راستوں کی بندش اورنفرت کا پھیلائو

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان اور فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل کاشف خلیل کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گلگت بلتستان میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا' اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے جن کے مطابق کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، امن و امان کو خراب اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، نفرت انگیز تقریر اور مذہبی منافرت میں ملوث افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائیگی ، سوشل میڈیا پر نفرت آمیز تقاریر اور اشتعال انگیز مواد کا پرچار کرنے والے افراد کے خلاف بغیر استثنی کے کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائیگا۔ شاہراہ قراقرم، جگلوٹ سکردو روڑ اور بابوسر ٹاپ کے ذریعے مسافروں کی حفاظت اور گاڑیوں کے نقل و حمل کو محفوظ بنانے کیلئے قراقرم ٹاسک فورس اور پولیس کی تعیناتی عمل میں لائی جائیگی۔ قومی شاہراہوں کی بندش کی اجازت نہیں دی جائیگی اور خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی،گلگت بلتستان میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے تمام بڑے شہروں میں جی بی سکاو ٹس، رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جائیگی اس کے علاوہ، خطے کے دونوں بڑے مسالک کے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ روابط موثر بنانے اور قیام امن کیلئے اعتماد میں لینے کے عمل کی سربراہی وزیر اعلی جی بی خود کریں گے اور وزیر اعلی کی قیادت میں پارلیمانی امن کمیٹی پائیدار امن کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین کثیر جہتی تعاون کیلئے پہلے سکردو اور بعد ازاں دیامر سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کریگی۔یہ حقیقت اطہر من الشمس ہے کہ قومی شاہراہوں پر آئے روز ٹریفک کی بندش رواج کے طور پر سامنے آرہی ہے کسی بھی وقت کسی بھی بڑے یا چھوٹے مسئلے پر احتجاجا شاہراہیں بلاک کرنا ایک معمول بن کر رہ گیا ہے صوبے کی خستہ حال شاہراہوں پر سفر بذات خود ایک خطرے کے ساتھ ساتھ مسافروں کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتا اگر خدا خدا کرکے ٹریفک حادثے سے بچ بھی جاتے ہیں تو شاہراہوں کی احتجاجا بندش سے گھنٹوں بلکہ کبھی کبھار تو دنوں تک انتظار کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے انتظامیہ کومسائل کاحل اس وقت تک نظرنہیں آتا جب تک کہ احتجاج کے ذریعے انہیں جھنجھوڑا نہ جائے جبکہ بارشوں اور سیلابی صورت حال میں سڑکوں اور پلوں کا بہہ جانا مسافروں کی پریشانیوں میں اضافے کا الگ سے سبب بنا رہتا ہے حکومت یانیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی حکومت کو اپنی رٹ کی پرواہ ہے اور نہ ہی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور پلوں کی مرمت کی کوئی فکر ہے یوں مسافر جن میں بچے ، خواتین ، بوڑھے ، بزرگ اور جوان شامل ہوتے ہیں موسم کی شدتوں میں سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو ہوٹل مالکان مسافروں کی جیبیں خالی کر کے چھوڑ دیتے ہیں بیت الخلا کی سہولت ہوتی ہے نہ ہی سستانے کیلئے کوئی معقول ٹھکانے کا بندوبست ہوتا ہے اور ایسے لمحات مسافروں کیلئے قیامت سے کم ہرگز نہیں ہوتے عوامی حلقے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر  حکام غفلت کی نیند سے کب جاگیں گے۔ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اگر نہیں ہو رہی ہے تو مذاہب کے درمیان آہنگی پیدا کرنے میں نہیں ہو رہی ہے۔ کیا ہم اسے انسان کی بدقسمتی کہیں، مذاہب کے درمیان نفرتوں کو بڑھاوا دینے والے تو بہت ہیں بلکہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ اصل میں عام غریب اور سیدھے سادے لوگ کسی نفرت کا شکار نہیں ہوتے۔ نہ مذہبی منافرتوں کے چکر میں الجھتے ہیں، یہ سارا کھڑاک وہ مٹھی بھر لوگ کرتے ہیں جو یا تو مذہب کی نوعیت ہی سے بے خبر ہوتے ہیں یا پھر معمولی معمولی مالی فوائد کی خاطر عوام کو عوام سے مذہب کے نام پر لڑاتے رہتے ہیں۔ یہ عناصر ہر وقت ہر جگہ معمولی معمولی فوائد کی خاطر نفرتوں کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں۔ ورنہ عام آدمی جو دن بھر دال روٹی کے چکر میں الجھا رہتا ہے، اس کھیل سے دور ہی رہتا ہے۔یہ عمل کوئی سادگی یا وقت گزاری کا مشغلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دھن والے ہوتے ہیں جو اس الٹ پھیر میں لاکھوں کما لیتے ہیں ۔اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس بدنما کھیل میں ہر حوالے سے غریب انسان ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس اور المیہ یہ ہے کہ ہر دو طرف ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود رہتے ہیں جو نفرتوں کی اس آگ کے نقصانات سے واقف ہوتے ہیں لیکن یہ عنصر لڑنے جھگڑنے خون خرابوں سے خوفزدہ رہتا ہے لیکن اس عوام دوست اور مذہبی تعصبات کے مخالف اکثریت کے پیچھے انہیں سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا یہی وہ مجبوری ہے جو انسان دوستوں کے آڑے آتی ہے۔انسان جو کچھ دال روٹی مل جائے وہ کھا کر گھر میں منہ لپیٹے رہ سکتا ہے، اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا وہ کیا کرے کیا نہ کرے لیکن انسانوں کے دشمن انسان کو انسان سے لڑانے والے جن کا پیشہ ہی نفرتیں پھیلانا ہوتا ہے معصوم لوگوں کو بہکا کر انسان سے شیطان بنا دیتے ہیں، یہ کوئی انفرادی یا ایک یا چند لوگوں کا کھیل نہیں ہے، یہ ایک مافیا ہے جس کے ہاتھ پائوں اتنے لمبے چوڑے ہیں کہ وہ ایشیا میں ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ یورپ میں ہوتے ہیں تو پائوں امریکا میں اس کے پھیلائو کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مافیا کا ایک پیر پاکستان میں ہوتا ہے تو دوسرا کسی اور ملک میں۔ اربوں روپوں کے یہ مالک صرف غریبوں کو آپس میں لڑا کر ان میں نفرتیں پھیلاکر وہ وہ کام کر جاتے ہیں جن پر عام آدمی کی نظر بھی نہیں جاتی۔نفرتوں کا پھیلائو نفرتوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ جنگوں کی راہ ہموار کرتا ہے اور جنگیں لڑنے کے لیے ہتھیار چاہیے ہوتے ہیں اربوں ڈالر ہتھیاروں کی انڈسٹری میں لگے ہوئے ہیں اور اس انڈسٹری میں سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کا منافع کماتے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس انڈسٹری میں رات دن کام کرتے ہیں لیکن انہیں ملتا کیا ہے؟ پیٹ کے لیے روٹی تن کے لیے کپڑا۔ہم جانتے ہیں  کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام کے مطابق ترامیم کے ذریعے پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافے کے ساتھ سوشل میڈیا رولز میں بھی مزید بہتری لائی جائے گی، جبکہ سرکاری پورٹلز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ای سیفٹی ایکٹ بھی لایا جا رہا ہے۔ ایکٹ میں مزید ترمیم کرتے ہوئے پروپیگنڈے کو روکنے اور پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لانے کے لیے نیا سیکشن شامل کرنے کے علاوہ سزائیں بھی تجویز کی جائیں گی۔سابق  حکومت کی کوشش تھی کہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی آرڈینینس نافذ کر دیا جائے۔اس بات کا بھی امکان تھا کہ نگران حکومت میں بھی ان ترامیم کو نافذ کر دیا جائے کیونکہ اس سے صرف حکومت یا حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی جماعت یا فرد اپنے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے خلاف شکایت کرنے کا حق رکھے گا۔ جن سائبر کرائمز کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں ڈیٹا یا انفارمیشن سسٹم تک بلااجازت رسائی یا مداخلت اور ڈیٹا کی کاپی یا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا، ڈرانا، دھمکانا، سوسائٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے ارادے سے ان جرائم میں سے کسی ایک پر عمل کرنے کی دھمکی دینا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کی تعریف کرنے کے ارادے سے معلومات تیار کرنا یا پھیلانا، یا دہشت گردی سے متعلق کسی بھی فرد کو زبردستی، ڈرانے، دھمکی دینے کے ارادے سے مذکورہ بالا جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی دھمکی دینا، جبکہ انٹرنیٹ یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی کے لیے فنڈنگ، بھرتی کرنے کی ترغیب یا نفرت انگیز مواد کا پھیلا بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔اسی طرح کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ڈیوائس یا ڈیٹا میں مداخلت کر کے عوام کو نقصان پہنچانا یا کوئی غیرقانونی دعوی کرنا۔ کسی بھی شخص کو جائیداد سے الگ کرنے کی وجوہات بنانا یا کوئی معاہدہ کرنے کے لیے فراڈ کرنا، ڈیٹا تبدیل کرنا، حذف کرنا یا چھپانا اور کسی دوسرے شخص کی شناخت یا اس سے متعلق معلومات کا بغیر اجازت یا بلاتصدیق استعمال بھی سائبر جرائم میں شامل ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر بغیر اجازت سم کارڈ خریدنا، کسی بھی شخص کو جنسی طور پر تعلق قائم کرنے کی ترغیب دینا، کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا، بدلہ لینا، نفرت پیدا کرنا یا کسی شخص کو بلیک میل کرنا اور کسی قانونی جواز کے بغیر ایسا مواد رکھنا جس میں چائلڈ پورنوگرافی کے عناصر موجود ہوں یا کسی آلے کے ذریعے ایسا مواد تیار کرنا، کسی دوسرے کو دستیاب کرنا، تقسیم کرنا یا اپنے اور کسی دوسرے شخص کے لیے خریدنا بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔حکام کے مطابق وسیع معنوں میں پروپیگنڈا کو ساکھ خراب کرنے کے جرم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ہماری رائے میں کسی کو بھی سوسائٹی میں کسی بھی طرح کی نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ایسے افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی لازمی ہے۔