Skip to content
نگران حکومت کے آتے ہی ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گرا دیا گیا۔وزارت خزانہ نے آئندہ پندرہ روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا، جس کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 17 روپے 50 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ساڑھے 17 روپے اضافے کے بعد 290 روپے 45 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل 20 روپے اضافے کے بعد 293 روپے 40 پیسے تک پہنچ گئی۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںحالیہ اضافے سے قبل ہی یکم اگست کو سابقہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کر دیا تھا، جس پر شہباز شریف حکومت کو عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کہا تھا کہ حکومت نے پوری کوشش کی کہ عالمی منڈی میں ہونے والے اضافے کا عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہم قومی معاشی پالیسیوں میں تسلسل کو برقرار رکھیں گے اور مزید معاشی بہتری لائیں گے۔پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آئوٹ پیکج معاہدے کے تحت 50 روپے فی لیٹر تک پٹرولیم لیوی لگانے کا وعدہ کیا ہے۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے گزشتہ ماہ پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کو منظوری دی تھی۔پاکستان نے 12 جولائی 2023 سے اپریل 2024 تک کی مدت کے لیے تین بلین ڈالر کے پیکج کے بدلے میں 13دیگر کارکردگی اور مقررہ اہداف کو قبول کرنے کے علاوہ 10بڑی شرائط قبول کی ہیں۔آئی ایم ایف کے مطابق ایس بی اے نے جو تفصیلات طے کی ہیں ان میں نئی حکومت کے لیے، اگر وہ چاہے تو، نئے پروگرام شروع کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔حکومت نے یہ وعدہ کیا کہ 2023-24 میں قومی اسمبلی سے پیشگی منظوری سے قبل کسی بھی نئے ٹیکس معافی کا نہ تو آغاز کرے گی اور نہ ہی کسی نئے ٹیکس میں چھوٹ دے گی۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کافی پیچیدہ اور کثیر جہتی تھے اور خطرات غیر معمولی حد تک زیادہ تھے۔ان کو حل کرنے کے لیے متفقہ پالیسیوں کے مستقل نفاذ کے ساتھ ساتھ بیرونی شراکت داروں کی جانب سے مسلسل مالی مدد کی ضرورت ہے۔ خطرات کو کم کرنے اور میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پروگرام کے معاہدوں کا مستقل اور فیصلہ کن نفاذ ضروری ہو گا۔سابقہ حکومت نے عہد کیا تھا کہ وہ جولائی کے اواخر تک بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کردے گی۔ اس اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا اور وہ اب ٹیکس معافی یا ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں دے گی۔ حکومت بجلی کی شرح میں پانچ روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں چالیس فیصد سے زیادہ اضافے کو نوٹیفائی کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔حکومت نے چین سمیت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کا وعدہ کیا اسی طرح گیس کے شعبے میں حکومت نے اوگرا کی طرف سے مقرر کردہ گیس کی نرخوں کے ایڈجسٹمنٹ کے فوری نوٹیفکیشن کے ساتھ ساتھ مقامی اور درآمد شدہ قدرتی گیس، دونوں کے لیے گیس کی قیمتوں کوایک اوسط نرخ میں ضم کرنے کا عہد کیا۔حکومت نے حالیہ بجٹ اور دیگر مالیاتی پروگراموں کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق کرنے کا عہد کیا تھا۔ حکومت اس کے لیے موجودہ مالی سال میں پارلیمان سے منظور شدہ اخراجات میں کسی بھی اضافی غیر بجٹ اخراجات کے لیے، کم ا ز کم انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام تک، ضمنی گرانٹس کی اجازت نہیں دے گی لیکن شدید قدرتی آفات کو اس سے مستشنی رکھا گیا تھا۔نگران حکومت آنے کے بعد مسلسل دوسرے روز انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کا رجحان برقرار ہے، ڈالر 3 روپے 42 پیسے مہنگا ہو کر 294 روپے 93 پیسے کی سطح پر آگیا۔اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 1.16 فیصد یا 3.42 روپے کمی ہوئی ہے اور ڈالر 294 روپے 93 پیسے پر بند ہوا۔بتدریج درآمدات کھلنے اور لیٹر آف کریڈٹ ایل سیزکے ریٹائر ہونے کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا ہے۔عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ روز بھی انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 3 روپے 2 پیسے کمی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ڈالر مہنگا ہو کر 291 روپے 51 پیسے کا ہوگیا تھا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کے تحت اوپن مارکیٹ اور انٹربینک مارکیٹ میں فرق 1.5 فیصد ہونا چاہیے۔لگتا ہے کہ روپیہ ابھی دبائو میں رہے گا، حکومت کی پالیسیاں ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ہمیں اسٹرکچرل اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، مالی اعتبار سے ہم بہتر پوزیشن میں ہیں لیکن ہماری پالیسیاں ناقص ہیں۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث غریب کیلئے سفر مزید مہنگا ہوگیا۔ آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ آنرز فیڈریشن نے کرایوں میں 100 سے 150 روپے تک اضافے کا فیصلہ کرلیا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی اثر انداز ہونے لگا، شہریوں کیلئے سفر کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ ٹرانسپوٹ مافیا کا کہنا ہے آئے روز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے کاروبار تباہ کردیا، پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے نیا کرایہ نام تیار کرلیا گیا، تمام ٹرانسپوٹرز سے مشاورت کے بعد کل سے اطلاق ہوگا۔ مختلف شہروں کو جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 150 روپے تک اضافہ ہوگا، پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے پر ٹرانسپورٹرز نے کرائے نہیں بڑھائے تھے۔لاہور سے راولپنڈی کا موجودہ کرایہ دوہزار 550 روپے ہے جو بڑھنے کے بعد دوہزار 650 روپے ہوگا جبکہ لاہور سے پشاور موجودہ کرایہ تین ہزار 200 اور نیا کرایہ تین ہزار 350 روپے ہوگا۔لاہور سے فیصل آباد کا موجودہ کرایہ 1180 روپے سے بڑھ کر نیا کرایہ 1300 روپے، لاہور سے سرگودھا کا کرایہ 1250 روپے سے بڑھ کر 1375 روپے اور لاہور سے بہاولپور کا کرایہ 2500 سے بڑھ کر 2650 روپے ہوجائے گا۔ مہنگائی کی شرح جانچنے کے لیے ادارہ شماریات کے وضع کردہ سسٹم میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ اہم ہے اور ماہانہ مہنگائی کی شرح کو ناپنے کے پیمانے میں اس کا حصہ چھ فیصد ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں لوگوں کے ایندھن کے اخراجات کو بڑھایا ہے تو اس کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کھیتوں، منڈیوں، فیکٹریوں اور بندرگاہوں سے مال لے جانے والی ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔گزشتہ پانچ سالوں میں ہر حکومت نے ایسے فیصلے کیے کہ عوام کو پچھلی حکومت بہتر لگنے لگی۔ نگران حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ کسی فرد کی نہیں پورے نظام کی بات ہے جو تنخواہ دار اور مزدور پیشہ طبقے کے خلاف ہے۔چاہے حکومت میں جو بھی ہو، اکثریت پاکستانیوں کی زندگیاں بدتر ہوتی چلی جائیں گی۔ یہ معاملہ یہاں تک رکنے والا نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت کنٹرول میں نہیں ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں اچانک اضافہ اور بجلی کے بلوں میں بھی اضافے کے بعد خدا ہی مڈل کلاس پر رحم کرے کیونکہ اس ملک میں حکمرانوں کو تو کوئی احساس نہیں۔دنیا بھر میں سب سے سستا پیٹرول اس وقت وینزویلا میں ہے جہاں اس وقت ایک لیٹر کی قیمت پاکستانی روپوں میں ساڑھے چار روپے فی لیٹر ہے، ایران میں ایک لیٹر پیٹرول 10 روپے 74پیسے میں مل رہا ہے، شام میں پیٹرول فی لیٹر57 روپے میں دستیاب ہے۔ ملائیشیا میں فی لیٹر پیٹرول 94روپے میں فروخت ہورہا ہے۔تیل کے ذخائر سے مالا مال قطر میں بھی یہ قیمت 116 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے، سعودی عرب میں ایک لیٹر پیٹرول 125 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، دبئی سمیت عرب امارات میں یہ قیمت 194 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ افغانستان میں پیٹرول کی قیمت 173روپے سے زائد ہے۔ورلڈ سپر پاور امریکا میں یہ قیمت 252 روپے فی لیٹر سے اوپر جا چکی ہے، بنگلا دیش میں 202روپے فی لیٹر پیٹرول فروخت ہوتا ہے، چین میں پیٹرول کی قیمت 281 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں ایک لیٹر پیٹرول 270روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ نیوزی لینڈ میں پیٹرول 401 روپے فی لیٹر خریدا جاتا ہے۔برطانیہ میں پیٹرول کی قیمت 424 روپے ہوچکی ہے، دنیا میں سب سے مہنگا پیٹرول اس وقت ہانگ کانگ میں دستیاب ہے جہاں پیٹرول 588روپے 71پیسے فی لیٹر میں دستیاب ہے، یہ صرف پیٹرول کی فی لیٹر قیمت کا موازنہ ہے، دنیا بھر کے ممالک میں پیٹرول کا اپنا معیار ، مقامی کرنسی کی ویلیو، وہاں کی فی کس آمدنی، لوگوں کا معیار زندگی اور مہنگائی کی شرح کی اہمیت اپنی اپنی جگہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں فی کس آمدنی سو ڈالرز ماہانہ ہے اور بھارت میں فی کس آمدنی 160 ڈالرز سالانہ ہے۔ امریکا میںتین ہزار ڈالرز کے قریب اورہانگ کانگ میں چار ہزار ڈالرز کے قریب ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو حکام صورتحال کے کنٹرول میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ان پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے کیوں صرف کیے جاتے ہیں۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں