وزیر داخلہ شمس الحق لون نے کہا کہ عوام پر امن رہیں اور افواہوں پر کان نہ دھریں، بعض شر پسند عناصر عوام میں بے چینی پھیلانے کے درپے ہیں۔ منفی پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنیوالے عناصر کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور انکے خلاف سخت قانونی کارروائی بروئے کار لائی جائیگی۔حکومت کی جانب سے کسی گرفتاری کی منصوبہ بندی زیر غور نہیں۔ پارلیمانی امن کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر قیام امن کیلئے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لانے کیلئے حکومت کو سفارشات بھجوائے گی۔ پارلیمانی امن کمیٹی پہلے سکردو اور بعد ازاں دیامر کا دورہ کریگی اور علمائے کرام سمیت عمائدین سے رابطوں اور اشتراک عمل کو موثر اور نتیجہ خیر بناکر اعتماد سازی کے ذریعے بین المسالکی ہم آہنگی، امن و رواداری کے فروغ اور ملی یکجہتی کیلئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا بھر کی حکومتوں کو خبردار کیا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نفرت کے پھیلاﺅ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس نفرت کو روکنے کا اہتمام کیا جائے۔سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں کہا تھاسوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے نسل پرستی کے پراپیگنڈہ کے علاوہ اسلام کے خلاف بھی مہم جاری ہے۔ نیز خواتین کو ہراساں کرنے، ہم جنس پرستی وغیرہ کے بارے میں بھی ہم ایسی مہمات دیکھتے ہیں۔ اس سلسلے کو روکا جانا چاہیے۔ گوتریس بارہا سوشل میڈیا کمپنیوں کی طاقت کے بارے میں خبردار کرچکے ہیں اور ان کے لیے ریگولیشنز، ذمہ داری کے احساس اور ذریعے شفافیت پر زور دے چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا ہم جانتے ہیں کہ کس قدر جلدی نفرت انگیز تقریریں زبانی تشدد میں بدلتی ہیں اور زبانی تشدد کس طرح جسمانی تشدد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں سماجی تنوع اور توازن متاثر ہو رہے ہیں اور وہ اقدار اور اصول مجروح ہو رہے ہیں جو ہم انسانوں کو جوڑتے ہیں۔سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کے درمیان رابطوں میں اضافہ کیا ہے وہیں اس کی وجہ سے اکثر لوگوں کو منفی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ پھر چاہے وہ کوئی مشہور شخصیت ہو، یا کوئی عام صارف تقریبا ہر دوسرے شخص کو سوشل میڈیا پر کبھی نہ کبھی گالم گلوچ، نازیبا الفاظ اور ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کبھی آپ کے کام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی آپ کی شکل و صورت کو، کبھی کسی معاملے پر آپ کی رائے کو تو کبھی آپ کے لباس پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ تبصرے صرف انجان لوگوں کی جانب سے نہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی جانب سے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ان منفی رویوں کا سامنا کرنے والے افراد کی نہ صرف ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر سوشل میڈیا کا استعمال کم یا ترک بھی کر دیتے ہیں۔ماہرےن نفسےات کے مطابق سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور منفی کمنٹس کسی بھی شخص کی ذہنی حالت پر بالکل ایسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں جیسے آپ کسی کے سامنے بیٹھ کر گالم گلوچ کریں، انہیں برا بھلا کہیں یا منفی رویہ رکھیں۔سوشل میڈیا پر ایک شخص کو دیکھ کر دوسرا شخص بھی رنگ پکڑتا ہے۔ ایک کوئی نفرت انگیز کمنٹ کرتا ہی تو اس کے ساتھ دو چار اور مل جاتے ہیں۔ ارد گرد موجود ان لوگوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو نفرت انگیز کمنٹس کو دیکھتے تو ہیں لیکن کچھ کہتے نہیں۔ہم جانتے ہےں کہ دنیا کی تقریبا 80 فیصد آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام آدمی اپنے دن کے تقریبا دو سے چھ گھنٹے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر لائیک، ٹویٹ اور اپ ڈیٹ کرنے میں گزارتا ہے جس کے باعث ہر گزرتے ہوئے منٹ میں تقریبا پانچ لاکھ کے اردگرد ٹویٹ اور تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں۔ایسے میں فیس بک اور ٹویٹر کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔یہی میڈیا ایک عام انسان کی آزادی اور خودمختاری کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے جہاں ایک چھوٹے بچے سے لے کر ایک عمررسیدہ شخص تک کھل کر اپنی رائے اور خیال پیش کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا حالیہ تاریخ میں ابھرنے والی سب سے اہم ٹیکنالوجی ہے جو کہ ذاتی رائے اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیتی ہے۔ جہاں بہت سے ثقافتی اختلاف ہونے کے باوجود فیس بک اور ٹویٹر پر ہزاروں لوگ ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں وہیں سوشل میڈیا کی طاقت سے ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں نے بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور دیگر جرائم کے فروغ سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر ایسی ایپلی کیشنز ہیں جہاں پر روزمرہ کی تازہ خبریں اور دنیا بھر کے حالات بآسانی جانے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض شرپسند عناصر جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے کے لئے ایسی منفی پوسٹ اور ٹویٹ کرتے ہیں جس سے ملک بھر کے لوگ نفرت اور تفرقات میں بٹ جاتے ہیں جس کے بعد ایک نہ رکنے والی نفرت آمیز پوسٹس اور ٹویٹس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسے شرپسند عناصر کا نشانہ ملک کے مفاد میں کام کرنے والی سےکیورٹی فورسز، صحافی اور ایسے اشخاص ہوتے ہیں جن کا مقصد ملک و قوم کی خیروبقا ہوتا ہے ایسے ملک دشمن عناصر کا مقصد صرف اور صرف ریاست اور عوام کی توجہ ملک کے سنگین مسائل سے ہٹا کر اپنی بحث اور فرقہ واریت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے تاکہ ملک میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکے جس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف بحث و مباحثے شروع ہو جاتے ہیں جو بہت تیزی سے وسیع پیمانے پر پھیل جاتے ہیں جن کی روک تھام مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتی ہے جس کے بعد عوام ایک نئی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی مرضی کے مطابق گروہ بندی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر چاہے یہ گروہ قومی، نسلی یا مذہبی ہوں یہاں ہر انسان جذباتی ہو کر اہم مقاصد سے ہٹ کر آپس میں ہی اتفاق کے بجائے نفرتوں میں پڑ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی شکل میں شرپسند عناصر کو ایک ایسامہلک ہتھیار میسر آگیا ہے جسکا نشانہ ہر وہ انسان بن رہا ہے جو ان کے نظریات سے اختلاف رکھتا ہو۔سوشل میڈیا پر بہت سے اکاﺅنٹس مذہبی تعصب، نفرت اور شدت پسندی پھیلانے کیلئے ایکٹوہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے انٹرنیٹ پرمنفی نظریات کی روک تھام کیلئے فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر انتظامیہ پر دباﺅ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان میں بھی بعض شرپسند عناصر سوشل میڈیا کو منظم انداز میں مخالفین کے خلاف نفرتوں کے پرچار کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔بعض پاکستانی انٹرنیٹ صارفین بیرونی ممالک کی نظریاتی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑتے ہوئے افسوسناک حد تک نازیبا زبان کا استعمال کررہے ہیں ۔ فیس بک اور ٹویٹر پر دہشت گرد اور ملک دشمن افراد ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی ریاست میں بظاہر تو عوام کے خیرخواہ ہوتے ہیں اور اپنی پروفائل کو اس اندازسے بناتے ہیں کہ عام لوگ انہیں ایک محب وطن اور ذمہ دار شخص سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ دشمن ممالک یا دہشت گردوں کی محض کٹھ پتلیاں ہوتے ہیں۔ اب یہی منفی لوگ جھوٹی خبریں افواہیں اور منفی سوچ ملک میں پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے جعلی اور نفرت آمیز ٹویٹ اور پوسٹ، فیک اکاﺅنٹس سے پوسٹ کرتے ہیں جن کو ملک میں چھپی کالی بھیڑیں ریٹویٹ، لائیک یا شیئر کرنا شروع کر دیتی ہیں جو پلک جھپکتے ہی لاکھوں لوگوں پر اثرانداز ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسی منفی اور جھوٹی پوسٹوں پر لاکھوں اور ہزاروں لائیک، شیئر کومنٹ اورریٹویٹ ہونے کے باعث عام عوام اسے سوفیصد مستند اور سچی خبر سمجھ کر تفرقات میں پڑ جاتی ہے جو سوشل میڈیا کے ہر پیج اور اکاﺅنٹ پر مختلف بحث کو جنم دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض اوقات تو نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ عوام کا آپس میں اختلاف اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بات عام بحث سے چھڑ کر لڑائی جھگڑوں اور یہاں تک کہ ملک کی عدلیہ ریاست اور سکیورٹی فورسز کے خلاف کھلے عام مظاہروں تک آ جاتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب لیڈران اپنے مخالفین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں تو اس کا منفی اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے جس کی ایک جھلک سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، اسلئے علمائے کرام ، مذہبی رہنما اور پارلیمانی لیڈران کو چاہئے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو سوشل میڈیاکے مثبت استعمال اور اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کریں۔ سوشل میڈیا سے اخلاق باختہ مواد ڈیلیٹ کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا بہت ضروری ہے ‘اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرتوںکا نہیں بلکہ امن و محبت اور بھائی چارے کا پرچار کیا جائے اور انٹرنیٹ پر شدت پسندانہ نظریات کی نفی کرتے ہوئے جیو اور جینے دوکی پالیسی اپنائی جائے۔
