شاہراہ قراقرم کی ری الائنمنٹ کا معاہدہ

چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فینگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے چھے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ،دونوں فریقوں نے اسٹریٹجک ایم ایل ون منصوبے کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ممبر پلاننگ عاصم امین اور چینی چارج ڈی افیئرز پینگ چنکسو نے قراقرم ہائی وے فیز ٹو پراجیکٹ کی فزیبلٹی اسٹڈی کی دوبارہ ترتیب سے متعلق چوتھی دستاویز پر دستخط کیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دستخط ہونے والی دستاویزات کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے پاور اور ہائیڈل سیکٹر، روڈ انفراسٹرکچر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں پچیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اب سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جس میں زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر غور کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں امن اور خوشحالی کے حصول کے لیے ترقی کے چینی ماڈل کی تقلید کریں گے۔شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے، این 35اور شاہراہِ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی در خنجراب کی 4693 میٹر بلندی سے ہو کر چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے جڑ جاتی ہے۔گلگت بلتستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو چین سے زمینی راستے کے ذریعے جوڑنے کا خیال 1956 سے 1958 تک پاکستان میں چین کے سفیر تعینات رہنے والے جنرل چینگ بائےو کا تھا، جس پر1963 میں دونوں ملکوں میں اعلی سطحی بات چیت ہوئی۔1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف چین کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت چین کے صدر نے بھی ان الفاظ میں ایک شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا تھا کہ اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہتر زمینی راستہ ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھی چنانچہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل1978 میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی بنیاد قدیم شاہراہ ریشم تھی۔ اس شاہراہ کا 887 کلومیٹر کا حصہ پاکستان جبکہ 400 کلومیٹر سے زائد حصہ چین میں ہے۔اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔شاہراہ قراقرم کا منصوبہ تشکیل دینے پر کام شروع ہوا تو انتہائی مشکل علاقے ہونے کے باعث یہ ذمہ داری فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے حصے میں آئی۔اعدادوشمار کے مطابق موسم کی شدت، شدید برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر اس سڑک پر کام کرنے والوں میں سے 800 سے زائد پاکستانی جبکہ 80 سے زائد چینی شہری تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران ہلاک ہوئے۔تعمیر کے وقت شاہراہ قراقرم کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایبٹ آباد سے بٹگرام تک پہلا حصہ، بٹگرام سے ٹھور تک دوسرا حصہ تھا۔ تیسرا حصہ ٹھور سے گلگت تک جبکہ چوتھا حصہ گلگت سے خنجراب تھا۔تعمیر کی ذمہ داری ایف ڈبلیو او 491 اور 492 گروپ کو سونپی گئی تھی۔ 492 گروپ کے ذمے بشام سے گلگت تک سڑک تھی جبکہ دوسرے گروپ کی گلگت سے خنجراب تک کی ذمہ داری تھی جبکہ اس دوران دو نئی بٹالینز بھی قائم کی گئی تھیں۔ان علاقوں تک افرادی قوت پہنچانے کے بعد بڑا مسئلہ وہاں بھاری مشینری کو پہنچانا تھا جس کے لیے امریکی کمپنی کی مدد سے ایئر فیلڈ قائم کی گئی اور رن وے کو مضبوط کیا گیا۔اس کے بعد پی آئی اے کی چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے وہاں دیگر ساز و سامان منتقل کیا گیا۔ مگر اس وقت بھی پہلا کام گینتی بیلچوں اور معمولی اوزاروں سے شروع کیا گیا۔قراقرم کی سخت پتھریلی چٹانوں میں رستے بنانے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال ہوا اور شاہراہ کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔سڑک سے پہلے تو یہ علاقہ پوری دنیا سے ہی کٹا ہوا تھا۔یہ ہمالیہ اور قراقرم کے سنگم پر بہت بلندی کا علاقہ ہے۔ قرقرام ہائی وے بننے سے اب ایسا لگتا ہے جیسے ایک بند کمرے میں کھڑکی کھل گئی ہو۔ بہت بڑی تبدیلی آئی۔ قراقرم ہائی وے سے ہمارا وسیع دنیا کے ساتھ تعلق قائم ہوا۔ شاہراہِ ریشم پر پاکستان اور چین کے بارڈر پر ایک پاس بھی تعمیر کیا گیا ہے جس کو خنجراب پاس کہا جاتا ہے۔قراقرم ہائی وے کے رستے میں دریائے سندھ ، دریائے ہنزہ، دریائے گلگت ، خنجراب رےوراور چین میں کراکل لےک جیسی جھیلیں اور دریا گلےشےئرز آتے ہیں۔آجکل ون بےلٹ منصوبے کا شور ہے کہا جاتا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جب مکمل ہوگا تو تقریبا ساٹھ ممالک اس کا حصہ ہوں گے اور دنیا کی دو تہائی آبادی اس سے منسلک ہوگی جبکہ یہ عالمی جی ڈی پی کے 55فیصد اور عالمی توانائی کے75فیصد حصے پر مشتمل ہوگا۔ہانگ کانگ کے اخبار ساتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق یہ انسانی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اور اہم منصوبہ ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا اب امریکہ کی امریکہ فرسٹ پالیسی سے تنگ آکر چین کی جانب جھکتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ چین کی پالیسیاں باہمی تعاون ، باہمی دلچسپی اور باہمی منافع پر مبنی ہیں۔چین ایشیائی سپر پاور بننے کے بعد اب عالمی سپر پاور بنتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ دوسری عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کی جنگی پالیسیوں کی نسبت چین کی پرامن معاشی پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے دنیا چین کی جانب دیکھ رہی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کہہ چکے ہےں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے اورواشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان کا اشارہ بھارت کی جانب تھا۔بھارت کا موقف ہے کہ اس کے بارہا احتجاج کے باوجود چین نے بھارت کو اعتماد میں لئے بغیر پاکستان میں سی پیک کا آغاز کر دیا جوکہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ہی حصہ ہے حالانکہ حالیہ دنوں میں ہی بھارت میں چین کے سفیر لیوژو ہیو نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک تقریب میں پاک چین اقتصادی راہداری پر وضاحت دی کہ سی پیک منصوبہ کسی لحاظ سے بھی بھارت کی ترقی کے خلاف نہیں اور وہ ون بیلٹ ون روڈ کے اس عظیم منصوبے میں بھارت کی شمولیت چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی سفیر کے مذکورہ بیان پر پاکستانی حلقوں نے اعتراضات کئے تھے جس کے بعد چینی سفیر کو سی پیک کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے دیا گیا اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی کامیابی کا دارومدار پاک چین اقتصادی راہداری کی کامیابی سے منسلک ہے کیونکہ سی پیک ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی کو چین دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کرے گا۔جب بھی کسی بڑے منصوبے کا آغاز کرنا ہو تو اس سے پہلے ایک پائلٹ منصوبہ بنایا جاتا ہے جس کی کامیابی کی بنیاد پر بڑے منصوبے کا آغاز کیا جاتا ہے اس لحاظ سے دنیا کی نظریں سی پیک پر مرکوز ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں تو ون بیلٹ ون روڈ کی وجہ سے ستر لاکھ پاکستانیوں کو روزگار ملے گا اور یہ باتیں ہمارے دشمنوں کو بھاتی نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کا مقصد بھی سی پیک کو سبو تاژ کرنا تھا۔بارڈر کے اس پار بیٹھے دشمن اور ہماری صفوں میں موجود منافق کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں معاشی استحکام اور خوشحالی آئے۔اس ساری صورتحال میں افواج پاکستان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل اور فیصلہ کن ہے کیونکہ پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی دہشتگردی کا شکار ہے جبکہ افواج پاکستان پچھلے بےس سالوں سے حالت جنگ میں ہیں اگرچہ حالات بتدریج کامیابی کی جانب گامزن ہیں تاہم حکومت کی ناکام فلاحی پالیسیاں اور سیاسی عدم استحکام اس امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دشمن کبھی جاسوس ایجنسیوں کے ذریعے معصوم لوگوں کو ورغلاتا ہے تو کبھی افغان بھائیوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بو تا ہے، کبھی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے گوادر منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی کراچی کے حالات خراب کرتا ہے۔بارڈر کے اس پار بیٹھا دشمن بد امنی اور دہشتگردی کو بنیاد بنا کر سی پیک منصوبے کو دنیا کی نظر میں ناکام دکھانا چاہتاہے لیکن اس کے ناپاک مقاصد کے حصول کی راہ میں افواج پاکستان سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں۔اس تناظر میں شاہراہ قراقرم کی تزئےن و آرائش نہاےت ضروری ہے کےونکہ موسمی شدائد کے باعث شاہراہ ری الائنمنٹ کا تقاضا کرتی ہے کےونکہ بارشوں‘سےلاب‘لےنڈ سلائےڈنگ کے باعث شاہراہ کی مرمت انتہائی ضروری ہے۔