وزیر داخلہ گلگت بلتستان شمس لون نے کہا ہے کہ آئس سمیت دیگر منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جشن آزادی کے فورا بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے پلان ترتیب دیا جائے گا ۔گلگت بلتستان میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جس میں مزید تیزی لائی جائے گی گلگت ، غذر اور بلتستان میں منشیات کا استعمال زیادہ ہورہا ہے جس کی روک تھام کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ علماکرام کو بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہے ۔ جاوید علی منوا نے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں منشیات بالخصوص آئس کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے اس کی روک تھام کے لیے حکومت کو چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کارروائی کرے۔نواز خان ناجی نے توجہ دلاﺅ نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں منشیات کی وجہ سے نوجوان نسل بہت متاثر ہورہی ہے اس کی روک تھام کے لیے مو ثر طریقے سے کارروائی کی جائے ۔منشیات اس علاقے کو تباہی و بربادی کی طرف لے جارہی ہے اگر یہ صورتحال رہی تو تعلیمی ادارے بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔منشےات کا زہر تےزی سے نوجوانوں کی رگوں میں انڈےلا جا رہا ہے‘اسکی خواتین اور طالبعلموں میں خاصی مانگ ہے اور یہ اسی منشیات کی ہلکی کوالٹی کے مقابلے میں نسبتا مہنگا ہوتا ہے۔ منشیات کے ڈیلر اپنے کاروبار کے تحفظ اور قانونی کارروائی سے بچنے کیلئے عام طور پر ماہانہ دس سے پندرہ ہزار علاقے کے ایس ایچ او کو دیتے ہےں۔ بے گھر اور بے روزگار منشیات کے عادی افراد روزانہ 100 روپے کی چرس استعمال کرتے ہیں جبکہ طالب علم اور اونچے طبقے کی خواتین ہفتے میں 1500 روپے مالیت کی اعلی کوالٹی کی منشیات خریدتی ہیں۔چرس قوت خرید میں ہونے کے باعث کافی مقبول ہے اور اس کے ساتھ اس کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہیروئن اور دیگر نشہ آور چیزوں کی نسبت اس کے صحت پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ہیروئن کے زیادہ استعمال نہ کرنے کی وجہ صرف مہنگا ہونا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہیروئن کا عادی فرد معاشرے میں بھی صحت اور دماغ اعتبار سے پسماندہ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ منشیات کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے تاہم کبھی کبھار یہ پرخطر بھی ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب ایک نیا ایس ایچ پولیس اسٹیشن کا چارج لیتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ میں اضافہ کر دیتا ہے۔ گاہکوں سے عام طور پر یہی لوگ معاملات طے کرتے ہیں، طالب علم اور خواتین اپنے آرڈر ٹیلی فون پر دیتی ہیں جبکہ کم آمدنی والے منشیات کے عادی افراد براہ راست ان سیلز مین سے رابطہ کرتے ہیں جو عام طور پر اپنے شکار کی تلاش میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔منشےات فروشوں کی زیادہ تر کمائی خواتین اور طالب علموں سے ہوتی کیونکہ یہ زیادہ بھاﺅ تاﺅ نہیں کرتے۔ شیشہ کے کاروبار سے بھنگ کے کاروبار کو کسی حد تک نقصان پہنچا تھا کیونکہ نوجوانوں میں یہ ایک نیا رجحان بن گیا تھا تاہم پولیس کی جانب سے شیشہ پارلرز کیخلاف کارروائی کی وجہ سے حشیش کی مانگ میں پھر اضافہ ہو گیا ہے۔غربت بے روزگاری تو پہلے ہی ہمارے ہاں ڈیرے ڈالی بیٹھی ہے اوپر سے منشیات گلیوں محلوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کاروبار ہمارے بڑے لوگوں کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ شراب تو پرمٹ پر مل جاتی ہے اور مخصوص گھروں میں دستیاب ہوتی ہے۔ شراب میں ملاوٹ سے بھی منشیات فروشوں نے خوب کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ نوجوان نسل تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ اور بڑے ذہین و فطین نوجوان نشہ کے عادی ہو رہے ہیں اور نوجوانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گلیوں‘ محلوں اور تعلےمی اداروں میں منشیات فروشی کا دھندہ کرنے والے جو کسی سے نہیں ڈرتے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو آنے والی نسلیں تباہی و بربادی سے بچ سکیں گی۔ہمارے سماج کے خوفناک اور تباہ کن مستقل کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب جب بھی ہمارے سماج میں گدھ نمامنشیات فروشوں پر پولیس نے اپناشکنجہ کسا تب تب ہمارے میں سماج کے ذمہ دارلوگ منشیات فروشوں کوپولیس کے شکنجے سے باہر نکالنے کا کام بڑے فخرسے انجام دیتے ہیں۔ ایسے افراد بھی قصوروار ہیں جو منشیات فروشوں کو بچانے کا کام کر کے نسل ِ نو کیلئے تباہی کا پیغام لاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب پولیس منشیات فروشوں کو گرفتار کر کے قابل ستائش اقدام اٹھا رہی ہے وہیں مقامی لوگوں کوپولیس کابھر پور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ اس لئے تمام سیاسی، سماجی و فلاحی تنظیموں کو آگے آکر پولیس کی اس نشہ مخالف مہم کو آگے بڑھانے میں زمینی سطح پر کام کرنا چاہیے۔تعمیر و ترقی اور باشعورسماج کے ان دعوﺅں کو حقیقت کا روپ دینا وقت کا تقاضا ہے۔ایسے میں صحافی حضرات،شعرا، ادیبوں اورقلمکاروں کو بھی اپنا کردارنبھانا ہوگا۔ صحافیوں کو محض سیاسی تجزیوں اور پریس نوٹوں تک خود کو محدود نہیں رکھناچاہیے۔ صحتمند اور باشعور سماج کی تکمیل کیلئے سماج کے ہر فرد کا بہتر کردار اشد ضروی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ علاقہ بھر میں نوجوان نسل کو موت کی آغوش میں دھکیلنے والے ہم خود ہیں۔ موت کے سوداگروں کے خلاف پولیس کی کارروائیوں میں روڑے اٹکانے میں بھی ہمارا ہی ہاتھ ہے اور یہی ہماری تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ متعدد تعلیمی اداروں خصوصا سر کاری اداروں میں منشیات فروش اپنانیٹ ورک قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہیں برائے نام ٹھیکیدار تو کہیں ذمہ دار کسی نہ کسی طرح اس مکروہ دھندے کا حصہ بنے ہوئے ہیں سکولوں اور کالجوں کے باہر موت کے سوداگر شکار کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس ناپاک اور مکروہ دھندے کا نیٹ ورک بڑھانے کے لئے مستقبل کے ان نونہالوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ انتہائی افسوسناک بات تو یہ ہے کہ منشیات کے اس مکروہ کارو بار میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ منشیات کا کارو بار کر نے والے موت کے سوداگروں کو اکثر پولیس کی کالی بھیڑوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جو ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کو کامیاب نہیں ہونے دیتی ےوں ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ نشہ مخالف مہم کو آگے بڑھانے کے لئے سماج کا ہر فرد اپنا مثبت کردار نبھائے۔منشیات کا استعمال ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ اب ایک بین الاقوامی مسئلے سے زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے، ہیروئن اور دوسری نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت موت کا ایک کاروبار ہے دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس مکروہ بیوپار میں ملوث ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا شمار منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے ملکوں کی فہرست سے نکل کر منشیات کے استعمال سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست آگیا ہے۔ اس مسئلے کا سب سے لرزہ خیز پہلو یہ ہے کہ یہ وبا زیادہ تر نوعمر افراد کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اس سلسلے میں کی گئی مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اٹھارہ سے چھبےس برس کی عمر کے افراد ہیروئن کے عادی کل افراد کا 62 فیصد ہیں اور اب تو نہ صرف معاشرے کا عام طبقہ بلکہ عورتیں، کامیاب تاجر پیشہ افراد، محنت کش، طلبا اور حتی کہ سرکاری ملازمین بھی اس مہلک نشے سے محفوظ نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ کیا ہے؟ اور کسی فرد کو نشے کا عادی ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ماہرین کے اندازے کے مطابق، نوجوانوں میں بیروزگاری بھی منشیات کے استعمال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بڑی خطرناک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب سگریٹ کے ذریعہ ہیروئن استعمال کرنے کے بجائے ٹیکے کا استعمال بڑھ گیا ہے، اس سے جہاں ہیروئن کے استعمال میں آسانی ہوتی ہے وہیں خطرات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں کیونکہ استعمال شدہ سوئیاں اور سرنج اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کر رہی ہیں اور آئندہ برسوں میں ہیروئن کے باعث ہونے والی اموات میں ناقابلِ یقین حد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ مستقبل میں اس لعنت کے مزید پھیلنے کی توقع ہے کہ نہ صرف منشیات زدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ موت کے بہت سے اور سوداگربھی اس نفع بخش کاروبار میں شامل ہونے کیلئے کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ نشہ آور تمام چیزیں مثلا ہیروئن، چرس، افیون وغیرہ کھلے عام فروخت ہوتی ہیں والدین جن کے بچے کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں شدید پریشانی کا شکار ہیں ہماری حکومت کو چاہئے منشیات فروش ایک مضبوط مافیا ہے ان کے خلاف کریک ڈاﺅن کرے اور ان ذرائع کو بند کرے جہاں سے منشیات آتی ہیں، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اس کا سدباب کرے۔ پاکستان میں منشیات کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے نیز تعلیمی اداروں بڑھتے رجحان کی وجہ سے طلبہ کا مستقبل بھی داﺅ پر لگا ہوا ہے۔پاکستان میں ہر سال اعشاریہ پانچ فیصد منشیات کے عادی افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جو تشویشناک امر ہے لیکن اب تک کوئی سرکاری موثر پالیسی نہیں بنائی گئی۔ تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کی روک تھام کے لیے قانونی سازی کی جانی چاہےے ۔ تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کی سطح پر منشیات کا استعمال مسلسل بڑھنے کی شکایات موصول ہوتی ہیں مگر ان تعلیمی اداروں کو اپنی بدنامی کا بھی خیال ہوتا ہے اس لیے خاموش ہوجاتے ہیں مگر اس جانب سنجےدگی سے توجہ دےنے کی ضرورت ہے۔
