کیرئیر فیسٹ :مثبت پیشرفت

حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے طلباکو انکے ذہنی میلان اور رحجان کے مطابق مستقبل میں درست پیشوں کے انتخاب کیلئے رہنمائی فراہم کرنے کیلئے گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو میں کیرئیر فیسٹ کا آغاز ہوگیا ہے،کیرئیر فیسٹ کا افتتاح چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے کیا،کیرئیر فیسٹ میں ہزاروں طلباشریک ہوئے ،منتظمین کا کہناہے کہ تین روزہ تعلیمی فیسٹیول میں 20ہزار طلباکی شرکت متوقع ہے،مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے طلباکو درست پیشوں کے انتخاب کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی اور اپنے تعلیمی سفر اور پیشہ وارانہ زندگی کے تجربات سے بھی آگاہ کیا۔ مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے طلباسے کہا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے ذاتی میلان اور دلچسپیوں کے علاوہ جدید دنیا کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے پر بھی توجہ دیں ۔ صوبائی وزرا نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کی جانب سے تعلیم کے فروغ کیلئے اٹھا ئے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کیرئیر فیسٹ کو نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے اور منفی سرگرمیوں سے دور رکھنے کیلئے اہم اقدام قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیرئیر فیسٹ کا شاندر انعقاد حکومت گلگت بلتستان کا ایک انقلابی اقدام ہے۔اس تعلیمی فیسٹیول کے ذریعے نہ صرف خطے کا مثبت تشخص اجاگر کیا گیا ہے بلکہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع سے طلبا کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے گلگت بلتستان کی متنوع ثقافتی اور سماجی اقدار کو بھی جلا بخشی گئی ہے۔صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے اس موقع پر کیریئر فیسٹ میں شریک ملک بھر سے تشریف لائے معزز مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت مستقبل کے رحجانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلباکو بہتر کیرئیر کے انتخاب کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے مزید کیرئیر کونسلنگ ورکشاپوں کا انعقاد کریگی۔ صوبائی حکومت خطے میں معیاری تعلیم کے فروغ کیلئے پرعزم ہے اور حکومت خطے کے نوجوانوں کو انکے گھر کی دہلیز پر جدید اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے علاوہ مستقبل کے رحجانات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیرئیر کونسلنگ کی سہولت بہم پہنچانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ ہماری بہت ہی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم تعلیم سے جڑے فیصلوں کو اس وقت سنجیدہ لینا شروع کرتے ہیں جب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور پھر آخر میں سوائے دکھ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ہمارے یہاں جب ایک بچہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے تو وہاں موجود لوگوں میں سے کبھی کسی نے اس بچے سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا جو اس کو پڑھایا جائے گا وہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے؟تعلیمی سفر کے دوران کچھ مراحل ایسے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں، اس سٹیج پر اگر ایک غلط فیصلہ کرلیا جائے تو وہ تمام کیریئر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تعلیمی سفر میں پہلا ٹرانزیشن سٹیج آٹھویں جماعت ہے، جب نویں جماعت میں جانے کے لیے آپ کو مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم میٹرک یا انٹرمیڈیٹ میں کوئی مضمون یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ دوسرا مضمون آسان ہے۔ اول تو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ آسان ہے یا مشکل۔ اب وہ آپ نے چھوڑ دیا اور جب وہ مرحلہ گزر گیا تو پھر آپ سوچتے ہیں کہ کاش میں وہ سبجیکٹ رکھ لیتا یا رکھ لیتی۔ چاہے اضافی مضمون کے طور پر ہی رکھ لیتے تو ہمارے سامنے بہت سے راستے کھلے ہوتے۔ بہت سے بچے کیمسٹری مشکل سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیمسٹری ایک تو بہت دلچسپ مضمون ہے ، دوسرا اس کو چھوڑنے سے بہت ساری چوائسز ختم ہوجاتی ہیں، تو اس وقت کونسلنگ بہت ضروری ہے۔ جب یہ طلبہ یونیورسٹی میں چار سالہ پروگرام کی طرف جاتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ یہ شعبہ میرے لیے مناسب نہیں ہے اور مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یا شعبہ تو درست تھا لیکن ادارہ درست نہیں تھا۔یہاں تک کہ سکول اور مضامین تک کے انتخاب کا حق بھی نہیں دیا جاتا بچوں کو، ایسے بہت کم خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں وہی کرتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں ورنہ زیادہ تر اس تعلیمی نظام میں بچے صرف ڈگری لینے کے چکر اور اچھے مستقبل کے لالچ میں اپنے خواب آنکھوں میں ہی قید رکھتے ہیں۔ انہےں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈگری لینی ہے اور اگر کسی اچھے مضمون کی ڈگری نہ ہوئی تو یہ معاشرہ قبول نہیں کرے گا۔انہےں علم نہیں دیا جاتا، انہےں کاغذ کے ٹکڑے دیے جاتے ہیں جن کو دکھا کر وہ چند پیسے کما سکیں۔ ہر بچے کی ذہانت کا لیول ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور یہ بات نہ والدین سمجھتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ، آج کل علم صحیح معنوں میں سکھانے کی بجائے، صرف رٹے پہ توجہ دی جاتی ہے، بہت سے پرائیویٹ ادارے فیس کے چکر میں بچوں کی تعلیمی میدان میں کمزوریوں پہ پردہ ڈالتے ہیں اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، یہ بات بالکل بجا ہے کہ والدین کبھی اولاد کا برا نہیں سوچ سکتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی باتوں میں والدین اپنی اولاد کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں اور اپنے بچے کو بہتر بنانے کی کوشش میں اپنے بچے کی مرضی اور خواہش کو رد کر دیتے ہیں۔ہمارے آج کل کے دور میں کروڑوں ایسے بچے ہیں جو اس تکلیف سے گزر رہے ہیں، بچے اپنے لئے پسندیدہ فیلڈ نہیں چن سکتے کیونکہ اماں ابا کو بچہ ڈاکٹر یا انجنےئر ہی چاہیے اور جو بچہ یہ نہیں بنتا وہ نالائق تصور ہو گا۔ جب ایک بچہ آٹھ سال کی پڑھائی کہ بعد اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے اپنے آنے والے مستقبل سے متعلق اہم انتخاب کرنا ہوتا ہے تو ایسے موقع پہ اسے رہنمائی فراہم کرنے کے لئے کوئی موجود نہیں ہوتا، بلکہ اسے یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے، اور پھر بچہ اپنی بات اپنے اندر ہی چھپا لیتا ہے اور یہیں سے مسائل کا آغاز ہوتا ہے، نہ آپ بچے کو بولنے کا موقع دیتے ہیں اور نہ سمجھنے کا اور پھر متوقع نتائج نہ ملنے پہ آپ ان بچوں کو کوستے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی کیرئیر کونسلنگ پہ کبھی توجہ ہی نہیں دیتے، کیرئیر کونسلنگ، جس میں بچوں کو ان کی تعلیم اور کیرئیر سے متعلق رہنمائی فراہم کی جاتی ہے تعلیمی اداروں نے شاید ہی کبھی اس طرف توجہ دی کیونکہ اس چیز کو ابھی تک اہم نہیں سمجھا جاتا، ہمارے لوگ تو شاید ہی اس کیرئیر کونسلنگ جیسے الفاظ سے واقف ہوں کیونکہ ان کو کبھی اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا، ہمارے اداروں نے کبھی بھی کیرئیر کونسلنگ کی طرف توجہ ہی نہیں دی یہ جانتے ہوئے بھی کہ بچے کہ مستقبل اور حال کا سوال ہے، بڑے شہروں میں ہو سکتا ہے کچھ اقدامات کیے گئے ہوں اس سلسلے میں لیکن دیہی علاقوں میں اس کا دور دور تک ذکر نہیں۔حکومتی سطح پر اس معاملے کو شاید ہی سنجیدہ لیا گیا، ہر حکومت کہتی ہے نوجوانوں کی ترقی اور بہتری ان کا اصل ہدف ہے لیکن درحقیقت نوجوانوں کو دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کامیاب استاد کی نشانی یہ ہے کہ ان کا کام بولتا ہے لیکن پاکستان میں کامیاب استاد کی نشانی یہ ہے کہ وہ کتنا اچھا رٹا لگوا سکتا ہے، جتنا اچھا رٹا، اتنا اچھا نتیجہ، بچوں کی تخلیقی صلاحیت تو بالکل ہی ختم کر دی گئی ہے‘اگر آپ کسی بچے سے کہیں کہ رٹے رٹائے جواب کہ بجائے خود سے کچھ بتانے یا لکھنے کی کوشش کرو تو آج کل کا بچہ پریشان ہوجاتا ہے کیونکہ اسے سکھایا ہی نہیں جاتا کہ اپنی بات کیسے دوسرے کہ سامنے رکھنی ہے۔ والدین کو سوچنا چاہیے کہ وہ بچے کی مرضی اور اس کی خامیوں کو سمجھیں اور اس کی رہنمائی کریں، اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو ضروری نہیں کہ بچہ بھی وہی بنے اور اس میں کوئی انا والی بات نہیں۔ایسا ماحول دیں اپنے بچے کو کہ وہ اپنے مسائل پہ آپ سے بلا جھجھک بات کر سکے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے بچے سے ضرور پوچھیں کہ کیا اس کی خود کی کوئی رائے یا سوچ ہے اپنی تعلیم اور مستقبل کو لے کر، اگر ہے تو اپنے بچے کی سوچ کو اون کریں۔ بچوں پہ ان کی بساط سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، ان کو موقع دیں کہ وہ آپ پہ اعتماد کرتے ہوئے اپنی بات آپ کے سامنے رکھ سکیں۔بظاہر یہ بہت چھوٹی بات معلوم ہوتی ہوگی بہت سے لوگوں کہ کیریئر کونسلنگ سے کیا ہو جائے گا لیکن درحقیقت یہ چیز لاکھوں بچوں کا حال اور مستقبل محفوظ کر سکتی ہے، نامی گرامی تعلیمی اداروں میں بھی کبھی ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ نہیں رکھے گئے جو آج کل کی اشد ضرورت ہیں تاکہ طلبا کہ مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے، والدین، اساتذہ اور بچے مل کر اس پہ سنجیدہ اقدامات کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی پوری زندگی کا سوال ہے۔ کسی حکومتی سطح پہ کوئی امید رکھنا بے کار ہے کیونکہ ہر حکمران اور حکومت عوام سے زیادہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، عوام کی تکلیف اور مسائل عوام خود ہی بھگتتی ہے۔انسان کی تعلیم ہی اس کو بناتی اور سنوارتی ہے، آپ کا حال اور مستقبل آپ کی تعلیم سے جڑا ہوتا ہے، جتنا بھی پڑھایا پڑھایا جائے وہ ایمانداری سے پڑھایا اور پڑھا جائے۔ اساتذہ کو خداص طور پر اس بات پہ خصوصی توجہ دینی چاہیے، کیا فائدہ جب آپ کے پاس اتنی ڈگریز ہوں لیکن آپ اپنے طالبعلم کو نہ سمجھ سکیں، اس کو یہ نہ بتا سکیں کہ زندگی صرف دو سے تین شعبوں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ ہزار نئے راستے ہیں اب، ہمیشہ بچے کو بتائیں کہ وہ اپنے دماغ میں ایک سیکنڈ آپشن رکھے تاکہ اسے ماےوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اےسی صورتحال میں کےرئےر فےسٹ اےک اہم قدم قرار دےا جا سکتا ہے جس سے خطے کے طلباءمستفےد ہوں گے۔