چےن اور گلگت بلتستان میں ریجنل گرڈفیز ون کے معاہدے پر دستخط ہوگئے،ےہ منصوبہ نوارب کی لاگت سے تےن سال کے عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ محکمہ برقیات کی طرف سے پروجیکٹ ڈائریکٹر کریم خان، سلطان محمود اینڈ سنز کے ایم ڈی بابر محمود شاہ جہاں اور چائینیز کمپنی ایس ٹانگ کے مابین دستخط ہوئے گلگت بلتستان ریجنل گریڈ فیز ون کی تکمیل سے پہلے مرحلے میں گلگت،نگر اور ہنزہ کو انٹر لنک کیا جائے گاجس ضلع میں بجلی کی پیداوار زیادہ ہوگی وہاں سے اضافی بجلی کو دوسرے اضلاع میں لاےا جائے گا جہاں پہ بجلی کی کمی کا سامنا ہوگا۔ اس طرح بجلی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ نو ارب کی لاگت سے بننے والا یہ پراجیکٹ 2026 تک تےن سال کی مدت میں پورا کیا جائیگا۔ جس سے پہلے فیز میں تےن اضلاع مستفید ہوں گے ۔چےن اور گلگت بلتستان میں ریجنل گرڈ فیز ون کے معاہدے پر دستخط خوش آئند ہےں ماضی میں بھی اس حوالے سے باز گشت سنائی دےتی رہی ہے۔ فیڈرل پی ایس ڈی پی منصوبوں کے حوالے سے مقررہ ٹائم لائن پورا نہ کرنے والے پروجیکٹ ڈائریکٹرز کیخلاف کارروائی عمل میں لانے کا کہا گےا ‘گلگت بلتستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے انتہائی اہمیت کے حامل پی ایس ڈی پی فنڈڈ دو بڑے منصوبوں ریجنل گرڈ سٹیشن فیز ون اور چھبیس میگا واٹ شغرتھنگ پاور پراجیکٹ کو وفاقی وزیرترقیاتی منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں منعقد ہونے والے سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ گروپ میں اصولی منظوری دی گئی اور حتمی منظوری کیلئے ایکنک بھیجنے کی سفارش کی گئی تھی۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے اس ضمن میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت بلتستان جیسے پاکستان کے اہم اور دشوار گزار خطے میں اب تک ریجنل گرڈ سسٹم کا نہ ہونا ایک المیہ ہے جسکی وجہ سے یہاں کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اعصاب شکن توانائی بحران کا شکار ہیں۔ گرڈ کے قےام سے گلگت بلتستان میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی سے ملک کے دیگر صوبے بھی مستفید ہوں گے۔شغر تھنگ چھبیس میگاواٹ پاور پراجیکٹ کے حوالے سے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے بتایا کہ یہ منصوبہ بلتستان ریجن بالخصوص ضلع سکردوسے ملحقہ آبادی کو توانائی بحران سے نجات دلانے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سکردو شہر لوڈ شیڈنگ سے پاک ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں نہ صرف عوام کو اعصاب شکن لوڈشیڈنگ سے نجات ملے گی بلکہ بلتستان کے علاقوں میں سیاحت اور صنعتی ترقی کو بھی دوام حاصل ہو گا جس سے لوگوں کی سماجی معاشی حالت بہتر ہو گی۔جب وفاقی وزارت ترقیاتی منصوبہ بندی کے اہم اجلاس میں جب ےہ منصوبے منظور ہوئے تو کہا گےا کہ ان منصوبوں پر ایکنک کی حتمی منظوری کے بعد تیزی سے عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا اور سترہ ارب روپے کی لاگت سے ریجنل گرڈ فیز ون سکیم منصوبہ اگلے تےن سالوں میں پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ چیف سیکرٹری نے مزید بتایا تھا کہ جی بی میں پاور پراجیکٹس سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔چیف سیکرٹری نے کہا تھا اس منصوبے کی تکمیل سے گلگت بلتستان حکومت کو پاور سیکٹر میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔ شغرتھنگ چھبیس میگاواٹ پاور پراجیکٹ کے حوالے سے چیف سیکرٹری نے بتایا کہ یہ منصوبہ بلتستان ریجن بالخصوص ضلع سکردو سے ملحقہ آبادی کو توانائی بحران سے نجات دلانے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سکردو شہر لوڈشیڈنگ سے پاک ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں نہ صرف عوام کو اعصاب شکن لوڈشیڈنگ سے نجات ملے گی بلکہ بلتستان کے علاقوں میں سیاحت اور صنعتی ترقی کو بھی دوام حاصل ہو گا۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور نے گلگت بلتستان کی اہمیت اور سرمایہ کاری و روزگار کے مواقع میں نمایاں اضافہ کیا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال مزید بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ سی پیک نے اس خطے کو ایک نئی پہچان دی ہے، اس منصوبے کے تحت انڈسٹریل اور اکنامک زونز لگائے جارہے ہیں جو اس علاقے کے لوگوں کو خوشحال کریں گے۔ توانائی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ، یہاں پہلے گرڈ سٹیشن کے قیام کے لیے کام ٹینڈر کی سطح پر ہے۔ ماضی میں دیامیر بھاشا پر سنجیدگی سے کام نہیں ہوا مگر اب صورتحال مختلف ہے 4500 میگاواٹ، 7500میگاواٹ اور 5000 میگاواٹ کے دیامیربھاشا، بونجی اور داسو منصوبوں کی تکمیل سے وافر سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ گلگت بلتستان کا خطہ سوشیو اکانومی، توانائی کی پیداوار ، معدنیات اور جغرافیہ ہر حوالے سے بہت اہم ہے۔ سی پیک کے تحت گلگت بلتستان میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے حوالے سے بہت بہتری آئے گی، کچھ میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔ گلگت بلتستان میں آبی ذرائع سے وافر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، حکومت گلگت بلتستان میں ریجنل گرڈ بناکر اسے پاور سائٹس سے منسلک کردے تو بڑے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ گلگت بلتستان کے ہائیڈرو انرجی، ڈرائی فروٹ، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے خزانے موجود ہیں جن سے اگر پوری طرح استفادہ کیا جائے تو اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری سے صرف اس علاقے ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کا بھرپور فائدہ ہوگا۔ قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کے شعبے میں ویلیوایڈیشن سے بھاری قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ہائیڈل ذرائع سے بجلی پیدا کرکے توانائی کے بحران سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔گلگت بلتستان وہ خوش قسمت خطہ ہے جہاں دیگر قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ ستر ہزار سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران کا خاتمہ گلگت بلتستان سے بجلی پیدا کر کے نہ صرف ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ ہم باہر بجلی کی سپلائی دے سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان نیشنل گرڈ کے ساتھ منسلک نہیں اور نہ ہی ریجنل گرڈ بنا ہے جس کی وجہ سے ہم ایک ضلع سے دوسرے ضلع کو بجلی فراہم نہیں کی جا سکتی ہے ‘کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی اور ایکسپورٹ کے فروغ میں اسپیشل اکنامک زونز اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں پہلا اسپیشل اکنامک زون 1959 میں چین کے شہر شینان میں قائم کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت 130ممالک میں 4300 اسپیشل اکنامک زونز قائم ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے اِن زونز کو بندرگاہوں کے قریب قائم کیا جاتا ہے اور زونز میں قائم کمپنیوں کو ٹیکس مراعات دی جاتی ہیں۔ دنیا میں چین میں سب سے زیادہ 1800 اسپیشل اکنامک زونز ہیں جنہوں نے 1980 سے چین کی صنعتی ترقی اور ایکسپورٹس میں اضافہ کیا ہے۔ 1979میں اکنامک ریفارمز سے پہلے چین کی فی کس آمدنی پاکستان کی فی کس آمدنی سے کم تھی لیکن آج چین کی فی کس آمدنی 8069 ڈالرتک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1400 سے 1500 ڈالر تک محدود ہے۔ پاکستان نے سی پیک میں 37اسپیشل اکنامک زونز تجویز کئے تھے لیکن نو زونز کی منظوری ہوئی ہے جس میں دھابیجی ٹھٹھہ، رشکئی خیبرپختونخوا، پورٹ قاسم کراچی، آئی سی ٹی ماڈل انڈسٹریل زون، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی، موکپونداس گلگت بلتستان، میرپور اسپیشل اکنامک زون، بوستان انڈسٹریل زون اور مہمند ماربل سٹی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں چاراسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جائیں گے جن میں سے تےن پر کام شروع کیا جاچکا ہے جن میں خیبرپختوامیں رشکئی اکنامک زون، فیصل آباد اور کراچی کے قریب دھابیجی اسپیشل اکنامک زونز شامل ہیں۔ پاکستان میں اب تک ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون کا تجربہ کامیاب نہیں رہا ،دیگر ممالک کی طرح ہم ان زونز کے ذریعے ایکسپورٹ اور بیرونی سرمایہ کاری نہیں بڑھا سکے۔چین اور مراکش کی طرح بنگلہ دیش نے بھی اسپیشل اکنامک زونز کے ذریعے ایکسپورٹ میں اضافہ کیا ہے جن میں چٹاگانگ اسپیشل اکنامک زون قابل ذکر ہے۔میں نے پارلیمانی کمیٹی کے اعلی عہدیداران کو بتایا کہ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون، پورٹ قاسم کراچی سے22کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر قائم ہے جو پورٹ کی سہولت کےپیش نظر کارمینوفیکچررز کیلئے پرکشش ثابت ہوسکتا ہے۔ پورٹ قاسم میں ٹیکسٹائل سٹی کا پروجیکٹ کئی دہائیوں سے گیس کی عدم دستیابی کے باعث بند کرنا پڑا ہے لہذا دھابیجی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی کامیابی کیلئے بجلی، گیس، پانی کی سپلائی اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے جدید انفراسٹرکچر کا ہونا ضروری ہے۔ چین کی کامیابی کی ایک وجہ اس کی صنعتوں کا بڑا اکانومی آف اسکیل ہونا بھی ہے چین میں ایک اسپننگ مل کا سائز دس لاکھ اسپنڈلز ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں بڑے سے بڑی اسپننگ مل ایک لاکھ اسپنڈلز کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے چین کی مینوفیکچرنگ لاگت پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔ چین کا گلوبل مارکیٹنگ نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے لےکن صنعتوں کے لےے بجلی کی ضرورت کے مطابق پےداوار انتہائی ضروری ہے جس کے لےے گلگت بلتستان سے فائدہ اٹھا کر وہاں گرڈ سٹےشنز کا قےام ام حد ضروری ہے۔
