امام جمعہ والجماعت مرکزی جامع امامیہ مسجد آغا سید راحت حسین الحسینی نے کہا ہے کہ اہلسنت ہمارے بھائی ہیں ہمارے مجتہدین نے سختی سے ہدایت کی ہے۔اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے ایک بار پھر متحرک ہوئی ہیں اور ان کی پوری کوشش اور خواہش یہی ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کے مختلف مسالک کو آپس میں دست و گریباں کیا جائے۔اس صورتحال کے تناظر میں ہمارے مجتہدین نے اپنے فتاوی کو پھر سے دھراتے ہوئے تمام مسلم مسالک کے مقدسات کی توہین سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ جس فرد نے سوشل میڈیا میں باتیں پھیلائی ہیں فی الفور اس شخص کو گرفتار کر کے اسے عبرتناک سزا دی جائے۔تاکہ آئندہ کسی کو ایسی گھٹیا اور شرمناک حرکت کی جرات نہ ہو۔ادھر امیر تنظیم اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان قاضی نثار احمد نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکردو شہر گلگت بلتستان کا ٹورازم حب بننے جارہا تھا انٹرنیشنل ائیر پورٹ جوں ہی فنکشنل ہوا ملک دشمن عناصر کے پیٹ میں مروڑ ا ٹھنا شروع ہو گئے اور حالات سب کے سامنے ہیں خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا افسوس ناک عمل ہے۔ حکومت قانون پر عمل در آمد کے لئے کام کرے جو قانوں سے خود کو بالاتر سمجھتا ہے اس کی سرکوبی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ امن کسی ایک مسلک یا ایک فریق کی ضرورت نہیں ہے امن سنی شیعہ اسماعیلی سب کی اولین ضرورت ہے امن ہوگا تو گلگت بلتستان ترقی کرے گا۔درےں اثناءگلگت بلتستان کے نامور عالم دین اور اتحاد بین المسلمین کے داعی علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے کہاہے کہ اہلسنت والے ہمارے بھائی ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں ہم اصحاب رسول اور اہلبیت کی عزت و تکریم کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ہم احترام انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اہلسنت سے خدانخواستہ کسی قسم کی کوئی لڑائی نہیں ہے۔ بلتستان میں اتحاد امت کا ایک خوبصورت اور بہترین گلدستہ موجود ہے‘ اہلسنت اہلحدیث اور دیگر مسالک کے لوگوں کے ساتھ ہمارے گہرے مراسم ہیں مگر دشمن ہمارے اتحاد سے خائف ہیں اس لئے وہ ہمارے مابین پھوٹ ڈالنے کیلئے نت نئے حربے استعمال کررہے ہیں تمام مسالک کے علمائے کرام کو اتحاد یگانگت کی مثالی فضا کو قائم رکھنے کیلئے آگے بڑھنا ہوگا یہ دھرتی ہم سب کی ماں ہے ماں کا تحفظ بحیثیت شہری ہم سب کی شرعی اخلاقی اور بنیادی ذمہ داری ہے ۔اس حقےقت سے انکار ممکن نہےں کہ امن سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشددِ اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی مساوات اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔ معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔امن و امان کے سائے تلے ہی عبادت لذیذ محسوس ہوتی ہے۔ امن کی بدولت نیند، سکون اورکھانا مزیدار اور پینا راحت جان لگتا ہے۔ امن و امان ترقیاتی جدوجہد کے ستون ہیں اور ہر معاشرے کی منزل مقصود۔ ہر قوم امن و امان کی آرزو اور تمنا کرتی ہے۔ اسلامی معاشروں میں تو امن و امان بنیادی تعلیمات کا حصہ ہوتا ہے۔ جب امن میں کمزوری اور بگاڑ پیدا ہوجائے تو شیطانی خباثت اور اس کے انسانی اور جنی لشکروں کے کھیل تماشے ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور انسانوں کو گمراہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر مسلمان معاشروں میں امن عامہ بربادکرنے والے لوگ دوسروں کا امن برباد کرنے سے پہلے اپنی ذات، والدین اور دیگر افراد خانہ کے امن کے دشمن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جرم، قتل، و غارت، بدکاری اور گمراہ کنی کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں جب ان کی اپنی زندگی برباد ہوجاتی ہے تو پھر یہ معاشرے و ملت کا قصر مسمار کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور معاشرتی امن کو تہہ و بالا کرکے معاشرے کو خوف میں مبتلا کردیتے ہیں۔اسلام سے قبل دنیا اندھیری تھی، ہر طرف ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ امن وامان نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کبھی رنگ و نسل کے نام پر، کبھی زبان و تہذیب کے عنوان سے اور کبھی وطنیت وقومیت کی آڑ میں انسانیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا تھا اور ان ٹکڑوں کو باہم اس طرح ٹکرایا گیا تھا کہ آدمیت چیخ پڑی تھی۔ پوری دنیا بدامنی اور بے چینی سے بھرگئی تھی۔ وہ پسماندہ علاقہ ہو یا ترقی یافتہ اور مہذب دنیا روم و افرنگ ہو یا ایران و ہندوستان، عجم کا لالہ زار ہو یا عرب کے صحرا و ریگزار ساری دنیا اس آگ کی لپیٹ میں تھی۔ اسلام سے پہلے بہت سے مذہبی پیشواﺅں اور نظام اخلاق کے علمبرداروں نے اپنے اپنے طور پر امن و محبت کے گیت گائے اور اپنے اخلاقی مواعظ و خطبات سے بدامنی کی آگ کو سردکرنے کی کوشش کی جس کے خوشگوار نتائج بھی سامنے آئے مگر اس عالمی آتش کو پوری طرح سے ٹھنڈا نہیں کیا جاسکا۔اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطہ اخلاق پیش کیا جس کا نام ہی اسلام رکھا گیا یعنی دائمی امن و سکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں۔ اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن و سکون کے ایک نئے باب کا آغاز کیا اور پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ آج دنیا میں امن و امان کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے طور پر کسی گہوارہ سکون کی تلاش میں ہے یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کا دین ہے۔جس معاشرہ کا شیرازہ امن بکھرتا ہے اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگر اسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ انسانی جان کی عظمت کا ایسا عالمگیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا۔ اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتا ہے۔اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اورجھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے اور اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔امن ایک بہت بڑی نعمت ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔اسلام میں امن کی جو تعلیمات ہیں وہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہیں جن میں ظلم و جبر سے بچنے، پرامن زندگی گزارنے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی فتنہ و شر انگیزی سے اجتناب اور خیر کی اشاعت، عمل خیر میں زیادہ سے زیادہ شرکت، روئے زمین میں ایک امن پسند خوشگوار اور مثبت ماحول کی تشکیل، عام انسانوں کے ساتھ فراخدلی اور رواداری اور ہر مذہب و قوم کے مذہبی روایات و شخصیات کے احترام کی پرزور تلقین کی گئی ہے۔آج کا جدید اور ترقی یافتہ دور جو سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور علمی میدان میں اپنی انتہائی بلندی کو چھو رہا ہے اس دور میں بھی دنیا امن و امان کے مسئلے سے اس طرح دوچار ہے۔ جس طرح آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا سماج امن اور سلامتی کے مسئلے سے دوچار تھا۔ انسانوں کی عزتیں، مال و جائیداد محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی اور فکری تحفظ نہیں ہے۔ آج بھی رنگ و نسل، ذات پات، وطنیت کا بھوت شیشے میں بند نہیں ہوا۔ اونچ نیچ کا فرق ختم نہیں ہوا۔ دنیا میں جتنے بھی نظریات آئے کسی نے انسان کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا۔ پرامن معاشرہ کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ابتدائی طور پر معاشرہ امن، انصاف، خیر خواہی، خدمت خلق، مساوات اور حقوق العباد کی ادائیگی پر قائم ہوتا ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں انہی اوصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے۔امن و امان کا حاصل ہونا سب سے بڑی نعمت ہے ایمان تب ہی سلامت رہ سکتا ہے جب شہر میں امن ہو، تمام لوگوں کی جان،مال اور عزت محفوظ ہو۔ صحت کے حصول کے لیے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک پہنچنا تبھی ممکن ہے جب ملک میں امن ہو۔ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات میں کتنے بچے یتیم ہوجاتے ہیں، بعض گھروں کے کفیل فسادات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے پورا گھرانہ مصائب کا شکار ہوجاتاہے۔ غرضیکہ بدامنی سے دین کا بھی نقصان ہوتا ہے اور دنیا کا بھی، ہنگاموں میں لوگ ڈاکخانے اور بنک جلا دیتے ہیں، گاڑیاں جلادیتے ہیں،ٹریفک سگنل توڑ دیتے ہیں۔ یہ قومی اور ملی نقصان ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں اجتماعی سوچ نہیں رہی۔ امن نہ ہونے کی وجہ سے دین اور دنیا دونوں خطرے میں ہوتے ہیں۔ دین اور دنیا کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب مسلمانوں کے ملک میں امن و امان قائم ہو۔
