انتخابات کی بازگشت

ملک میں اےک بار پھر انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے سےاسی پارٹےوں کی جانب سے جلد انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کےا جا رہا ہے‘انتخابات کے حوالے سے مختلف آراءسامنے آ رہی ہےں جن میں انتخابات کے انعقاد اور تاخےر کے حوالے سے اپنے خےالات کا اظہار کےا جا رہا ہے ۔ملک کی معیشت اس وقت جمود کا شکار ہے۔ اشیائے خورونوش کی بڑھتی قیمتوں، مہنگائی، تنزلی کے شکار روپے اور توانائی کی قلت نے ایک معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔سیاسی طور پر بھی پاکستان اس وقت دو سیاسی کیمپوں میں تقسیم نظر آ رہا ہے اور ایسے میں سیاستدان ایک دوسرے پر غدار، بیرونی ایجنٹ اور کرپٹ مافیا جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان گرفتاری سے قبل کہہ چکے ہےں کہ پاکستان کے تمام سیاسی اور معاشی مسائل کا حل جلد از جلد نئے انتخابات کے انعقاد میں ہے۔ اپنے ایک خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا ہماری معیشت اور مزید نیچے جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہی راستہ ہے اب اور وہ ہے صاف اور شفاف انتخابات۔ےہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پانچ سال کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے والی ایک نئی سیاسی جماعت، ضروری نہیں کہ معاشی استحکام بھی لے آئے۔ مارکیٹس واضح حالات کا تقاضا کرتی ہیں اور پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں بنایا ہوا کہ اگر وہ الیکشن جیت جاتی ہیں تو وہ معیشت کو کیسے چلانا چاہتی ہیں۔ جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ مثلا ٹیکس یا انفراسٹرکچر کی ترقی یا زراعت کے ضمن میں کون سی پالیسیاں مرتب کرے گا؟ ان کا وزیر خزانہ کون ہو گا؟ ان تفصیلات پر بات کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ تفصیلات کسی سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ سے پوچھیں گے تو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ ایک اور مسئلہ جو مارکیٹس میں بہت زیادہ الجھن کا باعث ہے وہ یہ کہ اس وقت معیشت چلا کون رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہیں جن کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ ساختی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے ۔شاید نئے انتخابات سے کچھ قلیل مدتی معاشی استحکام آ جائے لیکن اگر مصنوعات اور تیل کی قیمتوں سمیت لوڈ شیڈنگ ایسے ہی رہی تو کوئی بڑا اثر نہیں آئے گا۔پاکستان آج جہاں کھڑا ہے اس میں قلیل مدتی استحکام نامی کوئی شے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ نئے انتخابات سے کیا پاکستان استحکام کی طرف جائے گا یا مزید غیر مستحکم ہو جائے گا؟ کم از کم انتخابات سے تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا تو ادراک ہو جائے گا کہ وہ کہاں کھڑی ہیں۔لیکن یہاں ایک سوال اور سامنے آتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات کا نتیجہ ماننے سے انکاری ہو گئی تو؟پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان تو پہلے ہی ملک کے چیف الیکشن کمشنر پر تعصب اور اپنی حریف جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگا چکے ہیں۔ وہ بارہا یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ موجودہ الیکشن کمشنر کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتا تو پھر سیاسی عدم استحکام کا ایک اور دور ہوگا۔ پی ٹی آئی نے تاریخی طور پر انتخابی نتائج کو تباہ کن طریقوں سے چیلنج کیا ہے۔ نئے انتخابات سے معاشرے میں مزید پولرائزیشن اور عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ پی ٹی آئی کہتی رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں معیشت پہلے ہی سے درست سمت میں جا رہی تھی۔ معیشت ترقی کر رہی تھی ، برآمدات بڑھ رہی تھیں، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کم تھا، تمام معاشی اشاریے مثبت تھے لیکن پھر یہ سپیڈ بریکر آیا جس نے معیشت کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ملک میں سیاسی عدم استحکام براہ راست معیشت پر اثر ڈال رہا ہے اور مارکیٹ میں الجھن پھیلا رہا ہے۔ لیکن محض الیکشن کروانے سے تو معاملات حل نہیں ہوں گے۔ جب تک صاف شفاف انتخابات نہیں ہوتے سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔کیا 2013 میں الیکشن نہیں ہوئے، کیا اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اس وقت الیکشن نہیں ہوئے، کیا اس سے پہلے جب صدر پرویز مشرف تھے اس وقت الیکشن نہیں ہوئے اور کیا 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اس وقت الیکشن نہیں ہوئے۔ اےک موقف ےہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوری طور پر شفاف انتخابات ہیں یہ معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ درحقیقت مسائل کا حل انتخابات نہیں بلکہ انتخابات ہی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ انیس سو ستاسی سے لے کر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اور انتخابات کے نتیجے میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت بہت کمزور ہوئی ہے۔ انیس سو ستاسی سے پہلے کا پاکستان اور 2023 کا پاکستان بہت مختلف ہے۔ آج لوگوں کی زندگی 1987 سے زیادہ مشکل نظر آتی ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک شخص کام کرتا تھا اور سارا خاندان آرام کرتا تھا گھر آسانی سے چلتا تھا تھا آج سارا خاندان کام کرتا ہے لیکن گھر کیسے چلے یہ کسی کی سمجھ میں نہیں ہے۔کراچی میں ابھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں وہاں ہارنے کے بعد تحرےک انصاف اور جماعت اسلامی نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ آنے والے انتخابات میں بھی اگر یہ یہ جیت نہیں پاتے تو پھر یہی رونا ہو گا کہ مینڈیٹ چرا لیا گیا، انتخابات شفاف نہیں تھے، ادارے نیوٹرل نہیں تھے۔ اس لیے یہ طے ہے کہ نئے انتخابات سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کرے گا، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انداز میں کام کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ ملک کو دلدل سے نکالنے کیلئے الیکشن کے علاوہ اگر کوئی اور راستہ ہے تو بتادیں۔عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ویسے تو ملکی مسائل کا واحد حل فوری اور شفاف انتخابات ہیں اگر الیکشن کے علاوہ بھی ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی راستہ ہے تو وہ بتادیں۔بعض حلقوں کا ےہ کہنا ہے کہ بروقت اور منصفانہ انتخابات دیگر کئی اچھی وجوہات کی بنا پر ناگزیر ہیں۔ اس سے اعتدال پسند قومی روش کو منظم اور برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور سیاست میں ریاستی اداروں کے اثر و رسوخ کو کم کیا جائے گا۔ ایک قابل اعتماد حکومت کو بڑی طاقتیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں جو اس کی معاشی بحالی کی حمایت کرنے پر مائل ہوتی ہیں۔ الٹ بھی اتنا ہی سچ ہے کیونکہ وہ متزلزل اور عبوری انتظامات سے بے چین ہیں۔اسی طرح اگر پاکستان کو بدلنا ہے تو بیوروکریسی اور عسکری قیادت کو اندر کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کی تقسیم کے انتظامات میں، ناکامیوں اور ناکامیوں کی واضح طور پر نشاندہی کرنا مشکل ہے کیونکہ قومی طاقت بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں شفافیت کا فقدان ہے اور یہ آئین اور اچھی طرح سے ثابت شدہ جمہوری طریقوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔مناسب احتساب کے بغیر، یہ سب کے لیے مفت ہے جیسا کہ ہم نے برسوں سے دیکھا ہے۔ یہ افسانہ کہ کوئی ایک ادارہ کارکردگی اور دیگر صفات کے لحاظ سے دوسرے سے برتر ہے جیسا کہ تجربہ نے دکھایا ہے۔ جب کمی ہوتی ہے تو یہ عملی طور پر وسیع ہوتی ہے۔ اسی طرح، جب معاشرے میں ترقی اور تحرک ہوتا ہے، تو یہ عام طور پر سب کا احاطہ کرتا ہے۔بیوروکریٹس میں عام طور پر سیاستدانوں کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ یہ فطری ہے لیکن معیار پیشہ ورانہ کارکردگی اور قابلیت ہونا چاہیے نہ کہ نسلی، صوبائیت یا سیاسی جھکاﺅ کا۔ سیاست دانوں کو بدلنا ہوگا کہ وہ بیوروکریٹس کے ساتھ کس طرح برتاﺅ کرتے ہیں اور انہیں سیاست میں نہیں کھینچتے۔ اس کے برعکس، ہم وفاقی اور صوبائی سطح پر جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوروکریٹس کو اکثر ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے، حالانکہ وہ غیر سیاسی ہوتے ہیں۔پاکستان میں یہ یاد کرنا مشکل ہے کہ کیا کبھی کوئی حکومت شہریوں پر مرکوز رہی ہے۔ لوگوں نے بنیادی طور پر نجی فلاحی تنظیموں پر انحصار کیا ہے اور وہ مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر ہیں۔ بدقسمتی سے، ان اداروں کی صلاحیت سکڑتی جا رہی ہے کیونکہ معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ قدرتی آفات کے علاوہ پاکستان کو متعدد سےکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے جن کا ملک کے استحکام اور معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ریاست کی سالمیت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن گئی ہے۔ اگرچہ اس کے زیادہ تر عسکریت پسند گروپ افغانستان میں مقیم ہیں، یہ کے پی اور مزید جنوب اور مشرق میں قبائلی پٹی کے سابقہ حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب افغان طالبان کی قیادت کا دھیما رویہ اور مبہم پالیسی واضح طور پر عسکریت پسند گروپ کے حق میں جھکتی ہے۔بظاہر، یہ ایک واپسی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی امریکی قبضے کے خلاف اپنی لڑائی کے دوران ہتھیاروں میں ان کا ساتھی رہا۔ اس نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پاکستان، چین کے ساتھ ساتھ، ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پابندیاں ہٹانے کی حمایت کی اور طالبان کو مالی امداد دینے کے لیے مہم چلائی ۔حکومت پاکستان کو حرکی قوت کے استعمال کے علاوہ سابقہ قبائلی علاقوں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ غربت، ناقص گورننس اور پریشان کن سرحدی حالات نے سمگلنگ اور اسمگلنگ کو جنم دیا ہے جس کا بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ہم سمجھتے ہےں کہ ملکی مسائل کا واحد حل شفاف انتخابات میں ہے اس لےے اس ضمن میں جلد اقدامات کی ضرورت ہے۔