لینڈ سلائیڈنگ کے علاقوں میں سرنگیں تعمیر کرنے کی تجویز


گلگت بلتستان اسمبلی کے سابق رکن اورتاجر رہنما جاوید حسین نے شاہراہ بلتستان پر آئے روز ہونے والے ٹریفک حادثات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاہراہ بلتستان کے جو حصے لینڈ سلائیڈنگ کے حوالے سے حساس ہیں ان علاقوں میں ٹنلز بنائی جائیں، شاہراہ بلتستان کی تعمیر کےلئے کئے گئے سروے میں ٹنلز شامل تھیں لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناپر ٹنلز کی تعمیر کو منصوبے سے نکال دیا گیا ،انہوں نے کہاکہ ٹنلزتعمیر نہ ہونے سے لینڈ سلائیڈنگ کے باعث قمیتی انسانی جانوں کا نقصان ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ بلتستان سیاحت کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے یہاں نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ممالک سے بھی سیاح آتے ہیں،ہونا تو یہ چاہئے کہ یہاںکا روڈ انفراسٹرکچر عالمی معیار کا ہو لیکن افسوس کا مقام ہے کہ علاقے کی سب سے بڑی شاہراہ موت کا پل بن گئی ہے جس پر سفرکرنا خطرے سے خالی نہیں‘ شاہراہ بلتستان پر ٹنلز کی تعمیر سے سفر محفوظ ہوجائے گا اور اس سے علاقے میں سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوگاجس کے نتیجے میں علاقے کی معیشت مضبوط ہوگی۔گلگت بلتستان میں ٹنلز کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا۔خیبر پختونخوا کے ضلع چترال اور ضلع دیر کے درمیان لواری پاس کے نیچے پہاڑوں میں بنی لواری ٹنل دس کلو میٹر طویل ہے یہ سرنگ صوبے کے دو اہم علاقوں چترال اور دیر کو ملاتی ہے۔یہ منصوبہ 1970 کی دہائی سے زیر غور تھا، مشرف دور میں اس پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا لیکن پھر پی پی پی دور میں اس پر کام بند ہو گیا، بالآخر مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس پراجیکٹ کو مکمل کیا۔اس پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد دیر سے چترال کا زمینی سفر لگ بھگ ڈھائی سے تین گھنٹے کم ہو گیا ہے۔یہ سرنگ اس لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے پہلے سردیوں میں برف باری کے بعد لواری پاس ٹریفک کے لیے بند ہوجایا کرتا تھا جس کے سبب چترال کا ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی راستہ منقطع ہوجایا کرتا تھا اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی تھی۔ہم جانتے ہےں کہ بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو سڑک اور ریل کے ذریعے ملانے کے مختلف منصوبوں پر کام تیز کر دیا ہے۔ ان منصوبوں کے تحت 25 لاکھ کروڑ روپوں کی لاگت سے 19 سرنگیں تعمیر کی جائیں گی۔کشمیر کو ریل لنک کے ذریعے بھارت سے ملانے کے لیے 37 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ زیرِ تعمیر ٹنلز میں سے سطح سمندر سے ساڑھے 11 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع زوجیلا پہاڑی درے سے گزرنے والی 14 کلو میٹر طویل سرنگ بھی شامل ہے جو چھ ہزار 800 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی جا رہی ہے۔یہ ٹنل فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ یہ لداخ خطے میں واقع ہے جس کی طویل سرحد چین سے ملتی ہے جہاں حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان محاذ آرائی بھی ہوئی تھی۔ یہ سرنگ وادی کشمیر اور بھارت کے درمیان سڑک رابطے کو آسان بنا دے گی۔سرینگر لداخ شاہراہ موسمِ سرما کے دوراں زوجیلا اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہونے والی بھاری برف باری کے نتیجے میں کئی ماہ تک بند رہتی ہے۔ لیکن اس ٹنل کی تکمیل کے بعد کشمیر اور لداخ خطے کے ضلع کارگل کے دراس علاقے کے درمیان سڑک رابطہ سال کے ہر موسم میں ممکن بن جائے گا ۔اس پہاڑی درےسے سفر کا وقت جو اس وقت تین گھنٹے ہے گھٹ کر صرف 20 منٹ رہ جائے گا۔یہ ٹنل ایشیا کی سب سے لمبی روڈ ٹنل ہو گی اور اس کی فوجی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ کہہ چکے ہےں کہ ےہ سیاحت کے فروغ، مقامی مال برداری کی آزاد نقل و حمل اور ہنگامی حالات میں مسلح افواج کی بہتر نقل و حرکت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ زوجیلا درے پر بننے والی ٹنل اور کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر اور سرمائی صدر مقام جموں کو ملانےوالی شاہراہ کی تعمیر سے خطے میں سیاحوں کی آمد بڑھے گی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ٹنلز کی تعمیر سے جموں اور سرینگر کے درمیان سڑک کا فاصلہ 294 کلومیٹر سے گھٹ کر 248 کلو میٹر رہ گیا ہے جس میں مزید 70 تا 80 کلومیٹر کمی آ جائےگی ۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ کے مطابق تمام ٹنلز میں آمد و رفت شروع ہونے کے بعد دونوں تاریخی شہروں کے درمیان سفر کو دس گھنٹے سے کم کر کے تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں طے کیا جاسکے گا۔یہ شاہراہ بارشوں اور برف باری کے موسم میں کئی کئی روز تک بند رہتی ہے لیکن ٹنلز کی تعمیر سے یہ پریشانی بھی دور ہوجائے گی اور شاہراہ بند رہنے سے وادی کشمیر میں غذائی اجناس اور ایندھن کی جو قلت پیدا ہوجاتی ہے اس پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔معاشی انقلاب کے لیے رابطہ سڑکوں کا جال انتہائی اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین روڈ اینڈ بلیٹ منصوبے پر تن دہی سے کاربند ہے۔ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی عوام نقل مکانی پر مجبور ہے۔قیام پاکستان سے شاہراہ قراقرم کی تعمیر تک گلگت بلتستان کو براہ راست ملانے کے لیے کوئی سڑک موجود نہ تھی۔گلگت بلتستان، آزادکشمیر، پاکستان اور چین کے لیے شونٹر ٹنل انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ دیگر راستے یا تو غیر محفوظ ہیں یا بہت طویل ہیں۔یہ ٹنل وادی نیلم کے ذریعے گلگت بلتستان کو اسلام آباد سے ملائے گی۔شونٹر ٹنل کی تعمیر سے گلگت بلتستان، اسلام آباد اور وادی نیلم کے لیے نہ صرف ایک متبادل راستہ ہے بلکہ یہ ٹنل خطے کی تعمیر ترقی، بیروزگاری کے خاتمے، احساس محرومی کو ختم کرنے، تجارت اور سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سفری دورانیہ کو بھی کم کر دے گی۔ گلگت بلتستان سے راولپنڈی کے لیے سفر کا دورانیہ بھی تقریبا 8گھنٹے کم ہو جائے گا۔اس سے ایک طرف ہمارا ایندھن بچے گا دوسری جانب طوالت کم ہو گی۔ سی پیک کی تعمیر کے پیچھے چینی مفادات میں دو اہم فائدے ایندھن کے استعمال کو بچانا اور سفری طوالت کو کم کرنا ہیں۔ کم اخراجات اور طوالت میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان، وادی نیلم اور پاکستان کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا۔معاشی فوائد کے علاوہ اس ٹنل کی تعمیر سے تینوں خطوں، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور پاکستان کی عوام میں روابط بحال ہو ں گے، ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد ہو گا، دوریاں اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قومی اور ملکی یگانگت اور یکجہتی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ یہ ٹنل فرقہ واریت، انتہاپسندی، بد امنی اور دہشت گردی کی روک تھام میں بھی معاون ثابت ہو گی۔شونٹر ٹنل آزادکشمیرو گلگت بلتستان، شمالی پنجاب اور اسلام آباد کے لیے سی پیک کے منصوبوں میں سب سے اہم ہے۔شونٹر وادی کے علاقے میں کاشت کیا جانے والا آلواور دیگر اجناس شونٹر ٹنل کے ذریعے گلگت بلتستان کے راستے چین تک رسائی حاصل کریں گی جس کے نتیجے میں معاشی بہتری لانے اور بے روزگاری ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ شونٹر ٹنل استور کے راستے شاہراہ ریشم تک رسائی کا ذریعہ بنے گی۔ اس راستے سے وادی نیلم سے زیادہ فائدہ گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں چلاس اور استور اور اسلام آباد کو ہو گا۔چلاس اور استور کے لوگ شونٹر پاس کو پیدل عبور کر کے نیلم ویلی اور پھر وہاں سے اسلام آباد جاتے ہیں۔ شونٹر ٹنل کی تعمیر سے سفر بارہ گھنٹے کم ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے معاشی فوائد کے علاوہ بہت سارے دفاعی فوائد بھی ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا اور انتہائی دفاعی اہمیت کا حامل سیاہ چین محاذ پاکستان اور چین دونوں کو نیلم ویلی براستہ شونٹر ٹنل زیادہ قریب پڑتا ہے۔یہ وہ محاذ ہے جہاں سے پاکستان اور چین باآسانی بھارت میں داخل ہو سکتے ہیں۔سیاہ چین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشرف دور میں اسی محاذ سے بھارت کو مشکلات سے دوچارکیا گیا تھا۔ بھارت چین جنگ کی صورت میں بھی چین یہ راستہ بھارت کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ راولپنڈی سے کاغان کے راستے سیاہ چین سکردو پہنچے کے لیے 540میل کا طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ شونٹر ٹنل سے یہ فاصلہ کم ہو کر 223 میل ہو جائے گا۔شونٹر ٹنل آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے کے لیے واحد اور انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ اور نیلم ویلی روڈ کی بندش کی صورت میں ہم گلگت بلتستان سے بذریعہ شونٹر ٹنل اپنادفاع کر سکتے ہیں۔ دفاعی اعتبار سے پاک بھارت جنگ کے دوران چین براستہ گلگت بلتستان شونٹر ٹنل کے زریعے ہماری بروقت اور اہم دفاعی مدد کر سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں مختلف مقامات پر فلیش فلڈ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور جانی و مالی نقصانات کا اندےشہ بھی رہتا ہے اس لےے ےہ تجوےز درست ہے کہ وہ مقامات جہاں لےنڈ سلائےڈنگ کے خطرات زےادہ ہےں وہاں سرنگوں کی تعمےر پر توجہ دے کر انسانی جانوں کے تحفظ کو ممکن بناےا جائے۔