تعلیمی اصلاحات ہی ترقی کی ضامن

صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا سے اے کے آر ایس پی کے عہدیدارن کی ملاقات میں وزیر تعلیم کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں جاری مختلف منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں اے کے آر ایس پی کی کوششیں قابل تعریف ہےں۔ AKRSP گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو مدد فراہم کرے گا۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ تعلیم کے شعبے کی بہتری کیلئے اصلاحات اور خصوصی اقدامات کر رہے ہیں گلگت بلتستان کے سکولوں میں ECD کلاسز کے اساتذہ کی تربیت سے گلگت بلتستان کے تمام بچوں و بچیوں کو ابتدائی اور معیاری تعلیم کی فراہمی حکومت کا اہم ویژن ہے تعلیم کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ تعلیم سماجی تبدیلی اور ترقی کے حصول کے لیے واحد ایجنٹ کا درجہ رکھتی ہے وہاں اساتذہ کے انتخاب کا طریقہ کار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اساتذہ کی قابلیت جانچنے اور ان کی تدریسی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے ایک پورا نظام تشکیل دیا جاتا ہے اور اس نظام کی چھلنی میں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد ہی کسی فرد کو اس شعبے میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے فِن لینڈ کی مثال کو ہی دیکھ لیں جسے دنیا کا بہترین نظامِ تعلیم سمجھا جاتا ہے۔ امیدواروں کے تعلیمی ریکارڈ کے علاوہ ان کی غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی کو بھی سیلکشن کے عمل میں خصوصی طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے یعنی اس پیشے میں خواہشمند افراد کی پوری تعیلمی پرفارمنس اس کے تعلیمی عمل کے بارے میں انفرادی رویے اور شوقِ تدریس کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے امتحانی عمل سے بھی اسے گزارا جاتا ہے جس میں نہ صرف اس کی تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ ایک مخصوص عرصے تک اس کو اپنی ان تمام صلاحیتوں کا کامیاب اظہار ایک کلاس روم کے ماحول میں کرنے کے بعد ہی کہیں اس فرد کا بطور معلم یا معلمہ انتخاب کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔اس طویل عمل سے گزرنے کے بعد اساتذہ کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبا کی تعلیم و تربیت کے لیے جو بھی طریقہِ کار منتخب کریں۔ہمارے ہاں سیاسی اثر و رسوخ یا ایسے امتحانات کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ہوتی ہے جن سے نہ ان کی قابلیت کا اندامہ ہوتا ہے نہ سوچنے سمجھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے۔ شعبہِ تعلیم علم کے حصول کے بجائے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کی سب سے بڑی منڈی ہے چونکہ معاوضے کے حوالے سے اس شعبے سے وابستہ افراد وہ سہولیات حاصل نہیں کر پاتے جو اور بہت سے شعبوں کو حاصل ہیں اس لیے زیادہ تر اس شعبے سے وابستہ افراد کی یہ آخری ترجیح ہوتی ہے۔مالی حوالے سے پرکشش نہ ہونے کے سبب اکثر نوجوان اپنی عمر بچانے یعنی اوور ایج سے بچنے کے لیے اپنے کیریر کی پہلی سیڑھی کے طور پہ اس کو اختیار کرتے ہیں اور جیسے کوئی اور نوکری میسر آتی ہے جس میں زیادہ پیسہ کمانے یا بنانے کے مواقع ہوتے ہیں تو اس شعبے سے وہاں چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ایسے حالات میں علم بیزار اساتذہ سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بچوں میں تجسس، علم کی پیاس، جاننے کی طلب پیدا کرنے میں کوئی دلچسپی رکھیں گے؟ یا ان کی تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوں گے؟بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کو سائنسی انداز میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں کارکردگی کے حوالے سے حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے وہیں تعلیم کے شعبہ میں بھی اصلاحات صوبائی اور وفاقی سطح پر کی جا رہی ہیں لیکن ان اصلاحات کے خدوخال کے حوالےسے حکومت وسائل کی کمی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ہمارے ہاں تعلیم کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے، اسکول یا مدرسوں کی صورت میں بچوں کو تعلیم فراہم کرتے ہیں اور یوں پاکستان میں بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لئے بنیادی طور پر تین طرح کے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں، گورنمنٹ اسکول، پرائیویٹ اسکول اور مدارس۔ شہروں میں اس وقت پرائیویٹ اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور رزلٹ بھی اچھے وہیں سے ہیں۔ جدید دنیا میں تعلیم کے بنیادی اداروں میں جو سہولتیں دستیاب ہیں وہ پاکستان کے چند پرائیویٹ اسکولوں میں موجود ہیں، البتہ ان پرائیویٹ اداروں کی مجموعی کارکردگی قابل بحث اور قابل اصلاح ہے۔ اگر ہم دیہات اور قصبوں کا جائزہ لیں تو یہاں پر سرکاری و غیر سرکاری ادارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی آمدن ہے۔ بدقسمتی سے پچھلی حکومتوں نے اس سلسلہ میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملا کچھ بھی ایسا نہیں کیا جس سے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی زندگی میں عملا بہتری آتی۔اگر ہم نے بحیثیت قوم سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو مستقبل میں چیلنجز کا مقابلہ ہم آنکھیں بند کرکے کیا کریں۔ جو قومیں خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں ان سے پھر قدرت انتقاما زندگی کی سہولتیں چھین لیا کرتی ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لائے بغیر ہمارا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا یکساں نصاب کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی ایک مخصوص وقت میں اپنی سفارشات حکومت کو عملدرآمد کیلئے پیش کرے، تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں، یہ ایک انقلابی قدم ہوگا جو پاکستان کے تعلیمی نظام میں تبدیلی اور بہتری کا پیش خیمہ ہوگا۔ تمام پرائیویٹ اسکول اور مدرسوں کی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اسٹاف اور اساتذہ کو ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی بینک کے ذریعہ کریں کیونکہ کم تر تنخواہ معیاری تعلیم اور رزلٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسکولوں میں کلین اینڈ گرین پاکستان کے حوالے سے پریڈ مخصوص کرنے کا قانون متعارف کروایا جائے اور یورپ کی طرز پر بچوں سے صفائی اور گرین پاکستان کے حوالے سے عملا کام لیا جائے۔ کھیلوں کے مقابلے ہر سطح پر منعقد کئے جائیں۔ بچوں کے مختلف اداروں کے مطالعاتی دورے مستقل بنیادوں پر کرائے جائیں، یہ معیشت کی بحالی کیلئے لانگ ٹرم پالیسی ہوگی تاکہ نوجوان نسل کو اپنے ملک کے حالات سے عملا آگاہی ہو۔ چائلڈ ایب یوز کے حوالے سے آگاہی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہو۔ جو ادارے اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ غرضےکہ بے شمار عملی اقدامات ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری لا سکتے ہیں کیونکہ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کے بغیر ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہوگا۔ اصلاحاتی پروگرام کے تحت ملک بھر کے تمام سکولوں کالجوں کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنا یا جائے کہ آیا کیا ہر طالب علم بھی اعلی معیاری تعلیم سے مستفید ہو رہا ہے یا نہیں ۔ دوسر ی اہم بات اساتذہ کی ترقیاں اور انہیں دیگر سہولیات کی فراہمی ان کی مدت ملازمت کی بجائے ان کی کارکردگی سے مشروط کر دی جائےں جبکہ اساتذہ کی تعیناتی میں بھی شفافیت و میرٹ کو یقینی بنایا جائے اور تمام تعلیمی اداروں کی کمپیوٹرائزڈ نگرانی کی جائے جبکہ طالب علمو ںکی حاضری کےلئے بھی بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروایا جائے جبکہ طالب عملوں کے والدین اور اساتذہ اپنے رابطے کےلئے ای میل اور میسج سسٹم سے استفادہ کر سکیں ۔یہ تعلیمی اصلاحات رائج ہونے کے بعد جہاں جدید ترین ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کا باعث بنیں گی وہاں کرپشن کی لعنت میں کمی کا بڑا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں ،وہ اسطرح کہ یہ اعلی تعلیم ہی کی خواہش ہے جو ہر والد ین کے دلوں میں جنم لیتی ہے ،ہر اک کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کر کہ کل کو اعلی سے اعلی نوکری حاصل کر کے نہ صرف اپنا مستقبل سنوار سکے بلکہ اپنے بال بچوںکو بھی اعلی سے اعلی مستقبل فراہم کر سکے ،اسی خواہش کی تکمیل کےلئے وہ رشوت لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہیں سے کرپشن کا آغاز بھی ہوتا ہے۔یہ اصلاحات ان والدین کو دوباری سرکاری اداروں کی طرف واپس لے آئیں گی جو اعلی انگریزی تعلیم کے شوق میں سرکاری اداروں کو خیر باد کہہ نجی اداروں کا رخ کر گئے تھے ،وجہ صرف یہی ہے کہ سرکاری ادارے سستے اور نجی مہنگے ہوتے ہیں ۔دنےا بھر میں معاشی مسائل کو طلبا کی مجبوری نہیں بننے دیا جاتا ۔ اس کے لیئے انہیں خصوصی تعلیمی قرضوں کا اجرا کیا جاتا ہے جو وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ملازمت کرنے پر انہیں اپنی سہولت کے حساب سے اقساط میں ادائیگی کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ یوں وہ پڑھائی کے دوران زیادہ لمبے وقفے سے بھی بچ جاتے ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی ۔ہماری حکومت کو طلبا کے لیئے صرف دو چار طلبا کو وظائف دیکر ہی مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ تعلیمی قرضوں کے اجرا پر سنجیدگی سے قانون سازی بھی کرنی چاہیئے اور ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جانا چاہےے۔