چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بانیانِ ملت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنی محنت سے حاصل کی گئی آزادی کا دفاع کرنا جانتا ہے۔ آزادی کے76 سال مکمل ہونے پر کاکول میں واقع پاکستان ملٹری اکیڈمی میں منعقدہ آزادی پریڈ کی تقریب سے خطاب کے دوران آرمی چیف نے یوم آزادی کی اہمیت اور پاکستان کی تخلیق کے پس پردہ جذبے پر زور دیا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے۔ قوم نے آزادی منانے، مساوات قائم کرنے اور مسرت کی تلاش کی روایت کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے، جسے ہمیں آئندہ بھی برقرار رکھنا چاہیے۔جنرل عاصم منیر نے ملک کے بے پناہ وسائل اور نوجوانوں کے جوش و جذبے کی تعریف کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ ایمان، اتحاد اور تنظیم کے اصول پر قائم رہیں۔جغرافیائی تنازعات سے لے کر اندرونی خطرات تک قوم کو درپیش بے شمار چیلنجز کا اعتراف کرتے ہوئے آرمی چیف نے سخت لہجے میں واضح کیا کہ میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کے الفاظ میں سب کو خبردار کرتا ہوں کہ دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے، پاک فوج ہر قیمت پر پاکستان کی خود مختاری کے دفاع کے لیے تیار ہے۔انہوں نے اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور خطے میں بھارتی اقدامات کے خلاف عالمی برادری کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کیے جانے کی مذمت کی۔انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کا ضمیر اس بات کا ادراک کرے کہ کشمیر میں بھارتی زیادتیوں کا تدارک نہیں کیا جا رہا اور ان کی آزادی اور حق خود ارادیت سے انکار کیا جا رہا ہے۔جنرل عاصم منیر نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جو دو دہائیوں سے دہشت گردی اور پراکسی جنگوں کے خلاف ڈٹ کر لڑ رہے ہیں۔بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے آرمی چیف نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی آزادی کا دفاع کرنا جانتا ہے اور جارحانہ عزائم سے نہیں گھبرائے گا، ہمیں آزادی ایک عظیم جدوجہد کے بعد ملی اور ہم اس کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔علاقائی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، قطر اور ایران جیسے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کا ذکر کیا۔ جنرل عاصم منیر نے قوم پر زور دیا کہ عوام متحد ہوکر کھڑے ہوں اور اپنی ذات سے بالاتر ہوکر پاکستان کی خدمت کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں، پاکستان ہماری پہچان اور ہمارے وجود کا جواز ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں۔بلاشبہ آزادی ایک نعمت ہے جو قوموں کو انتھک جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل ہوتی ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان بھی برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں حاصل کیاگیا یہ وطن، برصغیر کے مسلمانوں کےلئے ایسی سرزمین ہے جہاں وہ اپنے آئین، مذہب اور روایات کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں۔یقینا آزادی کی قیمت ہوا کرتی ہے۔ آزادی کا حصول ایک کٹھن مرحلہ ہے تو آزادی کی حفاظت کرنا بھی ایک جہدِ مسلسل ہے۔اس میںدورائے نہیں کہ آزادی کی حفاظت بھی صرف مضبوط اقوام ہی کرسکتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف دفاعی اعتبار سے مضبوط افواج ہی وطن کی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کی اہل ثابت ہوتی ہیں۔آزادی صرف سرحدوں کی حفاظت کا نام نہیں بلکہ سرحدوں کے اندر قومی سوچ ، فکر اور شعور کی آزادی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ باہمی یگانگت، اخوت اور بھائی چارے کے بل بوتے پرکوئی بھی قوم، ملک کے اندرونی حالات کو پرامن اور باوقار رکھتے ہوئے قومی ترقی کا سفر جاری رکھتی ہے۔وطنِ عزیز پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں کی حفاظت سمیت بہت سے اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے لیکن یہ سب چیلنجز اور مشکلات اس وقت بے معنی ہو جاتی ہیں جب پوری قوم متحد ہو کر ملک کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے18اگست 1947کو عید کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں، اتنا ہی بڑا ارادہ اور اتنی ہی عظیم جدو جہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہئے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لئے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں، پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لئے بھی کم از کم اتنی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آپہنچا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت و فطانت اس بارِ عظیم کو آسانی سے برداشت کر لے گی اور اس بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے طے کر لے گی۔یقینا بانی پاکستان کو اس امر کا ادراک تھا کہ آزادی ایک بہت بڑی قومی ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے قوم کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ الحمداللہ پاکستان کے سبھی ادارے اور افراد اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن رکھے ہوئے ہیں جو ایک خوش آئند امر ہے۔ یقینا یہ قومی یکجہتی ہی ہے جو ہمارے مضبوط اور خوشحال مستقبل کی ضامن ہے ۔ ہم کندھے سے کندھا ملائے پاکستان کو قائد کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے۔جس ملک میں قوم سے ان کی آزادی رائے اور ان کی مرضی چھین لی جائے تو اس قوم کی حیثیت کسی پنجرے میں بند قیدی کی طرح ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے ہی ہم نے اپنے آپ کو دنیا کی ایک بڑی طاقت کی گود میں ڈال دیا ہے۔ نام نہاد امدادی قرضوں کے عوض ہم اپنی قومی خودمختاری کھو بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے اندر کوئی بھی فیصلہ، قانون سازی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتے۔ ہمارے حکمران خود بھی ڈرتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی دنیا کی ایک بڑی طاقت سے ڈراتے ہیں۔حکمران کہتے ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے، غربت ختم ہو رہی ہے، کشکول ٹوٹ گئے ہیں، مگر عوام پریشان ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے؟ غریب کا چولہا بجھ رہا ہے۔ کشکول ٹوٹ گئے ہیں؟ روپے کی قیمت گرتی گرتی کہاں آ کھڑی ہوئی ہے۔خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہمیں اپنی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرانا ہوگا اور اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے سود سے بھی پاک کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے ملک کو قرضوں کے بوجھ اور سود سے پاک کرنا ہوگا کیوں کہ جب ملک مضبوط معاشی بنیادوں پر استوار ہو گا تو تب ہی کہیں جا کر قومی خود مختاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ اپنے وطن میں انہیں اگر دینی آزادیاں حاصل ہیں، جان مال اور آبرو کو خطرہ لاحق نہیں ہے تو انہیں وہاں ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرامن شہری بن کر رہنا اور اپنے دین پر عمل کرنا چاہیے۔خود مختار اور آزاد اقوام ہی وہ واحد وسیلہ ہیں جن کی وجہ سے آزادی ہمیشہ قائم رہی اور امن ہمیشہ پروان چڑھا لہذا ہمیں سب سے بڑھ کر ہر صورت میں اپنی خودمختاری اور اپنی پیاری آزادی کی حفاظت کرنی چاہیے۔برصغیر صدیوں سے مختلف اقوام اور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے لیکن ان میں مسلم تہذیب کو ہمیشہ سے ایک جداگانہ اور منفرد حیثیت حاصل ہے۔مسلمانوں کی تہذیب، طرزِ بود و باش، فکر و نظر، کردار و عبادات، طرزِ معاشرت و معیشت دیگر اقوام بالخصوص ہندوں سے مختلف رہی ہیں۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے برصغیر میں آباد دو بڑی قوموں کے متعلق فرمایا تھا:ہندومت اور اسلام صرف مذاہب نہیں بلکہ دو جداگانہ سماجی نظام ہیں اس لیے یہ تصورمحض خواب ہی سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور ہندو کبھی ایک مشترکہ قوم میں ڈھل جائیں گے۔دونوں قوموں کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے اور ہر دو تہذیبیں اپنی بنیادجن افکار اور حقیقتوں پر رکھتی ہیں،وہ ایک دوسرے کی تہذیبوں سے مختلف ہیں۔ جب ان دو جداگانہ نظریات کی حامل اقوام کا ایک ملک میں باہمی امن سلامتی سے اکٹھا رہنا محال ہو گیا تو مسلمانانِ برصغیر کے مفکرین و اہلِ نظر نے ملت کی بقا اور عافیت کیلئے ایک الگ مملکت کا قیام تجویز کیا۔ نتیجتا دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانانِ برصغیر کیلئے ایک الگ اسلامی ریاست کی تشکیل کی تحریک کا آغاز ہوا اور بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور آزادی کا شعور قائد و اقبال سمیت تحریکِ پاکستان کے دیگر قائدین کی انتھک کوششوں،ان گنت قربانیوں اور لازوال جدوجہد کی مرہون منت ممکن ہوا۔اس سیاسی بیداری اور شعور آزادی کی بدولت دو سامراجی طاقتیں گاندھی سامراج اور برطانوی سامراج تاریخ کی بد ترین سیاسی شکست سے دو چار ہوئیں درحقیقت اس عظیم الشان کامیابی کے پیچھے دوقومی نظریہ ایک مرکزی اورمضبوط قوت کے طور پر کارفرماتھا مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین ِتحریک پاکستان کی سیاسی بصیرت اور دو قومی نظریہ کی حقانیت کا ادراک موجودہ بھارت کے حالات اور مسلم کش پالیسیوں سے باآسانی ممکن ہے۔اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان کا تحفظ نجی و حکومتی سطح پہ ہمارا اولین قومی فریضہ ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کے وقار اور سالمیت کا تحفط پاکستان کی نظریاتی اساس کے تحفظ سے مشروط ہے۔حکومتی حکمتِ عملی کے تحت نظریہ پاکستان اور قومی ہیروز کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے قومی سلامتی داﺅ پہ لگانے والے عناصر کی آئین و قانون کے تحت بروقت سرکوبی کی جانی چاہئے۔اسی طرح نسلِ نو میں نظریہ پاکستان کا شعور اجا گر کیا جانا چاہئے جس کیلئے ملک کا مثبت دانشور طبقہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
