گلگت بلتستان کیلئے موسمیاتی فنڈ کی منظوری

ایکنک نے گلگت بلتستان کے لیے سولہ ارب سے زائد کے موسمیاتی فنڈنگ کی منظوری دی ہے۔ان منصوبوں کے تحت واٹر سپلائی،سینی ٹیشن،مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس ،موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والے گھروں کی تعمیر کے پراجیکٹس، جی او جی بی کے لیے صلاحیت سازی کے پروگرامز،گرین ہائیڈروجن پروجیکٹ کی پائلٹنگ،شعبہ سیاحت کے فروغ سمیت و دیگر منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ ان منصوبوں کی منظوری سے خطے میں پائیدار ترقی کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگی، اے کے اےف،اے کے ڈی اےن اور ےورپی ےونےن کے تعاون سے ان منصوبوں کو گلگت بلتستان حکومت کے لیے ایک گرانٹ کے طور پر مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔دیہی ترقی اور کلائمیٹ ریزیلیئنس پراجیکٹ گلگت بلتستان کی تمام کمیونیٹیز کے لئے اس پراجیکٹ کا آغاز ایک اہم سنگ میل ہے،جس کو ترقیاتی چیلنجوں و موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے اور خطے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔اسے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے تعاون سے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا۔اس حوالے سے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کا جامع دائرہ کار مختلف شعبوں پر محیط ہے،جس کے مطابق گلگت بلتستان بھر کی کمیونٹیز کے لیے پینے کے صاف اور محفوظ پانی تک رسائی کو بہتر بنانا،صحت عامہ کے تحفظ کے لیے بہترین و پائیدارصفائی کے طریقوں کو نافذ کرنا اور علاج کی سہولیات کا قیام،ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحول دوست اور توانائی سے بھرپور مکانات کی تعمیر،قابل تجدید توانائی پیدا کرنے اور پائیدار ترقی کے لیے مقامی آبی وسائل کا استعمال،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی ترقی کو فروغ دینا تاکہ معاشی ترقی کو تقویت ملے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔گلگت بلتستان میں موسمےاتی تبدےلےوں اور مختلف سہولتوں کی فراہمی کے لےے موسمےاتی فنڈز کی منظوری اہم قدم ہے۔پاکستان موسمیاتی ہنگامی حالات سے نمایاں طور پر متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاﺅس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔گرین ہاﺅس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور تبدیل ہوتے موسم میں دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔گزشتہ برس مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں ‘چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔انسانوں پر شدید موسم کے اثرات کو محدود رکھنے میں مدد دینے کے لئے موسمیاتی نگرانی اور ایسے واقعات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام بنانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت واضح ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو سستا اور پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔گلیشیئروں کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے کا عمل ہزاروں سال تک جاری رہے گا جو 2022 میں دوبارہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا تھا۔ بحر منجمد جنوبی میں برف کی تہہ میں تاریخی کمی آئی اور یورپ میں بعض گلیشیئروں کا پگھلنا واقعتا غیرمتوقع تھا۔گرین لینڈ اور انٹارکٹکا میں گلیشیئروں اور برفانی تہہ کے پگھلنے کے علاوہ گرمی کے سبب سمندری حجم بڑھنے سے بھی سطح سمندر میں اضافہ ہوا جس سے ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔شدید موسمی حالات نے دنیا بھر میں غیرمحفوظ ترین لوگوں کی زندگیوں کو غارت کر دیا ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچ سالہ خشک سالی اور مسلح تنازعات جیسے دیگر عوامل کے سبب خطے بھر میں بےس ملین لوگ تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک آٹھ ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔ سال بھر خطرناک موسمی حالات نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے علاوہ پہلے ہی بے گھری کی زندگی گزارنے والے95 ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدترین بنا دیے۔ہم جانتے ہےں کہ حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں۔ اس لےے فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیرمعقول جنگ بند کی جائے۔ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے ذرائع، علم اور طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعلی حکام، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے رہنماﺅں پر مشتمل ایک مشاورتی پینل نے اپنے اجلاس2027 تک تمام ممالک کو شدید موسمی واقعات سے بروقت آگاہی کے نظام کے ذریعے تحفظ دینے کی غرض سے ایک عالمگیر اقدام کی رفتار تیز کرنے پر زور دےا تھا۔گزشتہ کچھ برسوں کے دوران، انتہائی نوعیت کی موسمیاتی کیفیات پاکستان میں معمول بن چکی ہیں۔ شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی اور سیلاب ہر سال عام ہو چکے ہیں جو غذائی و آبی تحفظ کو متاثر کرتے ہیں۔ پسماندہ طبقے جیسا کہ غریب، بزرگ اور خواتین ان نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کم ترین کاربن خارج کرنے والے ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود بھی پاکستان انتہائی موسمیاتی واقعات سے وابستہ خطرات سے سب سے زیادہ دوچار دس ممالک میں سے ایک ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ انٹرگورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی، جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیشنگوئی کر چکا ہے۔اگر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں غذائی پیداوار کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ملک میں پانی کے بنیادی ذریعے سندھ طاس کو پانی سے بھرتے ہیں، پوری بیسیویں صدی کے دوران ان گلیشیئرز نے اپنے وجود کا اتنا حصہ نہیں کھویا تھا جتنا کہ وہ اب کھو چکے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جس کے جی ڈی پی کا فیصد کافی حصہ زرعی شعبے اور سندھ طاس پر انحصار کرتا ہے، اس کے لیے یہ تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔شدید موسمیاتی کیفیات پانی کی کمی کے لیے خطرہ ہونے کے علاوہ، ذرائع آمدن اور زراعت کے لیے بھی تیزی سے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ ہر موسم گرما میں، مون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ نتائج ہر سال کے ساتھ ابتر ہو رہے ہیں۔چونکہ اس قسم کے موسمیاتی جھٹکوں کی تعداد آنے والے برسوں میں بڑھنے کا خدشہ ہے، ایسے میں پاکستان کی غذائی پیداوار کی صلاحیت میں بھی انتہائی نوعیت کے موسمیاتی واقعات کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔گندم جو کہ پاکستان کی قومی غذا میں فائبر کا بنیادی ذریعہ اور مجموعی طور پر غذائی تحفظ کا ایک اہم تعین کنندہ ہے۔ پاکستان میں صارفین کے لیے مہنگائی ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی ہے، جس نے عوام الناس کی قوت خرید کو نمایاں طور پر محدود کیا۔ فیول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بیجوں، توانائی اور نقل و حمل کی لاگت میں اضافے کی شکل میں زرعی شعبے پر اثرانداز ہوئی ہیں۔ کھاد اور مقامی سطح پر جوڑے گئے ٹریکٹرز کی قیمتوں میں یکدم اضافہ ہو چکا ہے،جس سے کسانوں کے لیے انہیں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔غربت اور مہنگائی کی بلند شرح اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی کی شکل میں پاکستان پہلے ہی ایک اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی عدم تحفظ ملک کے پہلے سے موجود مسائل میں مزید بگاڑ لائے گا۔ چونکہ ذرائع معاش پر، موسمیاتی تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں، ایسے میں داخلی سطح پر ہجرت اور ہزاروں افراد کی نقل مکانی، وسائل پر مبنی تنازعے کا باعث ہو سکتی ہے۔ تباہ کن سیلابوں نے کسانوں کی بڑی تعداد کو کام کی تلاش میں شہروں کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیا ہے ۔ آنے والے برسوں میں موسم کی بدولت صحت کو لاحق خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں جس سے ملک میں صحت کے محدود انفراسٹرکچر پر بھی دباﺅ بڑھ سکتا ہے۔حکومت کو سماجی اقتصادی مسائل کی دلدل میں گھرے ملک کے لیے ان موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک سنگین خطرہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔