کا متبادل مسائل کا شکار اور ناقابل اعتبار ہیں۔ اور یہ پروپگنڈا کامیاب بھی ہے۔دنیا کو فوسل فیول کی پیداوار اور اخراج کو مرحلہ وار ختم کرنے کے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ اور اس میں امیر فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک کو عالمی جنوب کے ممالک کو صاف توانائی کی منتقلی میں مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ تیز رفتار اور منصفانہ طریقے سے ہو سکے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تیل، گیس اور کوئلہ ہمیں جلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 101 نوبل انعام یافتہ اور 3000 سے زیادہ سائنسدان فوسل فیول کے عدم پھیلا ﺅ کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔