حکومتی رٹ پرسمجھوتہ نہ کرنے کا عزم

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ خطے کی تعمیر و ترقی کیلئے پائیدار امن ناگزیر ہے، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور حکومتی رٹ قائم رکھنے کیلئے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ گلگت بلتستان میں حالیہ کشیدگی اندرونی حالات کا شاخسانہ نہیں بلکہ امن اور ترقی میں خلل ڈالنے کیلئے استعماری طاقتیں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعے حالات خراب کرنے کے درپے ہیں، خطے میں ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی آمد میں اضافہ، معاشی ترقی اور مثالی امن ملک دشمن طاقتوں کو کھٹک رہا لیکن حکومت عوامی حمایت اور قانون کی بالادستی سے شر پسند عناصر کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیگی، امن و امان کو خراب کرنے اور حکومتی رٹ چیلینج کرنیوالے مٹھی بھر افراد کے خلاف بلاتفریق کاروائی عمل میں لائی جائیگی، تمام مکاتب فکر کے علماامن و امان کے قیام، ملی یکجہتی اور بھائی چارے کے فروغ اور مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی کیلئے حکومتی کاوشوں کا ساتھ دیں۔ پر تشدد انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے حکومت پارلیمانی کمیٹی برائے امن کے ذریعے عوام، علمائے کرام اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر بین المسالکی ہم آہنگی، ملی یکجہتی اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے موثر اقدامات اٹھائے گی۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنا اجتماعی مفاد مقدم رکھیں اور سازشی عناصر کو خطے کی ترقی میں رکاوٹ بننے کا موقع نہ دیں۔ درےں اثناءچیف جسٹس چیف کورٹ جسٹس علی بیگ نے گلگت بلتستان بار کونسل میں مستقل ہونے والے ججز کی جانب سے وکلاکے اعزاز میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں نظام عدل ، پرامن ماحول کے قیام میں وکلا کا کلیدی کردار ہے اور رہے گا اور متوازن معاشرے کا بنیادی فلسفے کا تقاضا ہے کہ وکلامعاشرے میں لوگوں کے بنیادی حقوق کے محافظ اور ضامن ہو ہم سب مسلمان ہیں اسلام ہمارا دین ہے ہم سب کے بنیادی عقائد ایک ہیں صحابہ کرام اور اہلبیت سب کے ہیں ہمارا دین اسلام پرامن دین ہے جو بھائی چارے اور پر امن ماحول کے قیام ، رواداری اور برداشت کادرس دیتا ہے اس فلسفے پر عمل کرتے ہوئے تمام وکلا سے گزارش ہے کہ اپنے حلقہ احباب میں بھائی چارے،پر امن فضا اور پر امن ماحول پیدا کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں عدل و انصاف ایک ایسا وصف ہے جو اگر ہر شخص میں پیدا ہو جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں عدل نہیں ہو گا وہاں بے سکونی و بد امنی کا راج ہو گا اور عدل نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی پیدا ہوتی ہے تو پھر معاشرے میں انارکی جنم لیتی ہے جو سماج کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ادھر گلگت بلتستان میں امن وامان کی فضاقائم رکھنے اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے گلگت میں امن ریلی نکالی گئی،ریلی کے شرکانے امن کے حق اور فرقہ واریت ومسلکی تقسیم کے خلاف نعرے لگائے اور اس عزم کااظہار کیا کہ کسی کو گلگت بلتستان میں فروغ پانے والی یکجہتی کی فضاکو بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی رےلی کے شرکا کا ےہ کہنا بجا ہے کہ دشمن ہماری صفوں میں گھس کر ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے کے در پے ہے۔ گلگت بلتستان اب مزید فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لہذا عوام صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اپنے صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں تاکہ علاقے میں امن وامان کی فضاقائم رہے، گزشتہ چند دنوں سے ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کو آگ اور خون میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمیں متحد ہوکر سازشی عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔جو عناصر بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش کررہے ہیں عوام ان سے ہوشیار رہیں کیونکہ امن وامان کی فضاخراب ہونے سے سب کا نقصان ہوگا جبکہ امن ہوگا تو علاقے میں سیاحت اور کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں گی جس کا فائدہ پورے خطے کے عوام کو ہوگا۔بلاشبہ ہر ذی روح امن کا خواہاں ہے، امن و امان بہت بڑی نعمت ہے، اسی لئے اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔امن کے قےام ہی میں ہمارے گھر کا سکون مضمر ہے اسی میں ہمارے ملک و ملت کی شیرازہ بندی کی سلامتی اور یہی مطلوب بھی ہے ۔ خطے میں بدقسمتی سے عالمی طاقتیں پچھلی چار دہائیوں سے پنجہ آزمائی کرتی آرہی ہیں۔ اس جنگ و جدل کا تمام تر نقصان خطے کے ممالک کو ہوا ہے۔ افغانستان تباہ ہو گیا پاکستان دہشت گردی میں جکڑا گیا اور لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ سے پاکستانی معیشت کا جنگ اور دہشت گردی میں برا حال ہو گیا۔ دیگر ممالک یقینا خطے میں عدم استحکام سے متاثر ہوئے۔ خوش قسمتی سے چین اس خطے کی اقتصادی ترقی کا عزم کئے ہوئے ہے، ساری دنیا کو تجارتی تعلق میں باندھنے کےلئے پاکستان سے اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبہ پر کام زور و شور سے کر رہا ہے۔ یہ راہداری پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی کے مواقع پیدا کرے گی اور اس کا لازمی نتیجہ خوشحالی ہے تاہم اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد معاشی ترقی و استحکام کی وجہ سے امن کی ضامن بن جائے گی۔ امن کے لئے آج ہمیں انفرادی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر عدم برداشت کے خاتمے سے ہی ہم معاشرہ میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود تشدد کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہم تنگ نظری اور متعصبانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کر کے رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے امن آئے گا، ڈر اور خوف کا خاتمہ ہو گا اور ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔ امن کے ساتھ ہی افراد، علاقہ ملک اور خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ ہم جانتے ہےں کہ اسلام محبت و رواداری کا درس دیتا ہے اس کی تعلیمات نقطہ امن کے گرد اپنے دائرے کو مکمل کرتی ہیں۔ جس شخص سے خیر کی توقع نہ ہو اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو اسلام ایسے شخص کو بدترین انسان قرار دیتا ہے۔ اسلام انسانی معاشرے میں مساوات کا نظام پیش کرتا ہے اس کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کسی پر حسب نسب، قوم قبیلہ، خاندان، علاقائیت و لسانیت کی وجہ سے کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے۔ےہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے سے امن و امان کو مخدوش یا تباہ کرنے والے جرائم پیشہ افراد کو حکومت کی جانب سے سزا دی جائے، لوگوں کی جان کے تحفظ اور انہیں پرامن رکھنے کے لیے امن دشمنوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے۔ اسی طرح لوگوں کے اموال کے تحفظ اور انہیں پرامن رکھنے کے لیے چوروں، لٹیروں اور ڈاکوﺅں، فریب کاروں، کرپشن مافیا اور بھتا مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔جب تک ان عناصر کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہے گی ‘ بے گناہوں پر ظلم و ستم جاری رہے گا تو قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سب سے اہم کردار امن و امان کی صورتحال کا ہوتا ہے۔ جو بھی قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں وہ سب سے پہلے اپنے ہاں امن قائم کرتی ہیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے جس میں رواداری، برداشت، مساوات، ایک دوسرے کا احترام جیسی اقدار ہوتی ہیں تاکہ انتشار کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔دنیا کا امن، مکالمہ اور باہمی رواداری پر مبنی ہے۔ یہ بات لازم ہے کہ تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے ماننے والے ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اور بحیثیت انسان ایک دوسرے کی تعظیم کریں۔ہمارے دشمن نے ملک کو کمزور کرنے کیلئے یہاں دینی اداروں، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں میں ٹکراﺅ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ہمےں ملک سے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ہماری منزل اخوت، محبت، رواداری، امن، سلامتی، استحکام اور اعتدال ہے۔ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہے جس کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علما دوسروں کے مقدسات کی توہین نہ کریں،کسی کوملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہ دیں۔ تمام مکاتب فکر کے علما اپنے درمیان افہام و تفہیم برقرار رکھنے کی کوشش کریں،مسلکی تنازعات کو باہمی مشاورت اور مکالمے کی روشنی میں طے کریں۔ملکی سلامتی اور استحکام کےلئے اندرونی امن انتہائی ضروری ہے،دشمن طاقتیں ہمیشہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ اندرونی خلفشار پیدا ہو تاکہ ان کا ناپاک ایجنڈہ آگے بڑھ سکے ۔ہم کہہ سکتے ہےں اور امےد کرتے ہےں کہخطے میں فرقہ واریت کی آگ بھڑ کانے کی جو سازشیں ہو رہی ہے وہ ساری کی ساری ناکام ہوں گی، تمام مسالک کے علما متحد اور ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہےں ، وہ دشمن کی سازشوں کو بخوبی سمجھتے ہےں انہوں نے ماضی میں بھی دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو ناکام بنایا اب بھی انشاءاللہ ناکام بنا دےں گے۔