Skip to content
چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی ایوب وزیری نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی ونگ کے ساتھ ایک تعارفی اجلاس میں اس امر کا اعادہ کیا کہ چیئر مین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی مین زیر التواآڈٹ اعتراضات کو جلد از جلد نمٹایا جائےگااور سرکاری محکموں میں احتساب اور شفافیت کے عمل کو مزید فعال بنائینگے انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ممبران پی اے سی اور سرکاری محکموں کے تعاون سے پی اے سی میں زیر التوا کام کو بروقت فیصلہ لیا جائیگا تاکہ علاقے کے تعمیر و ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے ۔ انہوں نے پی اے سی کے سٹاف کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے کمیٹی کی کار کردگی کو بہتر بنانے میں معاونت کرےں ۔احتساب کا مطلب حساب کتاب گنتی عیب وصواب کی جانچ پڑتال باز پرس،دیکھ بھال،جائزہ اور روک ٹوک ہے۔اپنا احتساب‘اپنے بال بچوں کا احتساب‘خاندان‘معاشرہ اورگزشتہ وآمدہ نسلوں کا احتساب اس عمل کے وہ دائرہ کارہیں جن سے کوئی فرد مبرا نہیں۔احتساب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود حضرت انسان کی۔ہندومت قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے اس میں بھی احتساب کاتصورکسی حد تک ضرور ملتا ہے۔بدھ مت دوسرا قدیم ترین مذھب ہے۔اسکی حیثیت اہنسائی ہے،جسکو دنیا سے کوئی علاقہ نہیں۔احتساب کا تصور اس مذہب سے بیگانہ ہے۔بدھ مت ظالم فرمارواں کے احتساب سے عاری نظر آتا ہے۔چین کے شاہ منگ ٹی اور تبت کے قبلائی خان جیسے بادشاہوں نے بدھ مت کے مبلغین کو خوش آمدید کہا اسکی وجہ یہی ہے اس مذھب نے ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی کبھی جرات نہیں کی۔انسانوں کو سرکش حکمرانوں سے نجات دلانا توکیامعنی کبھی اسکا خیال تک نہیں کیا۔الہامی مذاہب میں یھودیت قدیم ترین ہے ان لوگوں نے احتساب سے چشم پوشی کی۔عمل احتساب میں بنی اسرائیل کا یہ دہرا معیارمنصب امامت عالم سے انکی معزولی کا سبب بنا۔مذہب عیسائیت میں تو کفارے کا عقیدہ شروع دن سے ہی احتساب کے تصور کو معدوم کر دیتا ہے؟اسی عقیدے نے ان کوظلم وبربریت پراکسایااوراسی کے باعث تاریخ عالم میں سب سے زیادہ ظلم ڈھانےوالاادارہ کلیساہی قرارپایا۔اسلام نے جونظام فکروعمل عالم انسانیت کو عطا کیا وہ ہر لحاظ سے اکمل و احسن ہے۔اس نظام کا ایک حصہ عمل احتساب بھی ہے۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے کہ بے لاگ احتساب کے بغیر عدل اجتماعی کا قیام ناممکن ہے۔اسی تیقن کا نتیجہ تھا کہ اسلامی معاشرہ تقوی کا مرقع بن گیا،کسی کی نظر میں نہ آنے والا مجرم بھی خود کو قانون کے حوالے کردیتا تاکہ پاک کر دیا جائے۔یہ اصل محتسب کاخوف تھا کہ انسان اندر تک سے دھلتے چلے گئے اور انہیں یہ معرفت نصیب ہوئی کہ ہر وقت اور ہر حال میں ایک محتسب ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔اسلامی نظام احتساب میں کوئی بھی احتساب کے عمل سے بالا تر نہیں ہے۔جو جس مقام و منصب پر ہے اسکے احتساب کے لیے نظام کی گرفت موجود ہے۔احتساب کا عمل محض سزا کے آموختہ کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود قابل احتساب امور کی تکرار کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی ہے،اس کے لیے لازمی ہے کہ احتساب فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیزہو اوراس عمل کے دہرانے والے کو سوچتے ہی گزشتہ عامل کا انجام آنکھوں میں گھوم جائے۔درس عبرت کا ابلاغ مقاصد احتساب میں سے ایک ہے۔چھپ کر سزا دینے سے جرم تو ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچ پائے گا لیکن معاشرہ اس نظام کے ثمرات سے محروم رہے گا۔کتاب و سنت میں عمل احتساب کے لیے قانونی تقاضوں کی تکمیل کو بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔جلد بازی،ناپختہ شہادت،ظن و گمان یا شک کی بنیاد پر کبھی احتساب کی اجازت نہیں دی جاتی۔اگر کوئی مجرم اقرار جرم کرتا تو اس سے کئی سوالات کرتے تاکہ اطمےنان ہو جائے کہ اسکا اقرار کسی دباﺅ،خوف یا بیماری کا نتیجہ نہ ہو اور بعض اوقات تو ایک سے زائد نشستوں میں اقرار کرواتے تھے اور مہلت دیتے تھے لیکن قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد احتساب ہی نہیں انصاف سے بھی گریز نہ کرنا اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔جہاں تک حکمرانوں و صاحب اقتدار افراد کی جوابدہی اور ان کے احتساب کا تعلق ہے اگر حکمران اچھے ہوں گے سلاطین بہتر ہوں گے تو اس کا اثر رعایا پر بھی ہوگا۔ وہ بھی اپنے آپ کو بہتر کریں گے اور اگر حکمرانوں کی اخلاقی حالت خراب ہوگی تو رعایا بھی اخلاقی حوالے سے گری ہوئی ہوگی۔ لہذا یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں اچھائی اور برائی کے اثرات اوپر سے نیچے منتقل ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ حکمرانوں نے اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنی قوم کی تقدیربدل دی لیکن جب ہم انسانی معاشروں پر نظر ڈالتے ہیں تو ماضی میں بادشاہت اور موروثیت کا ایک ایسا نظام قائم تھا جس میں حکمرانوں کو جوابدہ نہیں ہونا پڑتا تھا۔ بادشاہ عقل کل ہوتا۔ اس سے کوئی برائی سرزد نہیں ہوتی تھی۔ وہ مقدس گائے تھا جہاں پر ایک کے بعد دوسرا بھی انہی خاصیتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا لہذا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ معاشرے زوال کاشکار ہونے لگے اور جب مضبوط عقائد اور معاشروں کو موقع ملا تو اس نے وہاں کے باسیوں کے دلوں میں گھر کرلیااور انصاف کا بول بالا ہونے لگا۔ہمےں احتساب نہ کرنے کے نقصانات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ جب ہم کسی خرابی کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوتی ہے یا بڑی، انفرادی ہوتی ہے یا اجتماعیت تو لامحالہ تین رویے سامنے آئیںگے صرفِ نظر کردینا اور غیراہم سمجھنا، شکایت کرنا،محاسبہ کرنا۔اگر ہم بروقت اور درست مقام پر محاسبہ نہ کریں تو لامحالہ یہ شکایت کہلائے گی۔ اپنے کسی ساتھی کی شکایت کسی دوسرے ساتھی یا ناظم سے کردینے کو ہم غیبت اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہماری نیت اصلاح کی ہوتی ہے، مگر ذرا ٹھہر کر یہ سوچیے کہ کیا یہ طریقہ صحیح ہے کہ جب ہم فرد سے کہنے کا حوصلہ نہیں پاتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ برا مان جائے گا، یا یہ کہ ہم کیوں اس کی نگاہ میں برے بنیں، اس لیے ہم محاسبے سے اجتناب کرتے ہیں اور شکایات کا رویہ اپناتے ہیں۔ اگر ہم شکایت کا رویہ نہ بھی اپنائیں تو سوچتے ہیں کہ صرفِ نظر ہی بہتر ہے کہ کون کہے؟ کس سے کہے؟ بہتر ہے کہ خاموش ہی رہا جائے۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے یہاں ٹھہر کر یہ سوچنا پڑے گا کہ اِن خرابیوں اور کوتاہیوں کے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنے سے لوگ کیا بددل تو نہیں ہوں گے؟ہم یہ بات مانتے ہیں اور گاہے بگاہے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان غلطیوں کا پتلا ہیں اور یہ کہ انسان ہی سے غلطیاں ہوتی ہیں وغیرہ مگر حیرت ہے کہ ہم میں سے جب کسی کی بھی کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمیں برا بھی لگتا ہے اور فی الفور ہم وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہم اس وقت بھول جاتے ہیں کہ ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میں بھی بحیثیت انسان غلطی کرسکتا ہوں۔وضاحت اور صفائی پیش کرنا اس فرد کا حق ہے جس پر تنقید کی جارہی ہو مگر جب بھی کسی کا محاسبہ کیا جائے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ پوری بات کو تحمل سے سنے۔ جب محاسبہ کرنے والا شخص خاموش ہوجائے تو انصاف کے ساتھ اس بات پر غور کرنے کے بعد حق بات کو تسلیم کرلے اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ محاسبہ کرنے والے فرد کو کسی قسم کی بدگمانی ہوگئی ہے یا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو دلائل کی قوت سے تردید کردے اور اپنے اس طرزِ عمل کی وضاحت کردے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔محاسبہ کرنے والے کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھنا چاہیے اور اگر اس کے بعد محبت اور تعلق میں اضافہ ہو تو سمجھ لیجیے کہ اس کا حق ادا ہوگیا لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو پھر فکر کرنی چاہیے کہ جس عظیم مقصد اور بلند نصب العین کو لے کر ہم چلے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دلوں کی یہ خرابی ہماری ناکامی کا باعث بن جائے۔معاشرے اور ملت کا وجود افراد کے وجود سے وابستہ ہے اور معاشرے کی بھلائی و برائی کا دارومدار بھی افراد کی بھلائی اور برائی پر موقوف ہے کیونکہ فرد ہی معاشرے کی عمارت کی بنیادی اکائی اور اینٹ ہے جس کے اثرات براہِ راست ملک و ملت اور معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ فردِ انسانی کے اندر بھلائی اور برائی دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں، چنانچہ جب برائی کی صلاحیتیں غالب ہو جاتی ہیں تو انسان معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے پورا معاشرہ بدامنی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور جب فرد کے اندر اچھائی اور نیکی کی صلاحیتیں غالب ہو جائیں تو انسان کی اپنی زندگی بھی کامیاب بن جاتی ہے اور یہ معاشرے کیلئے بھی کارآمد اور مفید بن جاتا ہے۔سماجی تشکیل کیلئے احتساب ضروری ہے اگر سماج سے احتسابی عمل کو نکال دیا جائے تو سماج بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے، جہاں احتساب کا فقدان ہو یا انصاف طبقاتی تقسیم کی بھینٹ چڑھ جائے وہ معاشرے کبھی ترقی کی شاہراہ پر رفتار نہیں پکڑ سکتے۔ دنیا کے اکثر ممالک سینکڑ وں کی تعداد میں محتسب کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے1983 میں وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اب ٹیکس محتسب، بنکنگ محتسب، انشورنس محتسب، خواتین کے ہراساں کرنے کیخلاف محتسب نیز چاروں صوبوں اور آزادکشمیر میں محتسب کے ادارے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی محتسب ایک ایسا ادارہ ہے جہاں عام پاکستانیوں کو فوری اور مفت انصاف فراہم کیا جاتا ہے، شکایت گزار کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا اور اسے گھر بیٹھے انصاف مل جاتا ہے۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں