ایک دوسرے کے عقائد کا احترام

وزیرداخلہ گلگت بلتستان شمس لون نے کہا کہ ایک دوسرے کے عقائد کااحترام کیاجائے انتشارپھیلانے کی اجازت نہیں دیںگے۔ استور میں محرم الحرام کے موقع پر امن وامان کا قیام اور مسلکی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک اہم اجلاس میں شمس الحق لون نے کہا کہ حکومت کہ اولین ذمہ داری صوبے میں امن وامان کی بحالی اور لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لانا ہے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم سب ایک ہو کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور ایک دوسرے کے عقائد کا خیال رکھتے ہوئے پیار ومحبت کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان غیر مسلموں کو بھی مذہبی آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق اپنی عبادات اور رسومات بجا لائے جبکہ اس کے برعکس الحمد اللہ ہم سب مسلمان ہیں ایک نبی کے پیروکار ہیں۔ایک قرآن پر یقین رکھتے ہیں تو ہم سب کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے مذہبی عبادات کہ بجا آوری کے موقع پر تعاون کریں اور دشمن کو موقع فراہم نہ کریں کہ وہ ان ایام میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوں اور ہمارے درمیان انتشار پیدا کریں۔ ایسے تمام عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے انہوں نے کہا کہ استور کے علماکرام کا قیام امن کے حوالے سے بڑا کلیدی کردار ہے۔ علما کی مدبرانہ کوششوں کی وجہ سے لوگ پرامن رہتے ہیں۔میں علماکرام کو قیام امن کے لیے شاندار خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان سے امید رکھتا ہوں کہ وقت اور حالات کے تناظر میں پہلے سے بڑھ کر قیام امن کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرینگے تاکہ محرم الحرام کا مہینہ امن سے گزرے۔انسانی معاشرہ ایک گل دستے کی طرح ہے، جس طرح گل دستے میں مختلف نوع کے رنگ برنگے پھول،حسن و خوب صورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذہب اور مختلف النسل افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوب صورتی کا سبب بنتا ہے۔چناں چہ رواداری، تحمل مزاجی،عفوو درگزر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے سماج امن و امان کا گہوارہ بنتا ہے،ظلم و حق تلفی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس طرح ایک خوب صورت معاشرہ تشکیل پاتاہے۔اس کے برعکس عدم برداشت ایک ایسا ناسور ہے جس کے سبب معاشرے میں بدنظمی، بے عنوانی، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور ظلم وعداوت جیسی برائیاں جڑ پکڑتی ہیں اور پورے سماج کو تاخت و تاراج کردیتی ہیں۔غور کیاجائے تو عدم برداشت ہی کی بنا پر آج کا انسان بے چینی،حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہوتا جارہاہے۔قوت برداشت ان اعلی صفات میں سے ایک ہے جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر فوزو فلاح،کام یابی وکام رانی،عزت و عظمت اور ترقی وسر بلندی کا ذریعہ ہے۔ تحمل وہ دولت ہے جس کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی حالت میں انسان پر قوت غضب کو غالب نہیں آنے دیتی۔ دین وشریعت میں حق پر ہوتے ہوئے مصائب سہنا، مظالم برداشت کرنا، تکالیف انگیز کرنا جہاں اخلاق کا اونچا معیار اور انسانیت کی بڑی معراج ہے،وہیں خودساختہ مزعومات اور من مانے نظریات پر اصرار کرنا،زبردستی انہیں تسلیم کرنے پر مجبور کرنا،خلاف ورزی پر مشتعل و برانگیختہ ہونا، پرلے درجہ کی حماقت اور نچلے درجہ کی جہالت ہے؛جس کے بے شمار نمونے بہ زعم خویش مفکرین کے ذریعہ سوشل میڈیا پرمشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ قومیں اور افراد،جب نیک بخت اور بصیرت مند ہوتے ہیں تو اپنا احتساب خود کرتے ہیں،اپنے خیالات و نظریات کو مستندو مکمل سمجھ کر،مطمئن نہیں ہوجاتے بلکہ ہر وقت جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کہیں اِن میں کوئی کھوٹ تو نہیں؟ خلاف عقل و شرع کوئی بات تو نہیں؟ لیکن افسوس صد افسوس آج کے اس ترقی پسند دور میں جو جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،جو خمار ذہن و دماغ پہ چھایا ہوا ہے اور جو سودا ہرسر میں سمایا ہوا ہے،بے لاگ انداز میں،بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لکھا جائے تو وہ ہے حکم رانی کا جنوں،بڑائی جتانے کا فسوں اور بڑوں کو ازکار رفتہ ثابت کرنے کا شوقِ فزوں۔ آج ہر کوئی کنویں کے مینڈک کی طرح خود کو حاکم اعلی اور عقل کل سمجھتا ہے، چار لوگ کیا تائید میں آگئے خود کو متبوع و مخدوم گمان کرنے لگتاہے۔بعض لوگ تو ایسا حاکمانہ؛ بلکہ آمرانہ مزاج رکھتے ہیں کہ تلاش کرنے پربھی عاجزی،انکساری اورفروتنی؛بلکہ اِن کی ادنی چنگاری بھی ان میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود بھی اس طلسم سے باہر نہیں آنا چاہتے اور خودی کی خدائی میں اتنے مصروف و مگن اور انا کی خول میں اس طرح مقید و بندرہنا پسند کرتے ہیں کہ انجام کار اوقات فراموش بن بیٹھتے ہیں۔ ایسے افراد کا جب احتساب کیا جاتاہے،انہیں دیانتا کوئی اہم پہلو بتلایا جاتا ہے تو بیدار مغزی کا ثبوت دینے اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کینے اور حسد کو پالنے، بغض و عناد کو راہ دینے اورزندگی بھر کی دشمنی مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔نفسیاتی طورپرہرانسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سننے سے زیادہ سنانے کوپسند کرتاہے،ماننے سے زیادہ منوانے کوترجیح دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس نیت سے نہیں سنتے کہ مخاطب کی بات کو سمجھیں؛بلکہ وہ اس لیے سنتے ہیں کہ انہیں جواب دینا ہوتا ہے،اس لیے یا تووہ دخل اندازی کرتے ہوئے خود بولنے لگتے ہیں یا پھر بولنے کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آدمی صحیح معنی میں یا تو سن سکتا ہے یا بول سکتا ہے۔ ان دونوں کاموں کوجمع کرنا کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچاسکتا۔ہمارے معاشرے میں دن بدن صبر و تحمل اور برداشت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ آج دنیا اس وقت عدم برداشت کے ایسے دھارے پر کھڑی ہے جہاں کوئی کسی کو برداشت کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اس کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے دوسروں کے حقوق کا احترام نہ کرنا سامنے آئی ہے۔ گھر نکلنے سے لے کر آفس پہنچنے تک ہمیں لمحہ بہ لمحہ ، قدم بہ قدم ہر جگہ پر قوت برداشت کے فیصلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ صبح سویرے آفس جاتے ہیں اور راستے میں ٹریفک سگنلز پر آپ کو روکنا پڑتا ہے اور آپ خوش اسلوبی سے سبز بتی کا انتظار کرتے ہیں تو یہ بھی برداشت کے زمرے میں آتا ہے۔ رش والی جگہ پر گاڑی کے پھنسنے اور مکمل روڈ کھلنے تک اپنی آپ کو قابو میں رکھنا بھی بردباری کا مظاہرہ ہے۔ آفس میں ماتحت کام کرنے والے افراد کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی غلطیوں پر درگزر وغیرہ شامل ہے۔ ایک طالب علم کی زندگی میں برداشت یہی ہے کہ ٹیچر کی طرف سے ڈانٹ کو خوش دلی اور اپنی اصلاح کے طور پر سنجیدہ لے اور سمجھے کہ ٹیچر جو کچھ کہہ رہا ہے اس میں میری ذات کے سوا کسی اور کا فائدہ نہیں ہے۔ دنیا میں خونریزی اور تنازعات کے پس پردہ عوامل کی بڑی وجہ عدم برداشت کا رویہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بڑے بڑے تنازعات کا روپ دینے سے معاشرے میں نہ صرف انتشار پیدا ہوتا ہے بلکہ ہمارے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ان فاصلوں کے سنگین نتائج ہر شخص کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ عدم برداشت کا ایک اور اہم سبب معاشی اور معاشرتی ناہمواری بھی ہے۔ تحمل و برداشت اور حلم و بردباری ان اخلاقی صفات میں سے ہیں جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر کامیابی عزت و عظمت اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ برداشت سے محبت بڑھتی کیونکہ جب ہم ایک دوسرے کی غلطیاں معاف کریں گے تو دلوں میں احساسات کی بیداری عروج پکڑتی ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کا ہر فرد ہر معاملے میں صبر وتحمل اور برداشت کی عادت بنا لے تو ہمارا گھر ،محلہ ،شہر اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔انسان کی سب سے بڑی قوت قوت برداشت ہے۔ انسان کی اصل طاقت کا اندازہ اس کے قوت برداشت سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس انسان میں تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہ دنیا میں ہمیشہ بہت بڑی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ صبر و تحمل انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ صبر و تحمل سے کام لینے والا انسان کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔برداشت اور تحمل نئی امیدوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ امید اور یقین کی قوت سے ہی انسانی معاشرے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ برداشت معاشرتی ترقی اور رواداری کی نئی راہیں کھول دیتی ہے۔اس وقت پاکستانی معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت صبر و تحمل اور برداشت کی ہے۔ صبر و تحمل ہی ہمارے امن و سکون اور معاشرتی ترقی کی ضامن ہے۔