خواتین کی فلاح و بہبود اور طلباءکی بیرون ملک تعلیم

ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی سعدیہ دانش اور ممبر اسمبلی رانی صنم فریاد نے پاکستان میں تعینات امریکی سفیرڈونلڈ بلوم سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصا خواتین کی ترقی و بہبود کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ‘ملاقات میں امریکی سفیر نے گلگت بلتستان میں مختلف شعبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا جس پر ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی سعدیہ دانش نے خواتین کو درپیش مسائل اور انکے تدارک کیلئے اقدامات پر زور دیا‘ڈپٹی سپیکر نے گلگت بلتستان کے طلباکے لئے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں سکالرشپ اور داخلوں میں ترجیح دینے پرزور دیا ڈپٹی سپیکر نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے میں بہت مواقع ہیں اور اس شعبے کی ترقی کے لئے تکنیکی معاونت اور تعاون فراہم کرے ‘امریکی سفیر نے ڈپٹی سپیکر کو یقینی دہانی کرائی کہ ماحولیات کے تحفظ، سیاحت، خواتین کی ترقی اور تعلیمی شعبوں میں خصوصی معاونت فراہم کرینگے۔بلاشبہ پاکستانی خواتین کسی بھی طرح ترقی یافتہ ممالک کی خواتین سے کم نہیں اور وہ سماجی اقدار اور روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بد قسمتی سے یہاں خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہونے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ خواتین کو با اختیار بنانے اور انہیں معاشرے میں نمایاں مقام دلوانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کی جانی چاہےں۔ مشرقی روایات کی پاسداری کرنے والی پاکستانی عورت آج معاشرے کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ہمارا مذہب اور آئین خواتین کو تمام بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آج سے چودہ سو سال قبل خواتین کے حقوق کا تحفظ انکی عزت و احترام اور مذہبی حدود کو پیش نظر رکھ کر کاروبار تک کرنے کی سنہری مثال صرف اسلام ہی دے سکتا ہے۔ خواتین کا کردار اور لباس انکی عزت بڑھانے اور گھٹانے کا ایک اہم پیمانہ ہے اور اہم سب خواتین کو ہر حال میں اسلامی تعلیمات کو اپناتے ہوئے گھر کے اندر اور باہر خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ قوموں کی تعمیر و تشکیل اور اولاد کی بہترین تربیت میں اصل اور کلیدی کردار ماﺅں اور گھر کی بزرگ خواتین کا ہوتا ہے جس میں خرابی کا نتیجہ بچوں کے کردار میں واضح نظر آجاتا ہے۔مردوں کو بھی خواتین پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں جائز آزادی ضرور دینا چاہیے تاکہ وہ ایک صحت مند ماحول میں رہ کر اپنی فطری اور ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں۔ آج کی تعلیم یافتہ خواتین انتظامیہ ،عدلیہ،ملٹری،ایئر فورس اور دیگر بے شمار اور قدرے مشکل شعبوں میں بھی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے اعلی عہدوں پر کام کر رہی ہیں۔ گھریلواعتماد اور اچھی تربیت کی حامل خواتین ایک اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی خواتین ہی اصل معاشرتی بہتری کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں۔ اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی کردار کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔امرےکہ اگر اس حوالے سے تعاون فراہم کرتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنی تہذےب و کلچر کو ہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جائے۔اعلی تعلیم اور عالمگیریت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے ساتھ بیرونِ ملک جا کر تعلیم حاصل کرنا گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی نوجوان نسل کا پسندیدہ خواب بن چکا ہے۔ طلبہ و طالبات تعلیم کی ثانوی سطح تک پہنچنے کے بعد بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے امکانات پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی ڈگری کا حصول جو پاکستان کے تعلیمی نظام میں دستیاب نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں رہنے اور دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا تجربہ بھی اپنے آپ میں بے حد سنسنی خیز اور ناقابلِ فراموش ہے۔ اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی خواہش تو سب کرتے ہیں مگر اس خواب کو کس طرح پورا کرنا ہے یہ ہر کسی کو معلوم نہیں۔ بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنا ہر اعتبار سے فائدے کا سودا ہے۔ تاہم بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند اسٹوڈنٹس اور ان کے سرپرستوں کو اچھی طرح سے دیکھ بھال کر قدم اٹھانے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔اس حوالے سے حکومتوں کو ان کی مدد کرنا ہوگی سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دےکھےں پڑھائی کے لیے کون سا ملک یا ممالک سب سے بہتر رہیں گے؟کون سا کورس پڑھنا بہترین ہوگا؟ کون سی یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہیے؟ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کرنے والے طلبا کو ناقابل واپسی ویزا اور درخواست کی فیس سے لے کر بھاری ٹیوشن فیسوں تک بہت سارے اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ باہر جانے سے پہلے ہی اپنے مالی معاملات کو حل کرلیا جائے تاکہ بعد میں کسی قسم کی پیچیدگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہت سارے ممالک جیسے جرمنی، یو کے اور امریکا وغیرہ کی مثال آپ کے سامنے ہے جہاں رہنا اور اچھی تعلیم حاصل کرنا خاصا مہنگا عمل ہے۔ ان ممالک کا نظام ایسا ہے کہ یہ آپ سے پہلے ہی اخراجات کے بارے میں بینک اکاﺅنٹ کی تفصیلات طلب کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آپ ان ممالک میں رہنے اور پڑھائی کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ہی ویزہ جاری کیا جاتا ہے اور قانونی طور پر آپ کو ملک میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بہت سے طلبا اپنی بین الاقوامی تعلیم کی ادائیگی کے لیے کچھ مالی مدد پر انحصار کریں گے۔ وہ اسکالرشپس کے حصول پر غور کرسکتے ہیں۔ضروری دستاویز کا اہتمام یقینا ایک چیلنج ہے۔ کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے پیش کئے جانے والے کاغذات اور ویزہ کے حصول کے لیے پیش کئے جانے والے ڈاکیومینٹس مختلف ہوتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر انتہائی ضروری ہیں۔ اپنی تعلیمی اسناد کی فوٹو کاپی کرالیں اور متعلقہ حکام سے تصدیق کرالیں اس کے ساتھ ساتھ آئیلٹس یا ٹوفل کے ٹیسٹ کا رزلٹ سنبھال کر رکھیں۔ مالی اخراجات کے ثبوت کے لیے اپنے بینک کا اسٹیٹمنٹ اپنے پاس رکھیں۔ رہائش اور میڈیکل انشورنس کے لئے اپنے ضروری کاغذات سنبھال کر رکھیں۔ جب آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں اپلائی کرتے ہیں تو اس ادارے میں جمع کروائی جانے والی دستاویزات کا آپ کے پاس ہونا نہایت اہم ہوتا ہے۔ بیرون ملک پڑھائی کے لیے جانے سے قبل اپنے داخلے کے لیے ضروری تمام دستاویزات اپنے پاس ضرور رکھیں تاکہ آپ کا سفر بغیر کسی مشکل کے مکمل ہو۔ ہر وہ دستاویز فراہم کریں جو آپ سے طلب کی گئی ہو۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے طریقہ کار سے آگہی حاصل کی جائے تاکہ انکی ڈیمانڈز کے مطابق ہر چیز انہیں بروقت فراہم کی جا سکے۔ آپ نے اگر ایک چھوٹی سی معلومات بھی مس کردی تو آپ کو آخری منٹ میں بھی تکلیف اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ اس لئے اس حوالے سے ہمیشہ حساس اور ذمے دار رہیں اور اپنی تمام دستاویزات کو اپنے پاس سنبھال کر رکھیں۔ اگر آپ ان تمام مراحل کے بارے میں جانتے ہیں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ قدم با قدم آگے بڑھتے ہیں تو اس چیلنج کو پورا کرنا آپ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوگا۔ لےکن اےسا کرنا سب طلباءکے لےے ممکن نہےں لہذا ضروری ہے کہ حکومت محکمہ تعلےم کی مدد سے طلباءکی رہنمائی کو ےقےنی بنائے۔اس مقصد کے لےے مختلف تعلےمی ادارے اپنے طور پر بھی بےن الاقوامی تعلےمی اداروں سے اےم او ےو سائن کر سکتے ہےں اور حکومت بھی وظائف کی فراہمی کے ضمن میں ان اداروں اور ان کی حکومتوں سے مذاکرات کر کے لائحہ عمل مرتب کر سکتی ہے ۔