معیا ری تعلیم کا حق

 وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کہ بہتر تعلیم ہر بچے کا بنیا دی حق ہے، معیاری تعلیم کے ذریعے بچوں کو اپنا مستقبل بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کےلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے، انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں کوالٹی ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کرکے میرٹ کو ہر صورت بحال کیا جائے گا، اس حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ معیاری تعلیم کے حوالے سے تمام اضلاع میں اقدامات کئے جائیں گے۔ ہر ضلع میں ایک یار دو ماڈل سکولز قائم کئے جائیں گے۔ جہاں تمام تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں کو رول ماڈل بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کرنے کےلئے اپنی پوری کوشش کریگی۔ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دیں تاکہ یہ بچے کل کو معاشرے کے ذمہ داری شہری بن سکیں۔معےاری تعلےم کی فاہمی حکومت کی بنےادی ذمہ داری ہے‘مزدور طبقات اور پسماندہ علاقوں کی تعلیمی آس سرکاری و نیم سرکاری اسکولوں کے ساتھ جڑی ہے ملک کے زیادہ تر نو نہال انہیں اسکولوں میں پڑھ کر اپنے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ زندگی کی رفتار اتنی دھیمی نہیں جتنی انہیں اپنے اسکول یا اس کے ماحول میں نظر آتی ہے ۔تعلیم کے پرائیویٹائزیشن کے بعد سماج دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک وہ جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قیمت چکا سکتے ہیں اور دوسرے وہ جو تعلیم تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔خریدنے کی طاقت رکھنے والوں کے لئے آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہیں ان میں بھی جو زیادہ قیمت ادا کر سکتے ہیں وہ زیادہ حاصل کرتے ہیں اس سے سماج کا ایک بڑا طبقہ محرومی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کی تعلیمی و سہ تعلیمی سرگرمیاں ، اساتذہ و طلبہ کے رشتے ، والدین و اساتذہ کی تعلیم کی طرف توجہ ، سماجی حمایت اور اسکول کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔پرائیوےٹ اسکولوں کے اساتذہ طلبہ کے ساتھ پوری محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ نئی کتابوں کا مطالعہ کرکے اسکول جاتے ہیں تاکہ اپنی کلاس کے بچوں کو نئی نئی معلومات بہم پہنچا سکیں کیونکہ جس استاد کے کلاس کا ریزلٹ جتنا اچھا رہتا ہے اس استاد کی اسکول میں اتنی ہی عزت ہوتی ہے ۔ اسکول انتظامیہ اور پرنسپل اس کی کوششوں کو سراہتے ہیں ان کی ترقی کے مواقع ان کی طلبا کے ساتھ محنت اور لگن پر منحصر ہوتے ہیں ۔پرائیوےٹ اسکولوں میں ہر ماہ اوپن ہاﺅس ہوتا ہے جس میں استاد طلبا کے والدین سے مل کر ان کی تعلیمی رپورٹ پر گفتگو کرتے ہیں اس سے ایک طرف بچوں کے والدین میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف اگر ان کے بچے کسی مضمون میں کمزور ہوتے ہیں تو والدین اس کے لئے الگ سے ٹیوشن وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے کو کلاس کے دوسرے بچوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔ پرائیویٹ اسکول سال میں دو تین مرتبہ تعلیمی پکنک ٹور کراتے ہیں تاکہ بچے ماحول سے بھی سیکھ سکیں ۔یہاں استاد شاگرد کا رشتہ ڈر اور محبت سے الگ کچھ اس طرح کا دیکھنے کو ملتا ہے کہ طلبا میں یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ استاد ان کے ساتھ پوری محنت کررہا ہے اور وہ ان کا بہتر مستقبل بنا سکتا ہے ۔لہذا بچے استاد کی بات خوشی خوشی مانتے ہیں جو شرارتی بچے ہوتے ہیں وہ بھی استاد کو ناراض کرنے کا جوکھم نہیں لینا چاہتے۔بچوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اوپن ہاﺅس میں ان کی ساری پول ان کے والدین کے سامنے کھل جائے گی اس طرح تین پہیوں والی گاڑی کی طرح کا ایک مضبوط ربط استاد ، طالبعلم اور والدین کے درمیان قائم ہوتا ہے ۔یہی تعلق بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد کرتا ہے بچے یہاں تک خیال رکھنے لگتے ہیں کہ ان کی ڈریس دوسرے بچوں سے کسی بھی طرح خراب نہ ہو ، وہ کبھی بھی اسکول دیر سے نہ پہنچیں ،استاد کلاس میں کسی کی تعریف کرے تو اس کی تعریف کی جائے یہ خوبیاں اسکول کے تعلیمی ماحول اور استادوں کے رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں پرائیویٹ اسکول اور ان کے طلبا کو سماج کی حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول کے استادوں کا انتخاب سخت مقابلہ اور انٹرویو کے بجائے اسکول کی انتظامیہ اور پرنسپل کے ذریعہ کیا جاتا ۔سرکاری اسکول میں بچوں کا داخلہ کسی ٹیسٹ کے ذریعہ نہیں بلکہ علاقہ کی بنیاد پر لیا جاتا ہے البتہ اساتذہ کا تقرر مقابلہ کے امتحان اور انٹرویو کے بعد ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری تعلیمی محنت تقرر ہونے تک ہی رہتی ہے اسکول جوائن کرنے کے بعد کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے بڑھانے میں دلچسپی لیتے ہیں اساتذہ کی توجہ طلبا کی تعلیم و تربیت کی طرف اتنی نہیں ہوتی جتنی درکار ہے انہیں اپنی کلاس کے اچھے برے نتائج سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا نہ کوئی تعریف کرنے والا ہوتا ہے نہ ہی اس کی وجہ سے ان کو کوئی خاص اضافہ فائدہ ، اوپن ہاﺅس ، تعلیم ٹور یا پکنک کا تو ان کے یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے کئی اسکولوں میں تو اساتذہ طلبا سے انتائی بدتمیزی سے بات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔پڑھانے یا نہ پڑھانے پر انہیں نوکری کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا انہوں نے یہ مان لیا ہوتا ہے کہ ان کے اسکول میں آنے والے بچے ردی ہیں یا کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتے یا کمتر سوسائٹی کے ہیں ان پر محنت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آگے چل کر انہیں کوئی چھوٹا موٹا دھندہ ہی کرنا ہے ، دکان پر بیٹھنا ہے ، ورک شاپ میں کام کرنا ہے ، مزدوری کرنی ہے یا پھر رکشا یا آٹو وغیرہ چلانا ہے اس لئے ان سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی پوری توجہ اوپر کی آمدنی پر ہوتی ہے کوئی ٹیوشن بڑھا کر تنخواہ سے زیادہ کما لیتا ہے تو کوئی پراپرٹی ڈیلر بن جاتا ہے یا اپنی خدا کی دی ہوئی صلاحیت کا قوم کو بنانے میں استعمال نہیں کرتے پھر سونے پر سہاگہ سرکار کے سارے کاموں کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہوتی ہے کبھی مردم شماری میں انہیں لگا دیا جاتا ہے تو کبھی شناختی کارڈ کی تصدیق میں تو کبھی انتخابات میں یا کسی سروے میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں تعلیمی یا سہ تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ہی کہاں ملتا ہے ۔جبکہ یہ محض ایک بہانہ ہے لیکن یہاں بھی سارے اساتذہ ایک جیسے نہیں ہیں کچھ میں جذبہ ہوتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کی وجہ سے کبھی کبھی کوئی نگینہ ان سرکاری اسکولوں سے بھی نکل کر سامنے آجاتا ہے ۔ہم جانتے ہےں کہ پرائمریتعلےم بچوں کی بنیاد بنانے کی سطح ہے اسی سے ملک کی بنیاد مضبوط ہوگی لہذا اس سلسلہ میں کوئی نرمی نہیں برتنی چاہئے ۔ تیسرے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سے سرکار اپنے کام لینا بند کرے ان کے بجائے جو طلبا گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن ہیں ان سے یہ خدمات لی جا سکتی ہیں ۔اس سے ان طلبا کو تجربہ بھی ہوگا اور کچھ جیب خرچ بھی مل جائے گا یہ نو جوان سرکار کے کام کو زیادہ بہتر اور کم وقت میں کر سکیں گے چوتھے اساتذہ کو ٹیوشن یا پرائیوےٹ کوچنگ میں پڑھانے یا کاروبار کرنے پر پابندی عائد کی جائے جس طرح دوسرے سرکاری ملازمین پر ہے پانچویں کی کلاس کے نتائج کے ساتھ ان کی ترقی اور تنخواہ کو جوڑا جائے ۔ اچھا کام کرنے والوں کو کچھ اضافی رقومات بھی دی جائیں اور اجتماعی طور پر ان کے کام کو سراہا بھی جانا چاہئے ۔ اساتذہ کی اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ سرکاری اسکول میں آنے والے بچے بے صلاحیت یا کمتر سوسائٹی کے ہوتے ہیں ، بچے تو سبھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ان کے ساتھ اساتذہ کو مہذب و عزت دار طریقہ اپنانا چاہئے کیونکہ انہیں بنانے سنوارنے کا کام کو اساتذہ کا ہی ہوتا ہے ۔سوچ بدلے گی تو سماج کی حمایت بھی انہیں حاصل ہوگی ۔اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں بڑی قیمت لیکر بہت معیاری تعلیم دی جا رہی ہے ۔پاکستان دےگر ممالک سے تعلیمی معیار کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے گریجویشن کر چکے بچے ایک درخواست تک صحیح طریقہ سے نہیں لکھ سکتے اسکول و کالجوں سے نکلنے والی بھیڑ بڑی رقم خرچ کرنے کے با وجود معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی طرف بڑھ رہی ہے یہ حالت روایتی تعلیم ہائی اسکول ، انٹر ، بے اے ، بے کام ، بی اے سی ، کرنے والوں کی نہیں بلکہ انجینئرنگ اور پروفیشنل کورسز کرنے والوں کی بھی ہے انہوں نے جس مضمون میں ڈگری حاصل کی ہے انہیں اس کی بنیادی معلومات تک نہیں ہوتی جنہوں نے محنت سے پڑھا ہوتا ہے اور دل لگا کر سیکھا ہوتا ہے انہیں نوکری ملنے میں دیر نہیں لگتی لیکن جو بس کسی طرح ڈگری ، ڈپلوما لیکر نکل آتے ہیں وہ اپنی اسناد کو لئے ادھر سے ادھر گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس میں پرائیویٹ کالجوں سے نکلنے والے طلبا کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔تعلیم وہی ہے جو معیاری ہو اس کسوٹی کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تعلیم کے ذریعہ اپنے نئی نسل کو کیا دینا چاہتے ہیں اس نسل سے کیا صرف سرکار کے لئے کام لینا ہے یعنی سرکاری نوکری فراہم کرنی ہے ؟ ظاہر ہے سب کو سرکار نوکری نہیں دے سکتی تو پھر کیا ہم عالمی بازار کے لئے اپنی نسل کو تیار کرنا چاہتے ہیں یعنی بین الاقوامی سطح پر انہیں نوکری یا روزگار مل سکے ۔اس میں کارپوریٹ سیکٹر کو شامل کرلیا جائے تو یہ دائرہ اور بڑا ہو جاتا ہے کہ ہم اس کے لئے اپنی نسل کو تیار کررہے ہیں یا پھر اسے خود کفیل بنا کر اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں کہ وہ کئی اور لوگوں کو روزگار دینے کی حیثیت میں آجائے ۔ تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو ان تینوں زمروں کے لئے نئی نسل کو تیار کرسکے تاکہ ان کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں۔