پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اشیائے ضروریہ مہنگی ہونے لگیں، جس سے کم آمدن والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ملک میں ایک ہفتے مہنگائی کی شرح میں0.25 فیصد کمی کے بعد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.93فیصد اضافہ ہوگیا جب کہ سالانہ بنیاد پر مہنگائی 38.66فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، ملک میں مہنگائی سے 29ہزار 518 روپے سے 44 ہزار 175روپے ماہانہ آمدن رکھنے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جس کے لیے مہنگائی کی شرح 41فی صد رہی ہے۔ حالیہ ایک ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 22 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور 11 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی جب کہ 16 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق سالانہ بنیاد پر مہنگائی 38.99 فیصد ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں چکن8.49، لہسن5.19، پیاز 3.02،پیٹرول 8.53فیصد، ڈیزل 5.54فیصد جب کہ ماچس کی ڈبیا 1.42 فیصدمہنگی ہوئی۔اس کے علاوہ ایک ہفتے میں ٹماٹر 11.11 فیصد،چائے کی پتی0.17،چینی3.57 فیصد،آلو1.89 فیصد،آٹا0.77 فیصد،گڑ0.62 فیصد ،سرسوں کا تیل0.45 فیصد ،دال چنا0.18فیصد اور ویجی ٹیبل گھی 0.31فیصد سستا ہوا ہے۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے سالانہ بنیادوں پر 17 ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدن رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں38.27فیصد، 17 ہزار 733روپے سے 22 ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں41فیصد، 22 ہزار 889روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں39.84فیصد، 29 ہزار 518روپے سے 44ہزار 175 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 38.60فیصد رہی جب کہ 44 ہزار 176روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 34.28فیصدرہی ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔حکام کے مطابق یکم اکتوبر سے آئندہ پندرہ روز کے لیے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 11 روپے 98 پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 9 روپے 17 پیسے تک کمی ہوسکتی ہے، اس کے ساتھ مٹی کے تیل کی قیمت 5.58 روپے نیچے آسکتی ہے۔ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری رہا اور روپے کی قدر میں بہتری رہی تو عوام کو پورا ریلیف نہیں مل سکے گا جبکہ اگر عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوئی تو عوام کو اس سے زیادہ ریلیف مل سکتا ہے۔آئندہ پندرہ روز کیلیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا حتمی فیصلہ حکومت 30 ستمبر کو کرے گی۔ کرنسی ایکسچینج کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔مارکیٹ کے اختتام پر ڈالر ایک روپے ایک پیسے کم ہوکر 291 روپے 76 پیسے پر بند ہوا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی آج تیزی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ملک میں ڈالر کی حقیقی ویلیو 260 جبکہ مہنگائی کے حساب سے قیمت 200 روپے بنتی ہے۔ نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومت نے ڈالر سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ رکوا دی ہے اور اب ڈالر کی قدر بڑھنے نہیں دیں گے۔ ملک میں فی ڈالر حوالہ ریٹ 350روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ انٹربینک ریٹ بھی 350روپے تک جاتا نظر آرہا تھا، پھر حکومت نے اقدامات کیے تو قیمت کم ہونا شروع ہوئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جن درآمدات پر پابندی عائد کی ان ہی اشیا کی درآمدات میں اضافہ ہوا،درآمدات پر پابندی سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا حجم چارسے بڑھ کر چھے ارب ڈالرہوجاتا ہے۔ جن اشیا پر ٹیکس بڑھایا وہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے آجاتی ہیں، ہم نے خود گرے مارکیٹ کو فروغ دیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے بڑھتی مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ایسے میں کسی گھر میں صرف ایک کمانے والا ہو تو اس کی محدود آمدن سے گھر چلانا ممکن ہے؟ہفتہ وار مہنگائی کی شرح کا تناسب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ملک کی بیشتر آبادی کے لیے ایسا ممکن نہیں رہا۔لوگوں کے لےے مہنگائی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے، ایک دور میں ایک بندہ گھر کا خرچ اٹھاتا تھا لیکن اب یہ مشکل ہو گیا ہے۔ گھر کا کرایہ، بچوں کا سکول، سودا سلف اور بلز پورا کرنا ناممکن ہے۔دو سال پہلے بھی چیلنجز تھے لیکن ڈیڑھ سال سے معیشت کے حالات خراب ہیں، پرافٹ مارجن کم ہے، ایسے میں بس گزارہ ہی ہو رہا ہے۔ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے حساب سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے مختلف کام یا روزگار کے ذرائع تلاش کرنے شروع کردیے ہیں۔ملک کے بڑے شہروں میں بہت سے نوکری پیشہ افراد نے دفتر سے چھٹی کے بعد آن لائن ٹیکسی چلانا شروع کر دی ہے۔ مگر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے ان کے اس روزگار کو بھی متاثر کیا ہے۔بہت سے لوگ دفتر آنے جانے کے لیے اپنی گاڑی کے پیٹرول کا خرچ کار پولنگ کے ذریعے کسی سواری کو بٹھا کر پورا کررہے ہےں۔پاکستانی معیشت کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہےں ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں جہاں ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے وہی پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کو چکرا کے رکھ دیا ہے۔ ہر طرف روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی تکرار ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔لوگ حیران ہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی پہ ہر ذہن میں ایک ہی سوال ہے آخر اس مہنگائی کی کیا وجہ ہے؟ موجودہ حکومت عوام سے وعدے اور دعوے کر کے ووٹ تو لے چکی لیکن تبدیلی سرکار نے عوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ کوئی وعدہ وفا نہ ہوا اور غریب عوام کو کوئی ریلیف نہ فراہم ہوسکا۔ ایسے میں عوام جائے تو کہاں جائے؟اگر پچھلے ادواروں کی بات کی جائے تو اس سے پہلے حکومتوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب سے پاکستان بنا ہے کسی بھی حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا، آخر یہ مہنگائی ہوئی کیوں؟ کون سی غلط پالسیاں تھی جنہوں نے اس ملک کی معشیت کا بیڑہ غرق کردیا؟مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کونگل رہا ہے۔ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک وفلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں مہنگائی کے آسیب نے خوفناک صورتحال سے عوام کو دوچار کر دیا ہے۔ اس خوفناک صورتحال نے پاکستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔تعلیم، ادویات، کرایے اور روز مرہ کی اشیا غریب کی دسترس سے بالا تر ہوتی جارہی ہیں۔ نہ صحت، نہ تعلیم اور نہ رہائش، آخر غریب کے لیے ہے کیا؟ مہنگائی کے باعث کئی افراد خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک کے غریب افراد مجبورا اپنے گردے فروخت کرتے ہیں جبکہ غربت اورمہنگائی کی وجہ سے کئی غریب والدین نے اپنے بچوں کے گلوں پر چھریاں چلا کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے۔مہنگائی کی اس خوفناک اور وحشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کی عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق دنیا بھر میں اشیا خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ ان چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔عالمی سطح پر مہنگائی کا بول بالا ہے لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک پاکستان میں خوردنی اشیا مثلا سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جو غریب عوام سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے، ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔دنیا نے مارکیٹ کھلی چھوڑ کر اس میں مسابقت کا رجحان پیدا کیا ہے جو پاکستان میں بالکل نہیں ہے۔مثال کے طور پر اگر سبزی پچاس روپے کلو ہے تو عوام کو زیادہ سے ذیادہ پچپن روپے کلو ملنی چاہیئے لیکن یہاں ایسا نہیں پچاس روپے کلو درآمد کی جاتی ہے جبکہ ایک سو پچاس میں ہم جیسی عوام کو ملتی ہے ،آڑھت کو درمیان سے نکال دےں تو صارف کو سستے دام سبزی با آسانی مل سکتی ہے۔اسی طرح اور بہت سی چیزیں ہیں جس میں آڑھت مافیا بنا ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان کو اپنی بڑی بڑی سپر مارکیٹ چینز بنانا ہوں گی۔ہم سمجھتے ہےں کہ مہنگائی کے خاتمے کے لے حکومت کو ترجےحی بنےادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکےں۔
