فوج کی طلبی کا عندیہ :چہ معنی دارد

وزیر اعلی گلگت بلتستان کی زیر صدارت خطے کی موجودہ مجموعی صورتحال کے حوالے سے اہم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ خطے کی مجموعی صورتحال اور قیام امن کیلئے فوج طلب کی جائے گی،اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے بڑے شہروں میں رینجرز،جی بی اسکاﺅ ٹس اور ایف سی اہلکار تعینات کئے جائیں گے۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی مسلک کے عقائد اور مقدس شخصیات کی عوامی جلسوں میں توہین پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی،حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے اور سیاحتی سرگرمیوں کو ہر حال میں جاری رکھنے کے لئے تمام تر اقدامات اٹھائے گی،اس سلسلے میں محکمہ داخلہ گلگت بلتستان نے غیر قانونی اجتماعات اور روڈز بلاک کرنے پر فوری طور پر دفعہ 144 کا اطلاق کر دیا ہے، صوبائی حکومت نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی سے سختی سے نمٹا جائے گا،خطے کے مثالی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت گلگت بلتستان اقدامات کررہی ہے۔عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں۔صوبائی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ خطے میں امن و بھائی چارے کی فضاکو نقصان پہنچانے والی کسی بھی طرح کی شر پسندی کو عوام مسترد کریں گے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے امن کے درپے عناصر کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ےہ حقےقت ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتبِ فکر میں عقائد کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ فروعی اختلافات صرف جزئیات اور تفصیلات کی حد تک ہیں جن کی نوعیت تعبیری اور تشریحی ہے۔ اس لئے بنیادی عقائد کے دائرہ کو چھوڑ کر محض فروعات و جزئیات میں الجھ جانا اور ان کی بنیاد پر دوسرے مسلک کو تنقید کا نشانہ بنانا کسی طرح دانشمندی اور قرینِ انصاف نہیں۔اس فروعی تقسیم اور بعض اوقات شدید رد عمل کے باوجود بھی مسلم دنیا کا اتحاد غیر معمولی رہا ہے۔اسلام ہرگز مختلف فرقوں میں تقسیم نہیں ہے کم و بیش تمام مسلمانوں میں بنیادی قدریں مشترک ہیں۔اگرچہ قدیم علما کے درمیان بہت زیادہ اختلافات اور علمی مناظرے اور مباحث ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود مسلم دنیا علم و معرفت اور ثقافتی اور تکنیکی ترقیوں کا عظیم مینار رہی ہے۔ ان میں موجود اختلافات، افتراق و انتشار پھیلانے کا باعث نہیں بنے تھے۔ جب کہ آج صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ امتِ مسلمہ من حیث الکل باہمی افتراق و انتشار کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ انتہا پسندی اور اختلافِ رائے کا احترام نہ کرنا ہے۔ ہر شخص اور مکتبہ فکر خود کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو غلط کہہ رہا ہے۔ہمارے ہاں انتہا پسندی کے سفر کی ابتدا یہ تھی کہ دوسرے مسالک کے لوگوں کو کافر و مشرک قرار دیا جائے۔ پھر اپنے مسلک کے غلبے کی خواہش نے انہیں اسلام کے اجتماعی مفاد اور تحفظ سے یکسر غافل کر دیا۔ وہ اپنے مسلک اور عقائد کے غلبے کو ہی اسلام کے غلبے سے تعبیر کرنے لگے اور اس کی راہ میں حائل ہونے والے ہر عقیدے اور مسلک کو فتوی کی مشینوں اور اسلحہ کے زور سے ختم کرنے میں لگ گئے۔ یہی سوچ اور عمل بڑھتے بڑھتے دہشت گردی پر جا کر منتج ہوا۔ طرزِ فکر و عمل وہی تھا، مگر نئے حالات میں سمت اور اہداف بدل گئے۔ اس وقت مفسدین کی مسلح آویزش، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلام کے تحفظ اور ملتِ اسلامیہ کی سلامتی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔اس صورتِ حال کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کو اقوام عالم میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں رہا جو مسلمانوں کے شاندار ماضی میں امت کو نصیب تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اختلاف و نزاع اور تفرقہ پروری کے نتیجے میں قوموں کا وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے اور دشمنوں کی نظر میں ان کی حیثیت بالکل گر جاتی ہے۔جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کماحقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئے موثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے گرد و پیش تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں،انکی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور انتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودت اخوت و یگانگت، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن سعی کریں کہ اسی میں ہماری بقا اور فلاح و نجات مضمر ہے۔ہمےں جان لےنا چاہےے کہ اختلاف، انسانی زندگی کا حصہ ہے اگر اس اختلاف کو افرادِ معاشرہ خندہ پیشانی سے تسلیم کریں اور دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے ان کی رائے کا احترام کریں تو اس عمل سے سوچ اور عمل کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور دوسروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت میں اختلاف باعثِ رحمت رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی اختلاف کو عقیدے کا مسئلہ بنا کر خود کو حق پر سمجھتے ہوئے دوسروں کو کافر و مشرک سمجھا جانے لگے تو ایسی صورتِ حال انتشار، افتراق اور بدامنی کو جنم دیتی ہے اور یہ اختلاف باعثِ زحمت ثابت ہوتا ہے، لہذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ باہمی تفرقہ اور انتشار کا شکار رہنے کی بجائے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور ایک دوسرے کے اختلافات کو مخالفت اور تنازعات میں نہ بدلے بلکہ اختلافِ رائے کا احترام کرتے ہوئے دینِ اسلام کے فروغ کے لیے اپنی کاوشوں کو صرف کرے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کے لیے اسلامی تاریخ کے قرونِ اولی و و سطی میں ایک قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں پر زوال آتا ہے، ان میں سے بہت سی اپنی فکری اور عملی تربیت کو درست سمت دے کر اپنے سیاہ دور سے نکل بھی جاتی ہیں۔ لمحہ فکریہ وہ ہوتا ہے جب کئی سو سال تک دنیا کے مختلف حصوں پر حکمرانی کرنے اور علم و دانش کا گہوارہ مانی جانے والی کوئی قوم ایسی تنزلی کا شکار ہو جائے کہ وہ اپنا اجتماعی اور انفرادی وقار کھو بیٹھے۔ پھر ایسی کوئی قوم شکست و ریخت کا شکار تو ہو مگر اسے یہ ادراک بھی نہ ہو کہ اس کا دھارا کس سمت بڑھ رہا ہے اور اس کی آئندہ نسل کی شناخت مہذب معاشروں میں انتہا پسندی اور پسماندگی سے تعبیر کی جائے گی۔آج اسلامی دنیا کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا۔ یہ تقسیم گرچہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ رہی ہے تاہم تقسیم کی یہ خلیج روز بروز پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلمان خود اپنی ہی تاریخ سے واقف نہیں مگر خود کو مہذب بنانا چاہتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ معاشروں، ملکوں اور اقوام کے مابین فاصلے کم ہوئے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے مغربی دنیا افہام و تفہیم، رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد بھی قائم کر چکی ہے۔ اس نے اپنی توجہ تعلیم، صحت، اقتصادی ترقی و خوشحالی اور پر امن باہمی بقا پر مرکوز رکھی اور اس کے نتائج کم و بیش تمام مغربی معاشروں کی صورتحال سے عیاں ہیں۔دوسری جانب مسلم دنیا ہے، جو تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالامال بھی ہے اور اس کے پاس افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں مگر سیاسی انتشار اور فکری بحران مسلم دنیا کے سب سے بڑے المیے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سیاست کا میزان جس طرح غیر متوازن ہے، اس کے بھی بہت منفی اثرات مسلم دنیا پر پڑے ہیں۔ تاہم کسی اور کو اس کا قصور وار یا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ مسلم معاشروں میں پائی جانے والی موجودہ زبوں حالی کے مضمرات کیا ہیں، وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو مسلمانوں کو بحران در بحران اور ایک سے بڑھ کر ایک انتشار سے دوچار کر رہی ہیں۔ہم نہےں جانتے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے۔ اگر مسلم دنیا اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اپنے عقیدے کو ڈھال یا ہتھیار بنا کر مسلم معاشرے نہ تو ترقی کی دوڑ میں آگے جا سکیں گے اور نہ ہی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیے بغیر اپنے اجتماعی اور انفرادی مفادات کی جنگ جیت پائیں گے۔اگرچہ اب نوجوان طبقہ بڑی حد تک تحقیق کرکے آگے بڑھتا ہے لیکن ان مسجدوں کے اماموں کا کیا کیا جائے جو سستی شہرت کیلئے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ مسلمان کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو،اس کے دل میں محبت رسول ﷺموجزن ہوتی ہے اس کے بغیر کوئی بھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔اسلامی ملکوں کے درمیان تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا عالمی قوتیں ہمارے مخالف مکتبہ فکر سے شدید اختلاف کو اپنے ہاتھوں میں استعمال کرتی ہے۔اگر صرف پاکستان کی مثال دی جائے تو اس میں ماضی میں کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جب مخالف مکتبہ فکر پر مختلف قسم کے فتاوی جات کی مدد سے تشددکیا گیا اور ملکی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا گیا۔مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کو آگے بڑھ کر اس آگ کو روکنا ہوگا۔اختلاف کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن اختلاف کی آڑ میں دوسرے کی دل آزاری کرنا آپ کا ہرگز حق نہیں۔ہمےں سوچنا چاہےے کہ کےا ہمارے علماءکی اتنی اہلےت نہےں ہے کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو سمجھےں اور معاملت کے بگاڑ کو بہتر کرنے کے لےے اپنی صلاحےتوں و توانائےوں کا استعمال کر سکےں۔ اگر ہر مسئلہ فوج نے ہی حل کرنا ہے جو وقتی حل ہے کےونکہ فوج کے چلے جانے پر پھر سے اختلافات سر اٹھا سکتے ہےں اس لےے عقلندی کا تقاضا ےہ ہے کہ علمائ‘ حکام‘ متعلقہ ادارے اپنی ذمہ دارےوں کو پورا کر کے امن کے قےام کو ممکن بنائےں۔