مہنگی بجلی‘ ناقص پالیسیا ں‘عوامی مشکلات اور حکام کی نااہلی

 حکومت نے مہنگائی کے مارے عوام پر ایک بار پھر بجلیاں گرا دی ہےں۔ابھی وہ اےک بل کے جھٹکوں سے سنبھلے نہےں تھے کہ اےک نےا زلزلہ ان کی جےبوں میں سوراخ کر گےا ۔نیپرا میں مالی سال 2022-23 کی چوتھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ پر سماعت ہوئی، جس میں بجلی پانچ روپے چالےس پیسے فی یونٹ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی۔بجلی کی قیمت میں یہ نیا اضافہ سال 2022-23 کی چوتھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں چوتھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں قیمتوں میں اضافے کی درخواست کی گئی تھی۔فیسکو کی جانب سے درخواست میں 23 ارب 49 کروڑ،گیپکو کی جانب سے 16 ارب 13کروڑ روپے کا اضافہ مانگا گیا ہے۔ حیسکو نے 9 اور آئیسکو نے بھی 9 ارب روپے کے اضافے کی درخواست دی تھی۔ لیسکو کی جانب سے 31 ارب اور میپکو نے 27 ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈالنے کی درخواست دی ۔ پیسکو 9 ارب، کیسکو 7 ارب، سیپکو 5 اور ٹیسکو نے 4 ارب کا اضافہ مانگا تھا۔ان درخواستوں کی منظوری کی صورت میں بجلی کی قیمت میں اضافے سے صارفین پر 144 ارب 69 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے نہ صرف شہری ذہنی اذیت کا شکار بن رہے ہیں بلکہ تاجر برادری بھی اس سلسلے میں حکومتی پالیسی سے نالاں ہے اور بجلی مہنگی کیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر مجبور ہے۔ستم ظرےفی ےہ ہے کہ عوام کو اپنی آمدن سے زےادہ بجلی کے بلوں پر صرف کرنا پڑ رہا ہے مہنگائی کی شرح انتےس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔اس اضافے کی وجہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے جس کا منفی اثر آنے والے دنوں میں شدت سے محسوس ہو گا کیونکہ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔ گزشتہ دو تین مہینوں سے مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔شہبام حکومت سے پہلے تک عوام کوکم از کم دو وقت کا کھانا نصیب ہو رہا تھا لیکن اب دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت ہی اس مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔سابقہ حکومت نے تو مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔بجلی، گیس اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ان کی کاروباری لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کی ایک وجہ وہ عالمی حالات ہیں جن میں دنیا بھر میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا لےکن جب دنیا میں قیمتیں نہیں بڑھ رہی تھیں تو اس وقت بھی پاکستان میں گذشتہ حکومت کے دور میں قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ےہ کہا جا رہا ہے کہ جب دنیا میں تیل و گیس اور دوسری اجناس کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں تو پاکستان میں بھی اس کا اثر آنا تھا۔ مہنگائی کی وجہ سے عام فرد جس پریشانی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں میں ہونے والا اضافہ شامل ہے۔چار سال میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا ۔ دنیا بھر میں تیل اور دوسری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان اپنی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔پام آئل، ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں کے نرخوں میں اضافہ ہوا۔ اب ایسی صورت میں اس کا اثر پاکستان میں قیمتوں پر بھی آنا تھا جو آیا اور اس کی وجہ سے عام افراد مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے۔پاکستان میں گورننس کی کمزوریوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کیا کیونکہ پرائس کنٹرول کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور مقامی سطح پر کوئی پرائس کنٹرول کا نظام نہیں کہ جو ناجائز منافع خوری کی روک تھام کر سکے۔گزشتہ چار پانچ حکومتوں میں قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کسی حد تک مقامی سطح پر قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔مہنگائی بڑھنے میں ایک اہم عنصر جسے ہمیں دیکھنا ہوگا وہ ہے منی سپلائی کا یعنی پیسے کی رسد یا مارکیٹ میں روپے کی موجودگی۔ حکومت نے معیشت میں پیسے کی رسد بڑھا کر اتنی زیادہ قوتِ خرید بڑھا دی مگر پاکستان میں اشیا کی طلب پورا کرنے کی صلاحیت کو اتنا نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے حکومت کا یہ اقدام مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔ پاکستان میں جو ہماری مجموعی رسد ہے وہ طلب کے مقابلے میں حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی نہیں ہے۔ ہم کاروں کی صنعت کو پروٹیکشنسٹ پالیسیوں کے ذریعے فائدہ دیے ہوئے ہیں کہ یہ صنعت ابتدائی مراحل میں ہے۔ کوئی ابتدائی مراحل میں نہیں، یہ لوگ اربوں بناتے ہیں۔ ہمارے زراعت کے شعبے میں درجنوں تحقیقی ادارے ہیں مگر ہماری آبادی میں اضافے کے تناسب سے ہماری زراعت کی پیداوار تقریبا ایک دہائی سے ساکن ہے۔ ادھر آپ تین کھرب کی قوتِ خرید بڑھا دیں، ادھر آپ کی مجموعی رسد ساکن ہے تو افراطِ زر تو بڑھے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ پیسے کی رسد کتنی بڑھاتے ہیں اور کتنے عرصے تک اسے بڑھانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔جب مانیٹری پالیسی کی وجہ سے پیسے کی رسد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے تو پہلے اس سے گروتھ بڑھتی ہے، پھر کرنسی کی قدر پر دباﺅ بڑھتا ہے اور مہنگائی پہلے ان اشیا پر اثر انداز ہوتی ہے جو درآمدات پر منحصر ہوں آخر میں پوری معیشت میں افراطِ زر بڑھتا ہے۔ مہنگی بجلی کے لوگ بھی اتنے عادی ہوگئے کہ اب نرخوں میں اضافے کے ساتھ صارفین کوئی ردعمل نہیں دکھاتے۔پاکستان کے معاشی بحران کی جڑ 3.28 ٹریل کا شعبہ توانائی ہے، اس کو ٹھیک کرنے کے بہانے کبھی فیول کاسٹ ایڈجسمنٹ، سہ ماہی ایڈ جسمنٹ، ایف سی سرچارج، ٹی آر سر چارج ، جی ایس ٹی، انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسزز کی مد میں آئے روز اضافہ معمول بن گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی ایما پر اور گردشی قرضے کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کے لیے بنیادی ٹریف میں بھی اضافہ کیا گیا، لیکن نہ تو پاور سیکٹر کے مسائل حل ہوئے اور نہ ہی لوڈ شیڈنگ کم ہوئی‘ صارفین کو ملنے والی رعایت بھی واپس لی گئی۔اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر مجموعی طور پر تےن ہزار ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈالا گیا، اگر موجودہ اتحادی حکومت کا موازنہ گزشتہ تحریک انصاف کی حکومت سے کیا جائے تو44 ماہ کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 48روپے 57 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا،ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پی ٹی آئی کے دور میں صارفین پر 470 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔مجموعی طور پر پی ٹی آئی حکومت نے بجلی صارفین پر 1 ہزار 180 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا۔بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے نہ صرف شہری ذہنی اذیت کا شکار بن رہے ہیں بلکہ تاجر برادری بھی اس سلسلے میں حکومتی پالیسی سے نالاں ہے اور بجلی مہنگی کیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر مجبور ہے۔راولاکوٹ میں شہریوں نے بجلی نرخوں میں اضافے اورلوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران شہریوں نے 20 سے زائد مقامات پربجلی کے بل جلادیے۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنی قرار دیا جائے اور کشمیر میں گلگت بلتستان کی طرز پر بجلی کا ٹیرف مقرر کیا جائے۔پشاور میں بھی تاجر برادری نے مہنگائی کے خلاف قصہ خوانی بازار سے گھنٹہ گھر تک ریلی نکالی اور حکومت کی خلاف نعرے بازی کی۔مظاہرین کے مطابق پیٹرول سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی کے طوفان سے نمٹنے کیلئے عوام کو نکلنا ہوگا اور اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو روزانہ احتجاج کرینگے۔فیصل آباد میں مہنگی بجلی پر شہریوں کے احتجاج کے باعث سمندری روڈ اور جڑانوالا روڈ پر ٹریفک معطل ہوگیا۔کراچی میں بھی چھوٹے تاجروں نے بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ریگل چوک پر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ وہ مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بل ادا نہیں کریں گے۔تاجر عوام کے ساتھ مہنگائی کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اور ادھار پر لیے گئے مال کی ادائیگیوں سے قاصر ہوگئے ہیں، تاجروں کی اکثریت اپنی بچت شدہ آمدنی استعمال کررہی ہے۔ تاجر نادہندہ ہورہے ہیں اور اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ٹمبر مارکیٹ کے تاجر بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں نہیں کریں گے، ٹمبر مارکیٹ کے بعد کراچی کی دیگر مارکیٹس بھی بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں نہ کرنے کا اعلان کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ نگراں حکومت پروٹوکول سسٹم کو ختم کرے، پروٹوکول سسٹم پر بھاری اخراجات کو بند کیا جائے، قوت خرید متاثر ہونے سے تاجروں کی آمدنی 25فیصد، اخراجات 75فیصد ہوگئے، جب کاروبار نہیں ہوگا تو ٹیکسوں کی وصولیاں بھی ناممکن ہوجائیں گی۔