کراچی کے تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائرز کے خلاف پہلی مرتبہ بڑے کریک ڈاﺅن کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کیلئے اضلاع کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں فروخت اور وہاں منشیات سپلائی کرنے والوں کی فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں، منشیات فروشی اور سپلائی میں ملوث ملزمان کی تفصیلات اور موبائل نمبر بھی فہرست میں شامل ہیں جبکہ فہرستوں میں بیشتر منشیات فروشوں کا کرمنل ریکارڈ آفس کا ڈیٹا بھی منسلک کیا گیا ہے۔کراچی تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے خلاف تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق ضلع جنوبی کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشوں کے بارہ گروہ متحرک ہیں، ملیر کے تعلیمی اداروں کے اطراف تین بڑے گروپس کام کررہے ہیں جبکہ کورنگی میں سرکاری اسکولوں کے احاطے میں قائم گھروں سے ایک خاندان منشیات سپلائی کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق لیاری کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں تےن بڑے گروہ کام کر رہے ہیں، ضلع وسطی میں پانچ گروہ تعلیمی اداروں کے اطراف منشیات فروخت کرتے ہیں جبکہ ضلع شرقی میں تےس سے زائد ملزمان پر مشتمل گروہ طلبا و طالبات کو نشہ فراہم کرتے ہیں۔صوبے بھر میں منشیات فروشوں اور سپلائرز کے خلاف گرینڈ آپریشن کیلئے جمعہ کو پولیس کا اہم اجلاس طلب کیا گیا تھا۔تعلےمی اداروں میں منشےات صرف کراچی کا مسئلہ نہےں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلبا طالبات، جیلوں کے قیدیوں میں آئیس، ہیروئن، کوکین، چرس، افیون، شراب، مارفین کے ٹیکے سگریٹ نوشی، شیشہ نوشی کے استعمال میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا جار ہا ہے۔ جس پر والدین کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ادارے بری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نارکاٹکس کنٹرول پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے کر قانونی کاروائی کرتے رہتے ہیں۔ سزاﺅں کے قانون میں سخت ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں دھشت گردی کے بعد دوسرا سب سے سنگین جرم منشیات کی فیکٹریاں اور سمگلنگ ہے۔ جن کے خلاف پاک آرمی کے زیر نگرانی فوری گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے۔پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاﺅن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن ان کے پس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کے اس اہم ایشو پر نوٹس لے کر ذمہ دار اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔تعلیمی اداروں کے اندر طلبا میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر ایک رپورٹ کے مطابق بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ متوسط درجے کے اسکولوں میں بھی منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح ہے؟ اس بارے میں طلبا کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گارڈز منشیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر کوئی گارڈ پکڑا بھی جائے تو چند دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لئے پولیس کو چاہئے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کے باہر خصوصا چھٹی کے اوقات میں غیر متعلقہ افراد کے کھڑے ہونے پر پابندی عائد کریں۔محکمہ پولیس کی کئی کالی بھیڑیں بھی منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سر پرست ہیں، جب کہ منشیات فروشوں کو سیاسی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے آواز اٹھانے پر منشیات کے خاتمہ کی جدوجہد میں اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اور محکمہ سوشل ویلفیئر فعال ہوگئے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریبا ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ صرف ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے جب کہ 15 فیصد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ اس تعداد میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔دیکھا گیا ہے۔پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت اب تک منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوچکی ہیں۔اس ضمن میں محکمہ ایکسائز، کسٹم اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کے باجود پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔اس کے استعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرائم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔بعض افراد کے مطابق منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جب کہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زیادہ افراد منشیات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نشہ کی لت دولت مند گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں میں زیادہ ہے کیونکہ پیسہ ان کے لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتا اور نشہ بیچنے والے ایسے ہی امیر گھرانوں کے لوگوں کو پھانستے ہیں کیونکہ وہ آسان اور منافع بخش کاروبار کو ایسے ہی امیر زادوں سے بڑھاتے ہیں۔ ایک بار حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کا خون ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ان میں سے جن لوگوں کے خون میں نشہ پایا گیا اس کا علاج ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منشیات فروشوں پہ نظر رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی محض وعدہ ہی رہا۔ آئس سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔ پارٹی ڈرگز کہلانے والی یہ منشیات پارٹیز سے نکل کر تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن، چرس اور دیگر نشے عام تھے۔ آئس ان ناموں میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ چند سالوں سے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہو رہی ہے۔اس کو سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیا جاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح بظاہر معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس نشے میں 24 سے 48 گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے پہل طلبہ اس کی طرف اس لئے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرسکیں مگر اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ بعد میں وہ ان کے دماغ کو کمزور اور وجود کو کمزور کر کے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کر دیتا ہے۔وہ معاشرے کے ناکارہ فرد بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے ۔ اس کے لئے عموما بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ کے آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے پوش علاقوں، جامعات، ہاسٹلز اور فارم ہاﺅسز میں اس نشے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر اقتدار کی جامعات میں بھی بآسانی یہ آئس نامی زہر قاتل دستیاب ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی ملازمین اور دیگر افراد نوجوانوں کو آئس فراہم کرتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ان کی مصروفیات دوستوں کا حلقہ اور دیگر مقامات پر جہاں وہ جاتے ہیں مثلا کوچنگ سینٹر پر بھی نظر رکھیں۔یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ والدین نے اپنے بچوں پر نظر رکھنا چھوڑ دی ہے۔منشیات کے بے جا اور میڈیا کے منفی استعمال سے بچے اور نوجوان غلط راہ پر چلے گئے ہیں۔ جب شراب، چرس باآسانی یونیورسٹی میں مل جائے تو ایلیٹ کلاس کے نوجوان طلبہ و طالبات کو بگڑنے سے کون روک سکتا ہے؟
