چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی اور ایڈیشنل سےکرٹری برائے وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی و نیشنل پروجیکٹ ڈائریکٹر گلاف ٹو سید مجتبی حسین کی زیر صدارت اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور گلیشےائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کے تناظر میں منصوبے کی تازہ ترین پیشرفت اور مستقبل کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ایڈیشنل سیکرٹری سید مجتبی حسین نے موسمیاتی تبدیلی کے موجودہ دور میں گلاف ٹوپراجیکٹ کی اہمیت پر زور دیا اور موسمیاتی خطرات سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں منصوبے کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے گلاف ٹو پراجیکٹ پر موثر عملدرآمد میں گلگت بلتستان ٹیم کی کارکردگی کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ وہ پراجیکٹ کے مقررہ اہداف کے حصول کے لیے اپنی محنتی کوششیں جاری رکھیں گے۔ گلاف ٹو گلگت بلتستان کے صوبائی کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے فورم کو گلاف پراجیکٹ پرعملدرآمد میں پیش رفت، چیلنجز اور آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ گلاف ٹو پروجیکٹ کے تحت قدرتی آفات کے خطرے سے دوچار علاقوںمیں ارلی وارننگ سسٹم کی تنصیب کا آغاز ہوا ہے جسے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔ اسی طرح آفت زدہ علاقوں میں واقع ندی نالوں میں حفاظتی بندوں کی تعمیر، پانی کے چینلز کی مرمت اور بحالی، کمیونٹی بیسڈ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ سینٹرز کی تعمیر اور محفوظ پناہگاہوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔چیف سےکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب وقوع پذیر ہونے والے قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے کے لئے گلاف ٹو اور شراکت دار اداروں کی مشترکہ کوششوں اور اقدامات کی تعریف کی جن کا مقصد مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا اور قدرتی آفات کے ممکنہ خطرات کے بارے میں عوامی بیداری کو فروغ دینا ہے۔ےہ حقےقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی قدرتی آفت کے واقع ہونے سے تےس سے چالےس روز قبل ہی اس کی پیش گوئی کرنا ممکن ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی تباہ کن قدرتی آفات ایک مستقل مسئلہ بن سکتی ہیں اور ہمیں اس کے مہلک اور خوفناک اثرات سے موثر طریقے سے نمٹنے اور محفوظ رہنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہ کن طوفانوں سے خبردار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل ارلی وارننگ سسٹم بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ کے سےکرٹری جنرل نے COP27 کانفرنس کے موقع پر کہا کہ پانچ سال کے منصوبے پر تےن ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ ناکافی انفرااسٹرکچر والے ممالک میں آفات سے ہونے والی اموات اوسطا 8 گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ ارلی وارننگ سسٹم پیشگی انتباہ کا نظام ہے،اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اس پر کام کیا جا رہا ہے، اور اس کے ثمرات بھی سامنے آرہے ہیں۔وطن عزیز پاکستان میں بھی ارلی وارننگ سسٹم حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ بالخصوص موسمیاتی تبدیلیوں، مون سون بارشوں، سیلاب کی تباہ کاریوں اور زلزلہ سے قبل اور مابعد ارلی وارننگ سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے۔اگرچہ قدرتی آفات میں نقصانات سے بالکل محفوظ رہنا ناممکن بات ہے، لیکن نقصان کو کم سے کم سطح پر ضرور لایا جاسکتا ہے۔ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور زلزلہ کے بعد آفٹر شاکس سے عوام کو آگاہ کر دیا جاتا ہے، جس پر حکومت اور عوام اپنے اپنے طور پر بچاﺅ یا حفاظتی تدابیر اختیار کر کے ممکنہ جانی و مالی نقصان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرع خاندانی جھگڑوں مذہبی و مسلکی اختلافات محروم طبقات پر ظلم و زیادتی کے واقعات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ جس کے لیے مختلف حکومتی و سماجی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ اور اس ضمن میں ان اداروں کا کردار مسلمہ ہے۔ایک امریکی تھنک ٹینک ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں اندازا لاکھوں افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کا سالانہ نقصان تقریبا اےک فیصد یعنی 1.7 ارب ڈالر ہوتا ہے۔ اس کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں 2030 تک پاکستان میں سالانہ 2.7 ملین افراد دریائی سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں تاہم ملک میں خستہ حال ارلی وارننگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے اور سیلابی خطرات سے متاثر شہروں میں سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کوکم کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طویل مدت کی واٹر پالیسی، اپ گریڈیڈ ٹیکنالوجی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ پاکستان کو سیلابی پانی کی آفات سے نکلنے میں مدد کرسکتا ہے۔محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق ملک میں موسم کی پیشں گوئی کے لئے مختلف شہروں میں صرف سات ریڈارز نصب کیے گئے ہیں جو کہ اگرچہ ایک ارلی وارننگ سسٹم کے اہم حصے ہیں لیکن ان میں سے صرف دو موثر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ ہما رے پاس پندرہ سال پرانی ریڈار ٹیکنالوجی ہے، اگر ملک کو سونامی، سائےکلون اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے موثر انداز میں بچانا ہے تو اس پرانے نظام کو فوری طور پر جدید نظام سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موثر طریقے سے سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ملک بھر میں کم از کم تےرہ موسمیاتی ریڈار نصب کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے اپنے نظام کو اپ گریڈ کرے جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کرچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ورلڈ میٹریولوجیکل آرگنائزیشن کے ارکان ہیں، دونوں کو موسمیاتی اور ماحولیاتی اعداد و شمار کا تبادلہ کرنا چاہئے۔ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا لیکن ان کے درمیان کشیدہ تعلقات انہیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا نے بتایا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے برادریوں کی سطح پر حل نکالا ہے۔ سیلاب کے خطرات سے متاثرہ کمیونٹیز کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سیلاب کے خطرات سے متاثر علاقوں میں لوگوں اور متعلقہ امدادی ایجنسیوں کو ان کے موبائل فون پر پانی کے خطرے کی سطح تک پہنچنے کی اطلاع دینے کے لیے اسپیشل معلومات کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔پاکستانی حکومت کوبھی چاہئے کہ سیلاب کے خطرات سے متاثر علاقوں میں لوگوں کو خطرے کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے کے لیے ذرائع ابلاغ کے خصوصی مراکز قائم کرے۔ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اس کے دریاﺅں کی کل اوسط بہاﺅ کے موجودہ سات سے بڑھا کر چالےس اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال آنے والے سیلاب کی شدت اور نقصان کو کم کیا جاسکے۔ ملک میں پانی کی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، ہمیں سیلاب سے نمٹنے کے لئے اکیلے ہی ایک موثر حکمت عملی اور انتظامی ڈھانچے کی تیاری کرنا ہوگی۔حکومت کو سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے عارضی انتظامات پر انحصار کرنے کے بجائے طویل مدتی پالیسیاں تشکیل دینا چاہئے۔ خطے میں ہمارا ارلی وارننگ سسٹم سب سےزیادہ خستہ حال ہے کیونکہ ہمارے یہاں لوگوں کو آنے والی آفات کے بارے میں کم از کم چوبےس گھنٹے پیشتر مطلع کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اگرچہ درمیانی اور طویل مدتی موسمیاتی پیشں گوئیاں سیلاب کے ساتھ نمٹنے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ انسانی لاپرواہی سے آنے والی آفات سے نمٹنے کے بجائے بہتر ہے کہ حکومت کو آب و ہوا اور آفات سے متعلقہ انتظامی امور کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ موسمیاتی پیشں گوئیوں کی محض ایک مخصوص حد تک تشریح کی جا سکتی ہے ہمیں متعلقہ محکموں میں بہتر رابطے اور سیلابوں سے نمٹنے کے لئے بہتر تیاری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو دریائی بہا اور بارشوں پر نظر رکھنے کے لئے جدید ترین گیجنگ نظام نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی پیش گوئی کے مراکز کو بروقت اور درست معلومات حاصل ہو سکیں۔ اس حوالے سے پہلے کچھ اقدامات اٹھائے گئے تھے جن کے اچھے نتائج آ رہے ہیں۔بارش ناپنے والے گیج اور پانی کی سطح ناپنے والے گیج پانچ دنوں کے بیک اپ پاور کی صلاحیت کے ساتھ نصب کیے جائےں ۔یہ گیج ہر دو منٹ بعد پانی کی سطح کی پیمائش لیتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مواصلاتی ترسیل کے ذریعے سے محکمہ موسمیات کے کنٹرول روم میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ جہاں سے ماہرین موسمیات ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے موسمیاتی پیش گوئیاں ایک کنٹرول روم بھیج دیتے ہیں جہاں سے عوام کو وارننگ جاری کی جا تی ہے۔ مکینوں کو بلند مقامات پرپہنچنے یا علاقے کو خالی کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں دس اطلاعی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے لیے تقریبا 24 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ اب تک شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔جاپانی حکومت اور یونیسکو نے پاکستان میں سیلاب کی اطلاعی اور انتظامی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے 4.05 ملین ڈالر کا منصوبہ شروع کرنے پر اتفاق رائے کیا تھا۔ تاہم ابھی اس میں وقت لگے گا۔پاکستان نے اس حوالے سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے رکن ممالک کے ساتھ موسمیاتی اور ماحولیاتی معلومات کے تبادلے کا ایک پر اثر ریجنل ماڈل تجویز کیا ہے۔یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اب ماہرین اس مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔
