گلگت بلتستان کے گورنر مہدی شاہ نے کہا ہے کہ علاقے میں امن کے لئے مذہبی جماعتیں کردار ادا کریں حکومت کی اولین ترجیح علاقے میں امن وامان کو یقینی بنانا ہے اس مقصد کے لئے حکومت تمام وسائل استعمال کرے گی، گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ سے جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا عبدالسمیع کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی۔ملاقات کے دوران گلگت بلتستان میں جاری کشیدگی اور امن و امان کے لئے ضروری اقدامات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شا ہ نے کہا علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لئے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اپنا کردار ادا کریں۔جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا عبدالسمیع نے گورنرمہدی شاہ سے کو کہا کہ گلگت بلتستان کے تجربہ کار سیاست دان اور گورنر ہونے کے ناتے آپ اس کشیدگی پر قابو پا نے کے لئے کردار ادا کریں ،جماعت اسلامی کے امیر نے تجویز دی کہ تمام مکاتب فکر کے علما و اکابرین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور امن وامان کے لئے گرینڈ جرگہ بلایا جائے جس میں تمام مکاتب فکر کے نمائندوں ،سیاسی ومذہبی رہنماں کو موعوکیا جائے،گورنر نے مولانا عبدالسمیع کی تجویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی تجویز اچھی ہے اس پر غورکیا جائے گا۔ معاشرے میں امن و امان کا قیام صرف حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے عوام کی بھی اِس ضمن میں اہم ذمہ داری ہے۔ بے شک قیام ِ امن کے ضمن میں حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داریاں اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اِس سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پرافرادِ معاشرہ کے اپنے اوپربھی عائد ہوتی ہے ،جس کی منطقی وجوہات یہ ہیں کہ یہ ان کے اپنے ہی تحفظ کے لئے ہے، اِس لئے وہ اِس سے پہلو تہی نہیں کر سکتے اور یہ کہ وہی اپنے قرب و جوار میں رہنے والوں اور گردوپیش کے ماحول کو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ایجنسی کی نسبت زیادہ بہتر طور پر دیکھتے ، جانتے اور سمجھتے ہیں۔ حکومت اور حکومتی اداروں کا کام دراصل معاشرے کو اس کی اِس بنیادی ذمہ داری کی انجام دہی کے سلسلے میں تعاون اور پشت پناہی فراہم کرناہے ،پھرایک حد کے بعد معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لینا ہے،یعنی اطلاع ملنے پر مشتبہ افراد یا ملزمان کی گرفتاری ، تحقیق و تفتیش اورقصورواروں کو جزا وسزاکے لئے عدالت کے سپرد کرنا وغیرہ ۔پاکستان میں مروجہ نظام فوجداری و انصاف میں قانون کے نفاذ کی ذمہ داری کے لئے قائم کئے گئے اداروں میں پولیس سب سے اول اورسب سے نمایاں ہے ۔ اس پولیس کے قیام ، نظم و ضبط، تعلیم و تربیت اور عملی کام کے طریق کار کی وضاحت کے لئے دو ہزار صفحات سے زائد پر مشتمل قواعد پولیس مرتب کئے گئے ہیں۔پاکستان کا فوجداری نظام اور قواعد پولیس دونوں کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ امن ِ عامہ کو قائم کرنے کی ذمہ داری بنیادی طورپر معاشرے کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے ۔ پولیس کا کام شہریوں کی اس بنیادی ذمہ داری کی انجام دہی میں ان کی مدد اور پشت پناہی ہے ۔دفعہ 42کے مطابق ہر شخص اس امر کا پابند ہے کہ جب کبھی مجسٹریٹ یا پولیس افسرکسی بھی ایسے شخص کے گرفتار کرنے یا فرار ہونے سے روکنے میں، جس کو وہ مجسٹریٹ یا پولیس افسر گرفتار کرنے کا مجاز ہو، اور نقص امن کو روکنے یا انسداد کرنے میں یا کسی مال سرکار کو نقصان سے بچانے میں اس کی مدد طلب کرے تو وہ اس کی مدد کرے ۔اسی طرح ضابطہ فو جداری کی دفعہ 44ہر شہر ی کو پابند کرتی ہے کہ وہ مجموعہ ِتعزیراتِ پاکستان میں درج کوئی دو درجن سے زائد دفعات کے تحت جرم کے ارتکاب یا ارتکاب کا ارادہ کرنے والے کے بارے میں نزدیک ترین مجسٹریٹ یا پولیس افسرکو فورااطلاع کرے ۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 59ہر شہری کو پابند کرتی ہے کہ وہ ایسے شخص کو گرفتار کرے جواس کے سامنے کسی ناقابل ِ ضمانت اورقابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کر رہا ہو، یا جو مجرم اشتہاری ہو ،او ر اسے غیر ضروری تاخیر کئے بغیر فوراکسی قریبی پو لیس افسر یا قریبی پولیس اسٹیشن کے حوالے کرے ۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 187 یہ کہتی ہے کہ اگرکوئی شہری کسی سرکاری ملازم کی اس کے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران مدد طلب کر نے پر مدد نہ کرے تو اسے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں ۔ شہریوں کا امن و امان کے قیام اورجرائم کے روک تھام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز کرنا اور صرف حکومت اور حکومتی اداروں سے ہی توقع اور تقاضا کرنا کہ وہی معاشرے اور شہریوں کو تحفظ دیں، دینی ، قانونی اور اخلاقی طورپرغیرمنطقی اور غیرمناسب ہے۔اپنے گھرکو آگ لگی دیکھ کر اگر آپ خود اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان و مال کوبچانے کے لئے دیوانہ وار اِس آگ کو بجھانے کی کوشش نہیں کرتے اور توقع کرتے ہیں کہ اہل محلہ کے چندوں سے رکھا گیا چوکیدار یاسیکیورٹی گارڈ ہی آپ کے گھر کو بچائے اور آپ خود سڑک کنارے کھڑے ہو کراپنی بربادی کا تماشہ دیکھیں اور بہتر طورپر کام نہ کرنے پر محض چوکیدار کودور کھڑے برا بھلا کہتے رہیں تو پھر اہل محلہ اور دیگر لوگ بھی آپ کی مدد کو نہیںبڑھیں گے کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے اور اس چوکیدار کو بھی۔دنیا بھرمیں جہاں کہیں امن وامان کی بہتر صورتِ حال دیکھی گئی وہاں یہی دیکھا گیا کہ معاشرہ اپنے تحفظ کے لئے خود زیادہ حساس ،متحد اور مستعد ہے ۔آج ہمیں وہ برداشت کرنا ہے جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے اور آج ہمیں وہ تسلیم کرنا ہے جسے ہمارے دل و دماغ تسلیم نہیں کرنا چاہتے ۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی اور قومی یکجہتی کا فقدان ہے۔ ہر طرف مفادات کی جنگ ہے۔ تصحیح کے پردے میں تخریب کی کوششیں عروج پر ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی باہمی کشمکش نے بھی بدامنی کی فضا پیدا کررکھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش نے امن کو پاکستانی عوام سے متنفر کردیا ہے، ملک کی اشرافیہ نے غریبوں کے استحصال اور مہنگائی کے عفریت نے باہمی نفرتوں کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ہر طبقہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرداں ہے، ہر شخص اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے، اجتماعی مفاد، اجتماعی ترقی اور قیام امن کیلئے سوچنے کو کوئی تیار نہیں۔ اس وقت ملک میں قیام امن کے حوالے سے ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ ناخواندگی عروج پر ہے، سیاسی شعور کا فقدان، مطلق العنان حکومتیں، مخصوص طبقے کا سیاسی تسلط، نسلی و لسانی اختلافات، معاشی پسماندگی، تہذیبی وثقافتی اختلافات، علاقوں کی مساویانہ ترقی کا فقدان اور ان جیسے لامحدود مسائل نے پاکستان اور امن کے درمیان ایک حد فاصل لاکھڑی کر دی ۔ اب ارباب اختیار اور ملک وقوم کا درد رکھنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ وطن عزیز کے تحفظ وسلامتی اور بقا واستحکام اور اس ملک میں امن کے قیام کیلئے نہ صرف ان رکاوٹوں کو دور کریں بلکہ ایسے اقدامات بھی کریں جن سے پوری قوم ایک لڑی میں پروئی ہوئی نظر آئے۔ اس کیلئے ہمیں خواندگی میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ پڑھے لکھے لوگ سامنے آئیں اور امن کی فضا پیدا کریں۔ تمام علاقوں کی مساویانہ ترقی کیلئے کام کرنا ہو گا، صحیح معنوں میں جمہوریت کا قیام، مخصوص طبقوں کی اجارہ داری کا خاتمہ، قومی اداروں کو مضبوط بنانا، یکساں حقوق کی فراہمی، معاشرتی عدل وانصاف کا قیام، اسلامی تعلیمات کا فروغ، معاشی آسودگی، بین الصوبائی کھیلوں کا فروغ اور اپنے قومی اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔فروغ امن اور ملک میں امن کے قیام کیلئے ہمیں چاہیئے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں، حقیقت کی آنکھ سے حالات کا مشاہدہ کریں اور آئندہ بیس تیس سال کی امن پالیسی وضع کر کے اس میں جت جائیں۔ جب تک قوم کا ہر فرد پر امن نہیں ہو گا اور امن کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کریگا اس وقت تک تبدیلی نہیں آئیگی۔ ہمیں اپنی سوسائٹی اور معاشرے میں امن کلچر کو پروموٹ کرنا ہوگا۔ اگر ہم، ہمارے حکمران اور ہمارے عوام واقعی چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی اور بدامنی سے جان چھڑا کر ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ کی بنیاد رکھیں تو اس کیلئے ہمیں آئندہ بیس سال کیلئے امن کو فوقیت دینا ہو گی۔ اگر ہم نے اب بھی معاشرہ میں امن و آشتی کے قیام کا فیصلہ نہ کیا تو پھر یاد رکھنا یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا نہ دہشت گردی ختم ہو گی، نہ خودکش حملے رکیں گے، نہ اقتصادی خوشحالی آئیگی۔گرینڈ امن جرگے کا قیام امن کی بنیاد بن سکتا ہے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو عوام کے ساتھ مل کر فیصلہ کن اور نتیجہ خیز اقدامات کے ذریعے امن کے قیام کو ممکن بنانا ہو گا اس حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے کر اس پر ہر صورت عملدرآمد ہی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔