Skip to content
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ کردیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کیا۔وزیر خزانہ کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل 19 روپے 90 پیسے مہنگا کیا گیا ہے جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 273 روپے 40 پیسے ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں 19 روپے 95 پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272 روپے 95 پیسے ہوگئی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ گزشتہ دنوں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اوگرا کے ساتھ تیل کی قیمتوں کے بارے میں مشاورت ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ عوام کے لیے جو بہتر ہوسکتا ہے وہ کرنا چاہیے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں اور سب کو پتا ہے کہ اسٹینڈ بائی معاہدہ ہوا ہے، ماضی میں بھی یہی مسئلہ ہوا کہ حکومت نے جاتے ہوئے معاہدوں کو پورا نہ کیا اس لیے ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ پیٹرولیم لیوی سے متعلق کمٹمنٹ ہے۔مسلم لیگ نون کے رہنما اور وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافہ، ڈالر اور روپے کے ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے پٹرول اور دیگر مصنوعات مہنگی کرنا پڑیں۔گزشتہ پندرہ روز سے عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں ہر روز دو ڈالر یومیہ اضافہ ہو رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ خام تیل کتنا مہنگا ہے۔ خام تیل سے صفائی کے بعد ہی پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات بنتی ہیں۔تیل کی قیمتوں پر صنعتی عوامل کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں جیسا کہ طلب و مانگ میں فرق، یا جنگ اور وبا وغیرہ۔روس دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد عالمی منڈی میں یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ اس کی تیل کی رسد اب متاثر ہو گی۔تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ ماضی میں ہونے والے اضافے سے مختلف ہے۔اس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کی کوششوں میں تیل اور فوسل فیول کا استعمال کم کرتے ہوئے اس سے دور جا رہی ہے۔اگرچہ کمپنیاں تیل کی پیداوار میں بہتری کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں اور بہت سے ممالک توانائی کی صاف ذریعے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔یورپی یونین بھی درحقیقت2035 سے پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں پر پابندی لگانے پر بحث کر رہی ہے۔اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اب کمپنیوں کو تیل کی صفائی میں بہتری لانے کی صلاحیت بڑھانے کے فوائد نہیں ہیں۔ جن ممالک کو تیل درآمد کرنا پڑتا ہے وہاں لاگت بڑھ جاتی ہے اور نتیجتا وہاں پیٹرول کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔اگر ہم تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کا جائزہ لیں تو وینزویلا، لیبیا اور ایران گاڑی کی پیٹرول کی ٹینکی فل کروانے کے لیے سستے ترین ممالک ہیں۔کچھ ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بھی پیٹرول کی قیمتیں حکومتی سبسڈیز کی بدولت کم ہیں۔ سبسڈیز وہ اقدامات ہوتے ہیں جو مختلف ممالک کی حکومتیں مصنوعی طور پر چیزوں قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے اٹھاتی ہیں۔لیکن دیگر ممالک میں اس کے نتائج برعکس ہیں، ان ممالک میں حکومتی سبسڈیز کی بجائے تیل کی قیمتوں پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیز عائد کی جاتی ہیں جس سے صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پیٹرول کی قیمتوں میں فرق کیوں ہے، یہ فرق ہر حکومت کی جانب سے پیٹرول پر ٹیکسز عائد کرنے یا سبسڈیز دینے سے آتا ہے۔ہر ملک کے مقامی حالات بھی اس پر اثرات مرتب کرتے ہیں کہ ہم تیل کی قیمت کے لیے کتنی ادائیگی کرتے ہیں۔ملک کی مقامی کرنسی اور ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کا بھی عمل دخل ہے کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ڈالر کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سینٹرل افریقن رپبلک جس کی مقامی کرنسی فرانک کی ڈالر کے مقابلے میں قدر انتہائی کم ہے اور وہ تیل کی پیداوار کرنے والا ملک بھی نہیں ہے وہاں دنیا کا مہنگا ترین پیٹرول ہے جہاں فی لیٹر کی قیمت 2.39 ڈالر ہے۔تیل کی زیادہ قیمت کے اثرات صرف اس بات تک محدود نہیں ہیں کہ ہم پیٹرول پمپ پر براہ راست کتنے پیسے ادا کرتے ہیں۔ پیٹرول کی زیادہ قیمت کا اثر خوراک کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ ان کی ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے، اس طرح پبلک ٹرانسپورٹ اور جہاز کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ روس یوکرین تنازعے کے ختم ہونے کا کوئی عندیہ موجود نہ ہونے اور طلب کے معاملات میں بہتری نہ آنے کے باعث یہ بحران ابھی کچھ عرصے تک چلے گا۔ تیل کے استعمال کو ختم کر دینا اتنا آسان نہیں ہے۔قیمتوں میں حالیہ خوفناک اضافے سے ملک میں نہ صرف مہنگائی کا ایک طوفان آنے کا خدشہ ہے بلکہ سیاسی طوفان کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔یہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں بڑا اضافہ ہے۔ حکومت اس اضافہ کا دفاع کر رہی ہے۔حکومتی اکابرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ نہیں کرتی تو اسے سبسڈی دینا پڑے گی جس کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے اور اس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔اوگرا پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت کا تعین کرتی ہے اور سفارشات حکومت کو بھیجتی ہے حکومت عموما ان سفارشات میں ردوبدل نہیں کرتی تاہم یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ پٹرولیم لیوی یا سیلز ٹیکس میں کمی بیشی کرے۔ ملک میں جو مہنگائی بڑھ رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں مزید مہنگائی کا طوفان اٹھے گا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف ایک منظر ہے ابھی مزید مشکلات آنا ہیں۔ مہنگائی کا ایک بہت بڑا سونامی آنے والا ہے۔ اس بے تحاشہ اضافے کے بعد کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو جائیں گی، جس سے غریب آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور ملک میں غربت مزید بڑھے گی۔اس کے علاوہ معیشت کو بھی بہت بڑا دھچکہ لگے گا: اب بجلی بنانے والے حکومت پر دبائو ڈالیں گے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ صنعتی یونٹ بند ہو جائیں گے۔ کچھ اپنی پیداوار کو کم کردیں گے اور کچھ مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور شاید مکمل طور پر بند ہو جائیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی۔ تیل کی قیمتوں میں اس اضافے سے نقل و حمل بھی مہنگی ہوگی جس کے سبب مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔دوسرے صوبوں اور ممالک سے آنے والی سبزیوں اور پھلوں کی نقل و حمل کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگا جس کا بوجھ بالآخر پہلے ہی بے بس صارفین پر پڑے گا۔سپلائی چین کا یہ طرز عمل دالوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا، عالمی قیمتوں میں اضافے، فریٹ چارجز اور ڈالر کے مقابلے روپے کی گراوٹ کے سبب پچھلے عرصے میں قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ٹرانسپورٹرز نئے نرخ وصول کرنا شروع کر سکتے ہیں، تاہم ڈیزل اور سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں میں منڈی سے سبزیاں اٹھانے والے خورہ فروش قیمتوں میں اضافے کے اثرات فوری طور پر آگے منتقل کرسکتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت اپنے اخراجات دن بدن بڑھانے میں مصروف ہے ' اتنی بڑی کابینہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی نطر نہیں آتی جتنی بڑی کابینہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے مقروض ملک کی ہے جنہیں بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں ۔نہ جانے وہ کونسی کارکردگی ہے جس کی بدولت انہیں پٹرول'گیس'بجلی غرضیکہ کہ ہر چیز مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ عام آدمی ہر شے کے نرخ ادا کرتا ہے' حکام کی عیاشیوں کا دارومدار غریب کی جیب پر ہے' قرضے دینے والے ملکوں کے حکمران سائیکلوں پر سفر کر رہے ہیں اور مانگنے والے بھکاری ممالک کے حکمران فائیو سٹار ہوٹلوں اور چارٹرڈ طیاروں کے مزے لوٹ رہے ہیں ' ہر شے پر ٹیکس عائد کر کے بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی اب آئے دن ان ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں حکام کو چاہیے کہ عوام کے حال پر رحم کریں اگر ان کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے منصوبے نہیں تو کیوں کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں حکومت اہل لوگوں کے حوالے کریں جو قومی خزانے کو شیر مادر نہ سمجھیں۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں