شعائر اسلام کی بے حرمتی کا تسلسل

وزیر اعظم شہباز شریف نے سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے ایک اور واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سویڈن میں مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے خاتمے کے لیے مہم شروع کی جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اس برائی کے خاتمے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمت عملی بنانے میں مدد کرے گی۔وزیر اعظم کا یہ بیان سویڈن میں ایک پناہ گزین سلوان مومیکا کی جانب سے جمعرات کو قرآن مجید کی بے حرمتی کے بعد سامنے آیا، مسلم ممالک میں واقعہ کی بھرپور مذمت اور احتجاج کی اپیل کی گئی۔واضح رہے کہ چند روز قبل سویڈن میں اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر اسی طرح کے ایک واقعہ کے دوران قرآن پاک نذرِآتش کیا گیا تھا، جس پر عالم اسلام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ او آئی سی کو امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی اور اس برائی سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، انہوں نے توریت، بائبل اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دینے کے فیصلے کو واپس لینے کے لیے مہم شروع کرنے کا وعدہ کیا۔انہوں نے کہا کہ مقدس کتابوں، ہستیوں اور شعائر کی بے حرمتی اظہارِ رائے کی آزادی نہیں بلکہ دنیا کو مستقل اذیت دینے کی آزادی ہے، ان واقعات کا تسلسل اور ترتیب اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آزادیِ اظہار کا معاملہ نہیں بلکہ سیاسی اور شیطانی ایجنڈے کا حصہ ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پورے عالم اسلام اور مسیحی دنیا کو مل کر اس سازش کو روکنا ہوگا، شیطان کے پیروکار اس کتاب کی بے حرمتی کر رہے ہیں جس نے انسانوں کو عزت دی، حقوق اور رہنمائی دی، توریت اور انجیل کی بے حرمتی کی اجازت دینے کے فیصلے سے بے حرمتی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ یہ نفرت کا فروغ ہے جس کی عالمی قانون اجازت نہیں دیتا، مذہبی جذبات بھڑکانے، اشتعال انگیزی، دہشتگردی اور تشدد پراکسانے کے یہ رویے دنیا کے امن کے لیے مہلک ہیں، یہ رویے قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے ہی شدید قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں۔علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان سویڈن میں قرآن پاک کی سرعام بے حرمتی کی بار بار اسلامو فوبیا پر مبنی کارروائیوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔انہوں نے ان حرکتوں کو قانونی اور اخلاقی طور پر قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار اور احتجاج کی آڑ میں مذہبی منافرت پر مبنی اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی اجازت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ تمام ممالک مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو الگ تھلگ کرنے کا آغاز کریں، توقع ہے سویڈش حکام اشتعال انگیزی کی کارروائیوں کو روکنے کے اقدامات کریں گے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ سویڈش حکام نفرت اور اشتعال انگیزی کی ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے، تازہ ترین واقعہ کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سویڈش حکام تک پہنچائے جا رہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قبل ازےں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور اس کے نسخے نذرآتش کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناقابل برداشت اور مذموم حرکت آئندہ کسی نے کی تو پھر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے۔وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم پر فرض ہے کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف پوری ملت اسلامیہ اور پاکستان کے عوام کے جذبات ہم پوری دنیا میں ایک زبان کے ساتھ پہنچائیں، اس قبیح حرکت کی بھرپور قوت سے نہ صرف مذمت کریں بلکہ ایسے اقدامات کے خلاف ایوان سے مثر ترین الفاظ میں قرارداد کی منظوری ہو۔انہوں نے اسپیکر سے درخواست کی کہ ایک کمیٹی بنائیں جو آئندہ ایسی مذموم حرکتوں کے خاتمے کے لیے سفارشات دے جو ہم ناصرف پاکستان کے متعلقہ اداروں بلکہ دنیا کے فورمز کو یہ سفارشات پہنچائیں، تاکہ کبھی دوبارہ قیامت تک ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔قرآن کریم اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اور اس کا نزول اللہ تعالی کے آخری نبی محمدﷺ پر ہوا اور قرآن کریم کی حکمت وہ پوری دنیا کو محبت، ایثار، صبر اور تحمل کی تلقین کرتی ہے، قرآن کریم میں حضرت مسیحؑ اور حضرت مریمؑ سمیت بہت سے انبیا کا تفصیل سے ذکر آیا ہے اور ہم بطور مسلمان نہ صرف ان کو نبی مانتے ہیں بلکہ ان کا احترام کرتے ہیں، ان کی کتابوں اور مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے یہاں بائبل کی بے حرمتی کی ہو، بائبل کو جلایا گیا ہو، ہم ان تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں تاکہ ہمارے مذہب اور ہماری کتاب، ہمارے نبی اکرمﷺ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے لیکن اس کے باوجود یہ اسلاموفوبیا اور اسلام کے خلاف جان بوجھ کر جو آگ بھڑکائی جا رہی ہے، یہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑانے کی سازش ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔امتِ مسلمہ جب تک قرآن و سنت پر عمل پیرا رہی تو نہ صرف سیاسی طور پر دنیا پر حکمرانی کی بلکہ سائنسی طور پر بھی دنیا پر راج کیا۔ تمام مذاہب اور خطوں سے تعلق رکھنے والی اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگاہوں کا اسی طرح رخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ڈارک ایجز یعنی تاریک ادوار سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے اور اتفاق و اتحاد کی دولت کو گنوا بیٹھے۔ جب بھی ایسی کوئی ناپاک جسارت کی جاتی ہے تو بلاشبہ مسلم ممالک یک زبان ہو جاتے ہیں اور اس قسم کی فتنہ انگیزی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امتِ مسلمہ حقیقی معنوں میں اللہ تعالی اور نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہو تو پھر کسی کو ایسی ناپاک جسارت کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے؟ اس سے قبل بھی دشمنانِ اسلام گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کی دلآزاری کرتے رہے تو کبھی کتابِ مقدس کی بے حرمتی کرکے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی ناکام سعی کرتے رہے۔اب سویڈن کے دلخراش واقعے پر پاکستان سمیت مسلم ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ سمیت دیگر مسلم ممالک نے عید پر سویڈن کی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کو قابلِ مذمت فعل قرار دیا ہے، جبکہ مراکش نے سویڈن سے احتجاجا اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سویڈن میں اپنا نیا سفیر فی الوقت نہیں بھیجے گا۔ اگرچہ سویڈن میں نئے سفیر کی تعیناتی کا انتظامی طریق کار مکمل ہو چکا ہے لیکن سویڈش حکومت کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا اجازت نامہ جاری کرنے کی وجہ سے سفیر بھیجنے کا عمل روک دیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور عراق نے سویڈن کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جبکہ فلسطین نے اس واقعے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ قطر نے خبردار کیا ہے کہ آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں مذہبی مقدسات کی بار بار بے حرمتی کی اجازت دینا نفرت اور تشدد کو ہوا دیتا ہے، ایسے اقدامات کو بہرطور روکنا ہو گا۔کویت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی خطرناک امر اور اشتعال انگیزی ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے حضور نبی کریم خاتم النبیینﷺ کی شانِ اقدس اور کتاب اللہ قرآنِ مجید کے تقدس میں کسی بھی قسم کی کمی یا بے حرمتی امتِ مسلمہ کے لیے ناقابلِ معافی اور ناقابلِ برداشت جرائم ہیں جن کی سزا ناقابلِ معافی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی ایسی ناپاک جسارت کی اس کا انجام عبرتناک ہی ہوا لیکن اس کے باوجود کچھ انتہا پسند و جنونی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ اگر اسرائیل کی جانب سے قبلہ اول کی بار بار بے حرمتی کا جواب امتِ مسلمہ نے متحد ہوکر دیا ہوتا تو شاید آج ایسی نوبت ہی نہ آتی اور کسی کو مسلمانوں کی دلآزاری کی جرات نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے قبلہ اول کے مسئلے پر پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر مسلم ممالک نے اسرائیل کا بائیکاٹ تو کیا لیکن بحیثیت امت متحد ہوکر قبلہ اول کی حفاظت کے لیے کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے آج تک وہاں اسرائیل کی ناپاک سازشیں جاری ہیں اور فلسطینی مسلمان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی سمیت تمام مسلم ممالک صرف احتجاج ریکارڈ کرانے کے بجائے یورپی و مغربی اقوام سمیت پوری دنیا پر واضح پیغام دیں کہ اگر آئندہ کسی بھی ملک میں ایسی ناپاک جسارت ہوئی اور وہاں کی حکومت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے گستاخ فرد و گروہ کو قرار واقعی سزا نہ دی تو پھر وہ ملک مشترکہ طور پر عالم اسلام کا دشمن قرار دیا جائے گا۔