سکردو میں پانی کا بحران

اےک خبر کے مطابق سکردو میں پانی بحران کے خاتمے کیلئے سابق صوبائی حکومت کی جانب سے رکھے گئے منصوبوں پر تاحال کام شروع نہےں ہوسکا جس کی وجہ سے سکردو کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت بدستور جاری ہے اور لوگوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے سابق صوبائی حکومت نے پانی بحران پر قابو پانے کیلئے زمین سے بورنگ کے ذریعے پانی نکالنے کیلئے کروڑوں روپے فراہم کئے تھے کچھ مقامات پر پانی نکالنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ایک دو مقامات پر زمین سے پانی نکالنے کا منصوبہ مکمل بھی ہوچکا مگر کچھ مقامات پر تاحال مذکورہ منصوبے پر کام شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔ مقامی لوگوں نے پانی کے منصوبوں کی منظوری نہ دینے پر شدید احتجاج کیا ہے اور کہاہے کہ سکردو کے کئی علاقوں میں پانی کا بحران بدستور جاری ہے اس کی بنیادی وجہ ان علاقوں میں پانی کے منصوبوں پر بروقت کام شروع نہ ہونا ہے بورنگ کے ذریعے پانی نکالنے کا منصوبہ ناگزیر ہے اس منصوبے پر بلاتاخیر کام شروع کیا جانا چاہیئے۔پانی کرہ ارض پر زندگی کا اہم جز وہے جو انسانی جسم کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اہم افعال سر انجام دیتا ہے۔ صاف پانی صحت مند زندگی کی ضمانت ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔پانی انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پانی کے بغیر زمین پر انسانی زندگی کا کوئی تصور تک نہیں۔ انسانوں کی زندگی سے لیکر جانوروں، پھولوں حتی کہ ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہی ہے۔ سائنس کے مطابق پانی زمین پر کیسے آیا یہ مسئلہ اب تک مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا ہے۔ اکثر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چونکہ شہابیے اور سیارچے اپنی سطح پر برف کی ایک بڑی مقدار رکھتے ہیں اسی لئے لاکھوں سال پہلے ممکنہ طور پر وہ زمین سے ٹکرائے ہوں گے اور انہی سے پانی زمین پر منتقل ہوا ہوگا۔زمین پر پانی کا تناسب 71 فیصد ہے لیکن اس میں سے صرف ڈھائی فیصد پانی ہی صاف اور تازہ ہے جو کہ پینے کہ قابل ہے اور اس میں سے صرف ایک فیصد تک باآسانی سے قابل رسائی ہے۔ جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی جارہی ہے قابلِ استعمال پانی تک رسائی بھی اسی تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ صدی میں جس طرح آبادی کا اضافہ ہوا اس لحاظ سے 2025 تک اےک ارب 80 کروڑ لوگوں تک پانی کی رسائی کافی حد تک قلیل ہوجائے گی۔ جبکہ 780 ملین لوگوں کی صاف پانی تک رسائی ممکن نہیں اور سالانہ 40 سے 80 لاکھ لوگ پانی کی عدم دستیابی اور خراب پانی کے نتیجہ میں ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں ایسے علاقے بکثرت موجود ہیں، جہاں پانی کی دستیابی ایک سنگین مسئلہ ہے،اگر حکومت تھوڑی سنجیدگی سے پانی کے حصول کے آسان اور سادہ طریقوں پر توجہ دے تو پانی کی دستیابی فی زمانہ اتنی بھی مشکل نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے ہمارے حکومتوں کا جن کی ترجیحات ہی نرالی ہیں جوپانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضرورت سے نظریں چرائے ہوئے ہے۔دنیا بھر میں جہاں جہاں پانی بہت کم مقدار میں ہے وہاں سستے طریقوں سے پانی محفوظ اور حاصل کرنے کے طریقوں اور منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے جس میں ایک طریقہ دھاتی ترپال کے ذریعے دھند کو جمع کرکے اس سے پانی کشید کرنا بھی ہے۔ پانی کو محفوظ کرنے کا یہ طریقہ انتہائی سستا اور سادہ ہے کیونکہ دھاتی جالیاں بنانا زیادہ پیچیدہ اور مشکل نہیں۔ اس عمل میں دھاتی جالیاں یعنی دھند جمع کرنے کے آلہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ جن میں ایک ترپال لگائی جاتی ہے جوکہ دھند کو فضا سے کشید کرتے ہیں اور جب کثیف دھند کی کثیر مقدار جمع ہوجاتی ہے تو یہ گاڑھی ہو کر پانی کہ قطروں میں تبدیل ہوجاتی ہے جو انسانی ضروریات کے لئے قابل استعمال ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح اگر پاکستان میں بھی اس منصوبہ پر سنجیدگی سے دھیان دیا جائے تو آسانی سے پانی کی قلت والے علاقوں میں پانی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے اور اس پر اگر عمل درآمد ہوجائے تو شہرےوں کو صاف پانی مہےا ہو سکتا ہے۔ پانی کے ذخیروں کو محفوظ بنانا اور اس کی فراہمی ہر شہری تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری کے ساتھ وقت کا تقاضا اور دانشمندی بھی ہے، اگر اس پر اب عمل نہیں کیا گیا تو آئندہ سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہونے سے صورتحال مزید تشویش ناک ہوسکتی ہے۔پینے کے صاف پانی کی کمی کے باعث لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر بیماریاں مضرِ صحت پانی سے پیدا ہو رہی ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بیکٹیریا سے آلودہ پانی ملک میں ہیپاٹائٹس، خسرے اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے جب کہ پانی میں آرسینک کی زیادہ مقدار زیابطےس، سرطان، پیدائشی نقص، گردوں اور دل کی بیماریوں کا موجب ہے۔ اسی طرح صنعتی شہروں میں کیمیائی مادوں کی پانی میں ملاوٹ ہونے کے باعث لوگ یرقان،جلد اور سانس کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، انتڑیوں کی تکالیف، دست، قے ، خون آنا اور آنکھوں سمیت بالوں کی مختلف بیماریاں کا بھی باعث بنتا ہے۔پینے کے پانی میں دھاتوں کی آمیزش بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ہر سال تقریبا دو لاکھ تیس ہزار بچے مضرِ صحت پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ بھی آلودہ پانی ہی ہے۔اگر آلودہ پانی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ مالیاتی لحاظ سے کیا جائے تو یہ صورت حال مزید تشویش ناک ہے کہ ہمیں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جب کہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہماری اکثریت پینے کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کرتی ہے جو دیہی علاقوں میں ہینڈ پمپ جب کہ شہری علاقوں میں موٹر پمپ کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔یہ صورت حال مستقبل میں مزید تشویش ناک ہوسکتی ہے کیوں کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جانے اور آبی آلودگی کی وجہ سے لوگ پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مضر صحت ذرائع اپنانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ندی نالوں، دریاوں، نہروں، کنووں اور جوہڑوں کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔حکومت نے کئی علاقوں میں واٹر سپلائی سکیمز متعارف کرائی ہیں لیکن ان میں استعمال ہونے والے زنگ آلود اور نا کارہ پائپ لائنیں جو ندی نالوں یا تعفن زدہ جگہوں سے گزرتی ہیں تو لیکج کی وجہ سے فضلہ، گندا پانی اور دیگر خطرناک مرکبات اس کا حصہ بن جاتے ہیں یوں صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بذات خود عوام کو مضر صحت پانی سپلائی کر رہا ہے۔صاف پانی کے ہر قطرے میں زندگی پوشیدہ ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے ۔معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو پوری نوعِ انسانی کو مستقبل میں بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف آٹھ فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صاف شفاف ،صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔گھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے پائپس کو صاف رکھنے کا مستقبل نظام بنایا جائے۔چھوٹے پیمانے پر آلودہ پانی کی صفائی کے طریقوں سے آگاہی دینے کے ساتھ شہریوں کو اس سے متعلق سستے آلات اور مشینیں بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔صاف پانی کو صرف پینے کے لیے استعمال کیا جائے جب کہ سمندر،دریا اور نہروغیرہ کے پانی کو کاریں دھونے،سڑکیں دھونے اور واش روم کے لیے استعمال کیے جانے کے انتظامات کئے جائیں۔ اس سلسلے میں اسکول ،کالجز ،جامعات اور مدارس کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرام کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس ضمن میں این جی اوز مختلف علاقوں میں اپنے فنڈز سے واٹر پلانٹ نصب کرنے کے علاوہ حکومت کے اشتراک سے مختلف طریقوں سے پانی کی صفائی اور کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پروجیکٹس بھی شروع کرسکتی ہیں۔حکومت کی ذمہ داری ہے وہ سکردو میں پانی کی قلت کا مستقل حل نکالے تاکہ عوام کو درپےش مشکلات دور ہو سکےں۔