گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ قراقرم ٹریفک کے بلاک ہوگئی، جس سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لاہور نالہ لینڈ سلائیڈنگ کے ملبے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے شہر بشام کے قریب ہائی وے بند ہوگئی ہے۔گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں گینی کے علاقے میں سڑک نمبر 428 پر بھی روڈ بلاک ہے۔ فرنٹیئرورکس آرگنائزیشن کی ٹیم نے مذکورہ مقام پر بحالی کا کام شروع کردیا ہے۔گلگت بلتستان کو بشام سے ملانے والی شاہراہ جو قراقرم ہائی وے کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتی ہے، بابوسر کے مقام پر بند ہے۔ موسلا دھلار بارش کی وجہ سے بجلی منقطع ہوگئی ہے اور علاقے میں پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوگئی ہے۔ بارش اور شدید طوفان کے باعث شاہراہ قراقرم پر بجلی کے کھمبے بھی گر گئے ہیں اور اسی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے عملے نے علاقے کی بجلی منقطع کردی اور ناکارہ کھمبے ہٹا رہے ہیں۔ بشام شہر سمیت پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا ہے۔پہاڑی علاقوں میں لےنڈ سلائےڈنگ معمول کی بات ہے۔لینڈ سلائیڈ قدرتی آفات کی ایک مہلک اور غیر متوقع قسم ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ پوری دنیا میں پتھروں کے گرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ڈھیلی مٹی، چٹانوں اور پتھروں کی آمیزش سے ہوتی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ زمین کے ہلنے، پہاڑوں کے ٹوٹنے، بارشوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پہاڑوں کی کچی مٹی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے پہاڑ سڑک یا مکان پر گر جاتے ہیں۔ جس سے بھاری نقصان ہوتا ہے۔ ہر سال پہاڑی علاقوں میں نقصان دہ لینڈ سلائیڈنگ سے بڑی تباہی ہوتی ہے جس سے جان و مال کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے پہلے تیاری کرنے سے گھر اور کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے اور زندہ باہر نکلنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ےہ جان لےں کہ آیا اس علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ پہلے بھی ہوئی ہے اور اس کے دوبارہ ہونے کا امکان کہاں ہے۔ اگر لگتا ہے کہ لینڈ سلائیڈ ہونے والی ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسی صورت حال میں آپ کا فوری ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ باہر نکل جائےں ۔مقامی انتظامیہ سے رابطے میں رہیں۔ متاثرہ پڑوسیوں کو مطلع کریں۔یہ عام طور پر اچانک ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے، پھر بھی اس آفت کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے کچھ موثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔لینڈ سلائیڈنگ آفت کے پھیلاﺅ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے علاقوں کے نقشے تیار کیے جائیں جہاں یہ آفت اکثر ہوتی ہے، ایسے علاقوں میں جنگلات کی کٹائی اور عمارتوں اور مویشیوں کی تعمیر پر بھی پابندی لگائی جائے۔ لینڈ سلائیڈ کے ملبے کے لیے ایک مضبوط دیوار بنائی جائے جو نیچے گر رہا ہے۔خیال رہے کہ اتنی مضبوط دیوار کی تعمیر سے پانی کے بہنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔لینڈ سلائیڈنگ کی جگہ پر پتھر اور لوہے کے تاروں کے جال لگانا۔اگر پانی کے بہاﺅ کو صحیح طریقے سے کیا جائے تو چٹانوں میں پانی کا اخراج کم ہوگا جس کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات کم ہوں گے۔ درخت لگانا لینڈ سلائیڈنگ کو روکنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ درختوں کی جڑیں پتھروں کو مضبوط کرتی ہیں اور مٹی کا کٹاﺅ بھی کم کرتی ہے۔پہاڑی علاقوں اور دریائی علاقوں میں زمین کا استعمال سائنسی طریقوں سے کیا جائے، لینڈ سلائیڈنگ کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور گاﺅں کی سطح پر بھی اس بارے میں سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔نالوں کو صاف رکھیں، لیک ہولز کھلے رہیں۔کوڑے، پتوں، پلاسٹک کے تھیلوں، ملبے وغیرہ کے لیے نالیوں کی جانچ کریں۔پانی کو ضائع نہ ہونے دیں، درخت لگانے اور جنگلات کی حد سے زیادہ کٹائی کو روکنا ضروری ہے۔زمین کے استعمال کے اصولوں کو مضبوط کرکے زمین کو کمزور ہونے سے روکنا، کھڑی ڈھلوان کی بجائے ہموار زمین میں زراعت کرنا، لوگوں کو زمین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں کو تعلیم فراہم کرنا۔گھر کو دریا سے مطلوبہ فاصلہ رکھ کر بنایا جائے۔لینڈ سلائیڈنگ والے علاقوں میں سڑکوں اور بڑے ڈیموں کی تعمیر میں متوقع چوکسی ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ غیر سائنسی ترقیاتی کام نہ ہوں۔لینڈ سلائیڈنگ ماحول کو بہت نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ وہ ندیوں اور نالوں کو بہاتی ہیں، جو پانی کے معیار اور مچھلیوں کی رہائش کو متاثر کر سکتی ہیں، لینڈ سلائیڈنگ جنگل کے بڑے حصے کو تباہ کر سکتی ہے اور ڈھلوانوں سے پیداواری مٹی کو ختم کر سکتی ہے۔کمزور عمارتوں، پتھروں میں دراڑیں اور دریا کے گدلے پانی کو وارننگ سمجھیں اور معلومات دیں۔گہرے ڈھلوان اور رساﺅ والے راستوں میں گھر یا عمارت نہ بنائیں۔ لینڈ سلائیڈنگ کے دوران ایسا نہیں کرنا چاہیے جس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔حساس جگہوں پر نہ رہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ سے پہلے ہمیشہ مٹی کی شناخت کریں اور زیادہ سے زیادہ موزوں درخت لگائیں تاکہ جڑوں کے ذریعے مٹی کے کٹاﺅ کو روکا جاسکے۔نلکوں کو صاف رکھیں، سوراخوں کو کھلا رکھیں، قدرتی نکاسی آب کو تبدیل نہ کریں۔ملبہ، کوڑا کرکٹ وغیرہ کو کھڑی ڈھلوان پر نہ ڈالیں۔ انتباہی علامات کے ساتھ عمارتوں کے گرنے، چٹانوں میں دراڑیں، ندیوں میں گدلے پانی کے لیے ہوشیار رہیں۔گہری ڈھلوان پر اور رساﺅ کے راستے میں تعمیر نہ کریں۔کھانے، پانی، فلیش، لائٹس، بیٹریاں اور ادویات کا ہنگامی سامان تیار رکھیں۔ضروری شناختی دستاویزات کے ساتھ ڈیزاسٹر کٹ رکھیں۔پرسکون رہیں، گھبرائیں نہیں، افواہوں پر دھیان نہ دیں۔کسی بھی غیر معمولی آواز کو نوٹ کریں جیسے درخت گرنے، پتھروں کے پھسلنے کا۔لینڈ سلائیڈنگ راستے کی ڈھلوانوں سے فوری طور پر ہٹ جائیں۔ڈھیلے مواد اور بجلی کے تاروں یا کھمبوں کو نہ چھوئیں اور نہ چلیں۔دریاﺅں، چشموں، کنووں وغیرہ کا آلودہ پانی نہ پییں۔قریب ترین عوامی پناہ گاہ تلاش کریں۔لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے سے دور، اضافی لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہوسکتا ہے۔تباہ شدہ زمین کو جلد از جلد دوبارہ ٹھےک کرےں کیونکہ بے اثر ہونے سے ہونے والا کٹاﺅ اچانک سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔لینڈ سلائیڈنگ کے مقام سے اس وقت تک دور رہیں جب تک کہ ہنگامی عملہ اور ماہرین حفاظتی تحفظ کو نہیں سنبھال لیتے۔کھلے سامان اور بجلی کی تاروں اور کمروں کو مت چھونا۔کہا جاتا ہے کہ افریقی ملک کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بہت عام ہیں جو کسانوں کی فصلوں اور بعض اوقات گھروں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔کسانوں نے اس سے بچنے کے لیے ڈھلوان سطحوں پر بانس کے درخت اگا دیے ہیں۔ بانس کے درخت زمین کی مٹی کو جکڑ کر رکھتے ہیں اور تیز بارشوں میں زمینی کٹاﺅ سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔یہ درخت جلد نشونما پا کر بہت تیزی سے پھیل جاتے ہیں چنانچہ جلد ہی ڈھلانوں پر ان کا جنگل اگ آتا ہے۔یہ درخت گاﺅں والوں کو نقصان سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی کمائی کا ذریعہ بھی ہیں، کسان ان کی لکڑی کاٹ کر فروخت بھی کرتے ہیں جس سے فرنیچر اور گھر وغیرہ بنائے جاتے ہیں چونکہ یہ درخت جلدی اگ آتے ہیں لہذا یہ کسانوں کو باقاعدہ اضافی آمدنی فراہم کرتے ہیں۔دنیا بھر میں بدلتے موسم گزشتہ چند سالوں سے شاہراہوں اور انفراسٹرکچر پر سوالیہ نشان دہرا رہے ہیں۔ وہ علاقے جہاں کم بارشیں ہوتی تھیں۔ اب طوفانی اور موسلادھار بارشوں کی زد میں آنے لگے ہیں لہذا معمولاتِ زندگی کی بحالی اور تکالیف سے بچاﺅ کے لیے ضروری ہے کہ تعمیراتی رجحانات میں تبدیلی لائی جائے اور جدید دور کے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے ٹانز اور سوسائیٹیز پلاننگ کے تحت تعمیر کی جائیں۔ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے لہذا اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہو کر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے جبکہ کچھ انسانی سرگرمیاں بھی ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات اربن فلڈنگ جیسے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔موسمی شدت کے باعث تیز بارش‘سبزے اور درختوں کی کٹائی‘نکاسی آب کے راستوں اور انفراسٹرکچر کے غیر مناسب ڈیزائن اور انتظامات‘نکاسی آب کی سہولیات کی ناکافی دیکھ بھال‘سیلابی پانی کے ساتھ آئے ملبے سے رکاوٹ‘نشیبی علاقوں میں سوسائیٹیز کی تعمیر‘غیر مناسب زرعی طریقے صورتحال کو خراب کرتے ہےں۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ صورتحال کے حوالے سے پےشگی حفاظتی انتظامات کےے جائےں‘جن علاقوں میں لےنڈ سلائےڈنگ معمول ہے وہاں سے لوگوں کی نقل مکانی کو ممکن بناےا جائے۔شاہراہ قراقرم پر لےنڈ سلائےڈنگ معمول ہے جس سے ٹرےفک کے بہاﺅ میں خلل واقع ہوتا ہے اس لےے ضرورت اس بات کی ہے حکومتی سطح پر ان علاقوں میں تمام ضروری انتظامات کےے جائےں۔
