چودہ اگست:آزاد کی اک آن ہے

بانی پاکستان قائد محترم محمد علی جناح نے علی گڑھ کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب وضاحت دی تھی؛ پاکستان تو اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھاحقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کی جنگ پہلے دن سے ہی لڑنا شروع کر دی تھی جسے 1947 میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا یقینا قائداعظم اور ان کے رفقا کو جاتا ہے‘آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو اب تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو چکی ہے اسے پڑھنے والوں کی آنکھیں حقیقی معنوں میں نم ناک ہو جاتی ہیں اور سنانے والوں کی بھی آواز رندھ جاتی ہے بلاشبہ اس کا مطالعہ کرنے والوں کے اذہان کے پردوں پر ایک فلم سی چلنے لگتی ہے، جس میں ہر طرف آگ اور خاک و خون کے شعلے دکھائی دیتے ہے سربریدہ اور بے گوروکفن بکھری لاشیں، معصوم ادھڑی عصمتیں، آبروریزی کی چیخ و پکار، اور دہشت سے لرزتے بھاگتے معصوم بچوں کی حالت زار کے مناظر دل چیر کر رکھ دیتے ہیں انسانی خون سے لتھڑی ٹرینیں ہر نئے اسٹیشن سے لپٹ کر روتی نظر آتی ہیں قدم قدم پر وقوع پذیر ہوتے انسانی المیوں سے دل پھٹتے چلے جاتے ہیں یقینا اس آزادی کی پاداش میں اس درد، تکلیف اور کرب کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے، اور اگر ممکن ہو بھی تو شاید اسے اسی کیفیت میں سمجھنا اور سمجھانا ایک نہایت مشکل امر ہے‘ہمارے اسلاف کی یہ ساری قربانیاں ہمارے بے خوف مستقبل کیلئے تھیں وہ ہماری بے خوف زندگی کے لئے کس قدر متفکر تھے، اس کا اندازہ تحریک آزادی کے ان واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے بلاشبہ ہم نے آزاد وطن میں، آزاد آب و ہوا میں، اور آزاد آذانوں کی گونج والی سرزمیں پر آنکھیں کھولی ہیں ہم نے صرف ہنستے بستے چہرے ہی دیکھے ہیں ہم نے لہلہلاتے کھیتوں میں اپنے کسانوں کو صرف ہل چلاتے ہی دیکھا ہے ہم نے کاج کاروبار کی رونقوں سے مزین خوب صورت شہر ہی دیکھے ہیں اور ہم نے اپنی مرضی سے اپنے راستوں کا تعین بھی کیا ہے اس لئے کہ ہمیں یہ آزادی وراثت میں ملی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے آزادی کی جد وجہد کی اہمیت کا اندازہ لگانا اور اس کی حقیقی روح اور تصور کو جاننا بہت مشکل ہے آج تہتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ہماری نوجوان نسل آزادی کو ایک جشن اور اچھل کود والے دن سے زیادہ نہیں جانتی، ہم آج بھی چہرے لباس، ہاتھوں پیروں کو سبز رنگ سے رنگنے کو ہی آزادی کی قیمت سمجھتے ہیں‘گھروں ،دکانوں اور گاڑیوں کے سجانے کو ہی حب الوطنی کا معیار گردانتے ہیں گلی کوچوں ، سڑکوں، شاہراہوں اور بازاروں میں شورو غل، ہلڑ بازی، نعرے بازی اور چیخنے چلانے کو قومی فریضہ سمجھتے ہیں لیکن اگر آج بھی ہمیں اس انمول رتن کی قدر و قیمت نہ معلوم ہو سکی تو پھر یقینا کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے آزادی کے مفہوم اور مقصد کو اگر اب بھی نہ جان سکے تو تاریخ ہمیں کٹہرے میں ضرور کھڑا کرے گی خدارا وقت کی نزاکت کو سمجھئیے، ہماری اس آزادی کے آنچل پر ایسے لہو رنگ چھینٹے ہیں جو ہماری عظمت اسلاف کے گواہ ہیں اور اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو حب الوطنی کے صحیح اور خالص جذبے سے روشناس کروانا ہے تاکہ اس دھرتی کو اس بام عروج پر پہنچایا جا سکے، جس کے خواب ہمارے اجداد نے صدیوں پہلے دیکھے تھے۔ےوم آزادی پاکستان ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947 میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اسکے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیراعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لے جانا ہے۔سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلی عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگاکر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائداعظم محمد علی جناح کے قول ایمان، اتحاد اور تنظیم کی پاسداری کریں گے۔ قوموں کی زندگی میں ےہ دن لازوال حےثےت رکھتا ہے کےونکہ دنےا میں آزادی سے بڑی کوئی نعمت نہےں‘14 اگست کو ہر سال یوم آزادی کے طور پر دھوم دھام سے منایا جاتا ہے جس میں جشن بھی ہوتا ہے، اور اجداد کی لازوال قربانیوں کا بھی بار بار ذکر کیا جاتا ہے بلاشبہ یہ دن مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف انگریزوں سے بلکہ ہندوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات ملی، لیکن شاید آزادی کا یہ حصول آج کے دور میں بہت آسان سمجھا جانے لگا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس کے مفہوم اور جدوجہد کے معنی بدل ڈالے ہیں، اور اپنی آنے والی نوجوان نسل کو اس نعمت عظیم کے حصول میں درپیش مشکلات و مسائل کی حقیقی منظر کشی سے نابلد و ناآشنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج وہ نواب سراج الدولہ سے لے کر نواب حیدر علی خان تک اور سلطان ٹیپو شہید سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی عبرت ناک داستان تک کے تمام حقائق سے لاعلم اور ناواقف ہیں‘آزادی کا یہ سفر صرف ایک آدھ صدی پر ہی محیط نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کئی صدیوں کی المناک و دردناک تاریخ ہے جو حریت و سرفروشی کی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے 1857 کی جنگ آزادی کے دلخراش واقعات سن کر تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن صد حیف کہ ہم آج تک لفظ لازوال قربانیوں سے بڑھ کر کچھ نہ جان سکے، اور شاید ہم نے کبھی جاننے کی کوشش بھی نہیں کی، کہ محض ان دو آسان سے الفاظ کے پیچھے کس قدر سوز و غم، مصائب و آلام اور صعوبتوں کے پہاڑ چھپے ہوئے ہیں ہمارے ہاں ہر سال یوم آزادی کی رسمی تقریبات پر ان لازوال قربانیوںکا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور خراج تحسین کے رسمی الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ سب طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ آزادی کے حصول میں درپیش مشکلات و آفات، اور آزادی کے حقیقی روح اور معانی کو آشکارا کرنے کے لئے ناکافی ہیں‘انگریز کی مکاریوں، مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیںاور انگریزی غلبے کا ایک کٹھن دور شروع ہوا، جس کے خلاف باضمیر اور غیرت مند مسلمانان ہند کی ایسی ایسی شاندار تحریکیں کھڑی ہوئیں، کہ جنہیں لکھتے لکھتے قلم کی سیاہی تک خشک ہو جائے، لیکن ان کا ذکر بدرجہ اتم موجود رہے تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور اپنی جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں، یہی لمحات ہماری جنگ آزادی کا نقطہ آغاز ہیں جنہیں ہم یقینا بھولے چکے ہیں ‘آج جشن آزادی کے موقع پرہم سب کومل کریہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم اپنے مسائل میں کمی لانے کےلئے اپنے اپنے شعبوں میں ایسا کام کرینگے جس سے پاک وطن ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا بلاشبہ اس وقت حالات بہت نازک ہیں ۔ اس وقت بیرونی طاقتیں ہمارے ملک کوکمزورکرنے اورہمیں آپسی اختلافات میں الجھا کراپنے مقاصد کوپورا کررہی ہیں لیکن ہمیں آپسی اختلافات بھلاکرملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اگر سب لوگوں نے مل کر یکجہتی کا مظاہرہ کیا تو بیرونی طاقتیں اپنے مقاصد کوکبھی پورانہیں کرپائیں گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے پاک وطن کو محفوظ رکھے آمین